یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے پرعورت مارچ لاہور کا شدید ردعمل
پنجاب کی ایک یونیورسٹی میں خواتین کی جاسوسی، ہراساں اور بلیک میلنگ کی خبروں پر عورت مارچ لاہور کی جانب سے شدید مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامک یونیورسٹی بہاولپور کے سابق سیکیورٹی افسر کو ان کے موبائل فون پر طالبات اور عملے کی متعدد ویڈیوز کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔
یہ رد عمل اس وقت سامنے آیا جب میڈیا پریہ خبریں سامنے آئیں کہ بہاولپور کی بغداد الجدید پولیس کے پولیس افسران نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکیورٹی آفیسر کو مبینہ طور پر ن قبضے سے منشیات برآمد ہونے کے بعد گرفتار کیا۔
عورت مارچ کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس طرح کے تمام واقعات ہو رہے ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی کیمپس کو ”محفوظ“ بنانے کے لئے کیمپس میں مزید کیمروں پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ’سیکیورٹی‘ کو وجہ بنا کر خوتین کے ہاسٹل شام کو ہی بند کردیتی ہے جس سے ان کی نقل و حرکت ، روزگاراورآزادی متاثرہوتی ہے’۔
ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ، ’کیمرے اور امتیازی پالیسیاں کیمپسزمحفوظ بنانے میں مکمل طور پرناکام ہیں‘۔
عورت مارچ کی جانب سے مزید لکھاگیا ہے کہ،جنسی ہراسانی کی سوچی سمجھی پالیسیوں اور متاثرہ طالبات کو مورد الزام ٹھہرائے ان پالیسیوں پر عمل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو طلبہ کی فلاح و بہبود کے لئے حقیقی تشویش کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ صرف اپنی ساکھ کے لئے۔ یونیورسٹیوں کو نگرانی کی ذمہ داری کو ختم کرنے سے آگے بڑھ کر تمام طلباء کے لئے ایک محفوظ کیمپس بنانے کی طرف دیکھنا چاہئیے۔
دریں اثنا اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے نام سے ایک ٹوئٹر پیج نے وائس چانسلر شہزاد احمد خالد سے متعلق ایک بیان شیئر کیا۔
بیان میں گرفتاری کے بعد ہونے والی پیش رفت کو یونیورسٹی کے خلاف مہم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی کی پالیسیوں کے مطابق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور منشیات اور ہراسانی کے خلاف ”زیرو ٹالرنس“ رکھتی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی ان کارروائیوں میں ملوث کسی بھی فیکلٹی ممبر یا افسر کو جوابدہ ٹھہرائے گی۔
Comments are closed on this story.