Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

مصنوعی ذہانت نے مُردہ کو بھی زندہ کردیا

اداکاروں نے ڈیڈ بوٹس پرتشویش ظاہرکردی
شائع 21 جولائ 2023 02:02pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

مصنوعی ذہانت کی طاقت کی بدولت مشہور شخصیات کو ڈیجیٹل کلون کے طور پر دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے۔

زیادہ تر اداکار ایک ایسا کیریئر بنانے کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی یاد دلاتا رہے لیکن اکثراس میں ناکام رہتے ہیں۔

شو بزنس کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک مشکل جگہ ہے تاہم جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں ان کا نام زندہ رہتا ہے۔

ایسا ہی ایک ستارہ جیمز ڈین تھے جواپنی تین کامیاب فلموں کے بعد 1955 میں ایک کار حادثے میں چل بسے۔

جیمزڈین کا نام ان کے انتقال کے سات دہائیوں بعد نئی فلم بیک ٹو ایڈن میں ایک اسٹار کے طور پرکاسٹ کیا گیا ہے۔

اداکار کا ایک ڈیجیٹل کلون مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جیسا کہ جعلی ویڈیوزمیں کیا جاتا ہے لیکن اس کاپی کو فلم میں گھومتے، جاگتے اور دوسرے اداکاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھا جائے گا۔

یہ ٹیکنا لوجی ہالی ووڈ کمپیوٹر جنریٹڈ امیجری (سی جی آئی) کے جدید ترین مقام پرہے لیکن یہ اداکاروں اور اسکرین رائٹرز کی طرف سے اٹھائے جانے والے کچھ خدشات کی جڑ بھی ہے جو 43 سالوں میں پہلی بار ہالی ووڈ میں ہڑتال پر نکلے ہیں۔

انہیں فکر ہے کہ منافع پرمبنی مصنوعی ذہانت کا پروگرام ان کا متبادل پیدا کررہا ہے جن میں سے ایک اداکار سوسن سارینڈن ہیں۔

انہوں نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے مجھے ایسی باتیں کہنے اور کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جن پر میرا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔

واضح رہے کہ جیمز ڈین پہلے اداکار نہیں ہیں جنہیں مردہ حالت میں واپس لایا گیا ہے ۔ پال والکر، ہیرالڈ رمیس، اور کیری فشر سبھی اپنی موت کے بعد فلم میں نظر آئے ہیں۔

ایک حالیہ آٹو کمرشل میں برازیلین گلوکارہ ایلس ریجینا نے اپنی بیٹی ماریہ ریٹا کے ساتھ پرفارم کیا ہے۔

جیمز ڈین بھی 2019 میں فائنڈنگ جیک نامی فلم میں نظر آنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے والے تھے لیکن اس پروجیکٹ کو بعد میں روک دیا گیا۔

میڈیا ایجنسی ورلڈ وائیڈ ایکس آر (ڈبلیو ایکس آر) کے ٹریوس کلائیڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ جیمز ڈین اب سائنس فکشن فلم ”بیک ٹو ایڈن“ میں نظر آئیں گے ۔

فلم میں ایک کردار ہونے کےعلاوہ ان کا یہ ڈیجیٹل رول مختلف چینلز کے ذریعے ناظرین سے بات چیت بھی کرسکے گا۔

اگرچہ کسی کا چہرہ استعمال کرنا اس ٹیکنالوجی کا صرف ایک پہلو ہے لیکن یہ بہت سے دوسرے سوالات کی وجہ بھی بنتا ہے۔

یعنی کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے کیریئر کو کون کنٹرول کرتا ہے؟ ان کے چہرے، آواز اور شخصیت کس کی ملکیت ہوتے ہیں؟ کیا ایک اداکار کو اچانک کسی کامیڈی یا فحش فلم میں کاسٹ کیا جا سکتا ہے؟

تو ان مشہور لوگوں کو ان کی قبروں میں سکون سے رہنے کیوں نہ دیا جائے؟

ڈیجیٹل کلون

مشہور لوگ بیٹی پیج، روزا پارکس، میلکم ایکس، امیلیا ایرہارٹ اور جیمزکی سیکڑوں تصاویرہیں جن کی WRX اور CMG نامی کمپنیاں نمائندگی کرتی ہیں۔

جیمز ڈین کی تخلیق کردہ فلم، تصاویر اور آڈیو کو اب WRX کی زبان میں سورس میٹیریل کہا جاتا ہے۔ کلائیڈ کے مطابق جیمز کی نمائندگی کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پیشہ ور افراد نے سیکڑوں تصاویر کو ہائی ریزولوشن میں سکین کیا۔

ڈیجیٹل کلون جیمز ڈین کی طرح حرکت کرسکتے ہیں جو آڈیو، ویڈیو اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیے جا سکتے ہیں۔

جیمزڈین نے اپنا ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ نہیں چھوڑا ہے۔ سوشل میڈیا، سیلفیز، ٹیکسٹ میسجز، ای میلز اور آن لائن شاپنگ کے ذریعے آج کی دنیا میں مشہور شخصیات اپنے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ چھوڑجاتی ہیں۔

اپنے پیاروں کے بارے میں ڈیجیٹل معلومات کی مدد سے اب صارفین ڈیڈ بوٹس بنا سکتے ہیں جو زندہ لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

نزندہ اداکاروں کی جگہ مردہ کو ملازمت

ٹام ہینکس کی پیشن گوئی اداکاروں میں تشویش کو اجاگر کرتی ہے۔ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ مردہ لوگوں کو ڈیجیٹل طور پر زندہ کرنے سے اداکاروں اور عام لوگوں دونوں کے لیے اخلاقی، قانونی اور عملی مسائل پیدا ہوں گے۔

نیشنل ایسوسی ایشن آف وائس ایکٹرز (NAVA) کے صدر اور بانی ٹم فریڈلینڈر کہتے ہیں کہ ”مکی ماؤس، پورکی پگ، اور اسنو وائٹ، جب ان وائس آرٹسٹ کی موت ہو جاتی ہے تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔“

لونی ٹیونز کارٹون میں متعدد کرداروں کی آوازیں معروف امریکی وائس آرٹسٹ مل بلانک نے ریکارڈ کیں۔

ٹریوس کلائیڈ مردہ اداکاروں کے استعمال کو ”آدھا خالی آدھا بھرے گلاس“ کی صورتحال کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اس کے نتیجے میں اداکاروں کے لیے مواقع کم ہوں گے۔

ان کا اشارہ مردہ اداکاروں کا استعمال کر کے اداکاری کے علاوہ اور تکنیکی ملازمیتں پیدا کرنے کی طرف تھا۔

مُردوں کے حقوق

اگردنیا سے جانے والوں کی ڈیجیٹل کاپیاں غیر معینہ مدت تک کام کرتی رہیں تو مالی طور پر کون اس کا فائدہ اٹھائے گا اور کیا مُردہ افراد کے کوئی حقوق ہیں؟

اگر دو ٹوک الفاظ میں کہا جائے تو اس کے متعلق کچھ قابل اعتراض اصول ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ جگہوں پران کے کوئی حقوق بھی نہ ہوں۔

امریکی بار ایسوسی ایشن کے میگزین لینڈ سلائیڈ کے لیے مشہور شخصیات کے پوسٹ مارٹم پبلسٹی کے حقوق پر لکھے گئےایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی ہر ریاست میں صورتحال مختلف ہے لیکن کچھ ریاستوں میں مردہ اداکاروں کی خواہشات کا تحفظ کرنے کے لیے کوئی واضح پبلسیٹی حقوق نہیں ہیں۔

عام طور پر جب کسی مشہور شخصیت کی موت ہوتی ہے تو اس کے ’پبلسٹی کے حقوق‘ اس شخصیت کے قریبی رشتہ داروں یا وصیت کے ذریعے کسی اور پارٹی کو منتقل ہو جاتے ہیں۔

اس حوالےسے قوانین کیا کہتے ہیں

عام لوگوں کا اپنی موت کے بعد اپنی تصویر اور ڈیجیٹل میراث پر بہت کم کنٹرول ہوتا ہے لیکن عام شہریوں کو ان کی موت کے بعد ان کی شبیہہ اور ڈیجیٹل میراث پر کم ہی اختیار حاصل ہے۔

امریکہ میں کچھ ایسے قوانین موجود ہیں جو ذاتی استعمال کے لیے مُردوں کو ڈیجیٹل طور پر دوبارہ زندہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔

آپ کے مرنے کے بعد کوئی بھی آپ کی پبلک ڈیجیٹل لیگیسی (انٹرٹیٹ پر آپ کا ذاتی ڈیٹا) کسی مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر میں ڈال کر آپ کا ڈیڈ باٹ یا اواتار بنا سکتا ہے۔

hollywood

سائنس

Film

lifestyle

life and style

Artificial Intelligence (AI)

actors