پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا، امریکا
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کے دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
وائٹ ہاؤس میں پریس سیکریٹری کیرین جین پیری کے ہمراہ مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران ترجمان امریکی سلامتی کونسل سے سوال کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا، پاکستان کی جانب سے افغانستان پر پاکستان مخالفشدت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام اور افغانستان میں ان کیخلاف کارروائی کرنے کی دھمکی پروائٹ ہاؤس کا موقف کیا ہے؟۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ ، ’ہمیں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ افغان پناہ گزین پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔ ہم محفوظ جگہ کی تلاش کرتے افغانوں کیلئے پاکستان کی فراخدلی پر شکر گزار ہیں۔ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، جیسا کہ ہم ان کے دہشتگردی کے حقیقی خطرات اور انسداد دہشتگردی سے متعلق چیلنجز کے حوالے سے کام کرتے رہے ہیں‘۔
دوسری جانب اسی حوالے سے ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ، ’افغانستان کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پراستعمال ہونے سے روکنا طالبان کی ذمہ داری ہے‘۔
پپریس بریفنگ کے دوران میتھیو ملرسے پاکستان میں کور کمانڈرز کی کانفرنس میں افغانستان پردہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے سے متعلق دیے جانے والے زور سے متعلق پوچھا گیاتھا۔
میتھو ملر کا کہناتھا کہ، ’میں اس پرخاص تبصرہ نہیں کروں گا لیکن یہ کہوں گا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پراستعمال ہونے سے روکنا طالبان کی ذمہ داری ہے‘۔
واضح رہے کہ امریکی عہدیداروں کے یہ بیانات گزشتہ روز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرکی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں کہا گیاہے کہ ، ’ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے دہشت گردوں کی پڑوسی ملک میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں، اور انہیں کارروائی کی آزادی میسر ہے، دہشت گردوں کو ان سہولیات سمیت جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی سے پاکستان کی سیکیورٹی متاثر ہورہی ہے’۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان میں دہشتگردوں کے دو بڑے حملوں میں 12 فوجی جوان شہید ہوئے تھے جس کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان میں کہا گیا تھا کہ ، ’پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا اہم پہلو ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔ ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور ان کا موثر جواب دیا جائے گا‘،۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے مزید کہاگیا تھا کہ کہ پاک فوج دوحہ معاہدے کے مطابق افغان حکومت سےتوقع رکھتی ہے کہ کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کیخلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
جمعہ 15 جولائی کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ گزشتہ 40-50 سالوں سے 50-60 ملین افغان باشندے اپنے حقوق کے لیے پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشتگرد اس سرزمین پرموجود ہیں، جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پڑوسیوں کے حقوق پرعمل نہیں کرتی اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پابند ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا اگر پاکستان کی حکومت ان کو ثبوت دیتی ہے تو وہ پاکستانی طالبان کے خلاف اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستانی فریق نے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔“
Comments are closed on this story.