سوڈان کا ام درمان کے رہائشی علاقے پر فضائی حملہ، 22 افراد ہلاک متعدد زخمی
سوڈان کے شہر ام درمان میں متحارب افواج میں شدید لڑائی جاری ہے، سوڈانی افواج کے حالیہ فضائی حملوں میں بائیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں، پیراملٹری فورسز نے فوج کو رہائشی علاقوں میں حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جو پندرہ اپریل کے بعد رہائشی علاقے میں سب سے مہلک حملہ ہے۔
سوڈان کے متحارب فوجی دھڑوں کے درمیان جنگ 12ویں ہفتے میں داخل ہو گئی ہے اور مغربی شہر ام درمان پر سوڈانی فوج کے حالیہ فضائی حملے میں کم از کم 22 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
نیم فوجی سریع الحرکت فورسز (RSF) نے 15 اپریل کو شورع ہونے والی لڑائی کے بعد دارالحکومت خرطوم اور اس کے جڑواں شہروں ام درمان اور بحری پر تیزی سے غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
جس کے بعد فوج نے فضائی اور توپ خانے سے حملے شروع کر دیئے ہیں۔
لڑائی کے لیے اب تک ثالثی کی کوئی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں، اور خطرہ ہے کہ ملک ایک وسیع خانہ جنگی کی طرف جا سکتا ہے۔
اس لڑائی کی وجہ سے دیگر اندرونی و بیرونی عوامل کی توجہ بھی اس مشرقی افریقی ملک کی طرف ہو جائے گی جو ہارن آف افریقہ، ساہل، اور بحیرہ احمر کے درمیان واقع ہے۔
جمہوریت کی جانب اٹھنے والے نئے قدم کے تحت چین آف کمانڈ اور اپنی افواج کے انضمام کے معاملے پر فریقین کے درمیان کشیدگی حالیہ مہینوں میں بڑھ گئی تھی جو جنگ تک جاپہنچی۔
سوڈانی وزارتِ صحت کے مطابق دارالحکومت خرطوم، کوردفان اور دارفر کے علاقوں سے شروع ہونے والی لڑائی میں کم از کم 1133 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔2.9 ملین سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً 7 لاکھ ایسے بھی شامل ہیں جو (پناہ کے لیے) ہمسایہ ممالک کی طرف بھاگ گئے ہیں۔
امدادی اداروں کے مطابق، جنگ کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری اور اغوا کی تعداد بھی ”خطرناک“ حد تک بڑھ گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں لڑائی کا مرکز ام درمان رہا ہے کیونکہ شہر کا مغربی حصہ آر ایس ایف کے لیے ایک اہم راستہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے طاقت کے مرکز، دارفور سے کمک حاصل کرتے ہیں۔
مشرقی ام درمان میں ملک کے سرکاری نشریاتی کمپلیکس پر بھی رات کو حملے کیے گئے جن میں جمعہ کی رات والا حملہ بھی شامل ہے۔ راتوں رات کیے گئے دیگر حملے جنوبی اور مشرقی خرطوم میں ہوئے۔
فوج نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا کہ خصوصی دستوں نے 20 ”باغی فوجیوں“ کو ہلاک اور ان کے ہتھیاروں کو تباہ کر دیا ہے۔
Comments are closed on this story.