بیس برس میں اسرائیل کا غرب اردن پر سب سے بڑا حملہ، 9 فلسطینی شہید
غرب اردن یا مغربی کنارے میں واقع جنین پناہ گزین کیمپ پراسرائیلی فضائیہ نے ایک بڑا فضائی حملہ کیا ہے جس میں 9 فلسطینی شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ بیس برسوں کے دوران غرب اردن میں اسرائیل کا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔
عینی شاہدین نے الجزیرہ کو بتایا کہ کم از کم 10 فضائی حملے کیے گئے جن میں سے ایک میزائل حملہ تھا۔ اس دوران درجنوں بکتر بند گاڑیوں نے جنین کی پناہ گزین کیمپ کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت نازک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
عینی شاہد کا کہنا ہے کہ شہید ہونے والے نوجوانوں کو بروقت اسپتال لے جانے کی اجازت دی جاتی تو جانیں بچائی جا سکتی تھیں، لیکن بکتر بند گاڑیوں کے حصار کے باعث زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینسوں کو راستہ نہیں ملا۔ کئی زخمیوں کو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت طبی امداد فراہم کی۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق ایک 21 سالہ نوجوان محمد حسنین کو رام اللہ میں اسرائیلی فوج نے گولی مار کر شہید کیا۔
اقوام متحدہ نے جنین میں اسرائیل کی جانب سے ”جدید فوجی ہتھیاروں“ کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پناہ گزین کیمپ میں حالات کافی کشیدہ ہیں۔ ایمبولینسیں زخمیوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ جنین میں فلسطینی عسکری مزاحمتی تنظیموں کے ایک ”مشترکہ آپریشن سینٹر“ کو نشانہ بنایا جو کمانڈ سینٹر کے طور پر کام کرتا تھا اور یہ ”جدید مشاہدے اور جاسوسی مرکز“ اور ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کی جگہ کے ساتھ ساتھ فلسطینی جنگجوؤں کے لیے رابطہ کاری اور مواصلاتی مرکز کے طور پر کام کرتا تھا۔
اسرائیلی فوج نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر ایک فضائی تصویر بھی فراہم کی جس میں ہدف کے مقام یعنی ’’کمانڈ سینٹر‘‘ کو دکھایا گیا۔ اس کمانڈ سینٹر کے نزدیک دو اسکول اور ایک طبی مرکز بھی واقع تھا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جنین کے کیمپ میں آپریشن کے دوران انتہائی مطلوب ’فلسطینی عسکریت پسندوں‘ کو گرفتار اور دھماکا خیز مواد ضبط کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق ضبط شدہ بارودی مواد وہی ہے جسے گزشتہ ماہ جنین پناہ گزین کیمپ پر چھاپے کے دوران اسرائیلی فوج کے خلاف استعمال کیا گیا تھا اور جس سے 8 اسرائیلی فوجی زخمی ہوگئے تھے۔
الجزیرہ کی ندا ابراہیم نے رام اللہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جس بارودی مواد کو ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس گھریلو ساختہ دھماکہ خیز مواد نے اسرائیلی افواج کو حیران کردیا تھا اور اسی مواد کے ڈر سے زمینی کارروائی کے بجائے اسرائیلی فوج نے میزائل گرانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرنا درست سمجھا۔
ندا ابراہیم نے مزید بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جسے ہم نے پناہ گزین کیمپ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً 20 برسوں میں دیکھا ہے۔
20 برس کے دوران اسرائیل کی سب سے بڑی جارحیت
برطانوی اخبار گارجین کے مطابق 20 برس کے دوران مغربی کنارے یا غرب اردن میں اسرائیل کی یہ سب سے بڑی جارحیت ہے، اس سے قبل اسرائیل غزہ کی پٹی پر حملے کرتا رہا ہے جو حماس کے زیر انتطام ہے، تاہم فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول غرب اردن میں اس بڑے پیمانے پر اسرائیلی حملے دیکھنے میں نہیں آئے۔
گارجین کے مطابق آخری مرتبہ اس نوعیت کی شدید لڑائی 2002 میں دیکھنے میں آئی تھی جب دوسری انتفاضہ کے دوران جنین کی لڑائی میں 50 فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی اسرائیلی جارحیت کی مذمت
فلسطینی علاقے جنین شہر میں اسرائیلی جارحیت پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
او آئی سی کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کھلی دہشتگردی ہے، اسرائیلی دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے۔
او آئی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ مہاجرین کے کیمپوں، طبی مراکز اور گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، اسرائیل اپنے جرائم اور قبضے میں توسیع کر رہا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل کو جارحیت سے روکے۔
Comments are closed on this story.