کینیڈا سے آنے والے امین الدین علوی کا آخری سفربھی غریبوں کی مدد کے لیے تھا
کراچی کے علاقے پاپوش نگر ناظم آباد بورڈ آفس پر فائرنگ سےجاں بحق ہونے والے 55 سالہ پاکستانی نژاد سید امین الدین علوی انتہائی سخی انسان تھے جو کینیڈا سے پاکستان آکرہرایک کی مدد کرتے۔
امین علوی غریب بچوں کو عید کی شاپنگ کیلئے کے کرگئے تھے لیکن ڈکیتوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ واقعے سے قبل وہ دوپہر کو قریبی غریب بستی کھنڈو گوٹھ کے رہائشی 3 غریب بچوں کو نارتھ ناظم آباد میں واقع اپنے گھر سے لیکر نکلے تھے جہاں سے وہ بینک اور پھر بچوں کو شاپنگ کے لیے ناظم آباد لے کرگئے۔
قتل کا مقدمہ امین الدین علوی کی بہن کی مدعیت میں تھانہ پاپوش نگرمیں درج کیا گیا ہے جنہیں امین الدین کے ڈکیتی مزاحمت میں زخمی ہونے کی اطلاع کینیڈا میں ہی مقیم ان کے دوسرے بھائی نے دی تھی، پاکستان سے کینیڈا یہ اطلاع امین الدین کے ملازم نےفون پر پہنچائی تھی۔
ایف آئی آر میں قتل اور اقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ متن کے مطابق ، ’پاپوش نگر ریلوے پھاٹک کے قریب موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان آئے،اور اسلحہ کے زور پر بھائی کو لوٹنے کی کوشش کی، مزاحمت کرنے پر ملزمان نے فائرنگ کردی، ان کی ٹانگ پرگولی لگی تھی، عباسی شپید اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔‘
امین الدین کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی کے مطابق وہ عید الضحیٰ منانے کیلے چند روز قبل ہی پاکستان پہنچے تھے ، ان کے المناک انتقال کی خبر سُننے کے بعد دونوں بیٹے آج کراچی پہنچیں گے جس کے بعد تدفین عمل میں آئے گی۔
ایس ایچ او تھانہ پاپوش نگرملک شوکت اعوان کے مطابق تینوں لڑکوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ امین الدین انہیں اپنی گاڑی میں ساتھ لے کر گئے تھے، سب سے پہلے ہم بینک گئے جس کے بعد ہمیں عید کی خریداری کروائی۔ انہوں نے ساتھ کھایا پیا بھی ، اس دوران میڑک بورڈ آفس کی عمارت کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی کو روک لیا اور ان میں سے ایک نے پستول نکال کر کوئی بات کی۔
ملک شوکت اعوان نے بتایا کہ دوسرا موٹر سائیکل سوار اس دوران دورکھڑا رہا، بات کرنے کے دوران مقتول نے ہاتھ پیچھے کیا تو موٹر سائیکل سوار نے فائرکھول دیا اور امین الدین کی ٹانگ پر گولی لگی۔
لڑکوں نے یہ بھی بتایا کہ گولی لگنے کے بعد کافی دیر تک کسی نے امین الدین کی مدد نہیں کی اور وہ کافی دیر تک تڑپتے رہے، اس دوران وہاں سے گزرنے والے ایک رکشہ ڈرائیور انہیں اسپتال لے کرگیا۔
تاہم اسپتال پہنچنے تک امین الدین کا کافی خون بہہ چُکا تھا اسی لیے وہ چل بسے۔
ایس ایچ او کے مطابق، ’پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق مقتول انتہائی خدا ترس انسان تھے جو کئی لوگوں کی مدد کررہے تھے۔‘
مقتول کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی عمر تقریباً 65 سال تھی اوروہ سعودی ایئر لائن میں بطور ائرکرافٹ انجینیئر کام کرنے کے بعدکینیڈا میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے لواحقین میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
بہنوئی نے سید امین الدین علوی کے حوالے سے مزید بتایا کہ وہ ہر کسی کی مدد کرتے تھے اور سال میں 2 سے 3 بار کراچی آنا ان کا معمول تھا، عموماً عید وغیرہ کے موقع پر وہ اکثر و قریبی بستی کھنڈو گوٹھ جاتے جہاں کے لوگ ان سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔
اُن کہنا تھا کہ، ’ہم جانتے ہیں ضرورت پڑنے پرانہوں نے خاندان کے کئی افراد کی مدد کی مگر کبھی نہیں جتلایا کہ وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
سید صغیر الدین علوی نے مزید کہا کہ ، ’ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ ضرورتھا کہ غریب بستی میں انکی کیا سرگرمیاں ہیں مگر انہوں نے آج تک کبھی اپنی زبان سے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا نہ بتایا کہ وہ مخلوق خدا کی مدد کس طرح کرتے ہیں۔‘
محنت کشوں اور غریب افراد پر مشتمل اس بستی کے رہائشیوں میں محمد جمال بھی شامل ہیں جو امین الدین علوی کو کئی سال سے جانتے تھے۔
محمد جمال نے بی بی سی کو بتایا کہ امین الدین ایک خدا ترس انسان تھے جو بستی کے کئی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ، ’وہ ہماری بستی کے کم از کم 6 لڑکوں کی تعلیم کا مکمل خرچہ اٹھاتے تھے۔ وہ کم عمر بچے جو پہلے محنت مزدوری کرتے تھے اب تعلیم حاصل کرتے اور قریب کے اسکولوں میں جاتے ہیں۔‘
محمد جمال کے مطابق امین الدین جب بھی پاکستان آتے تو زیادہ تر وقت انہی کی بستی میں گزارتے اور جن بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھارہے تھے ، ان سے بات چیت کرتے رہتے۔ انہیں ساتھ لے جا کر کریہ یقینی بنانے کے لیے اسکول جاتے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کا مستقبل بہتری کی طرف گامزن ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ بچوں کو اپنے ساتھ بازار لے کر جانا بھی امین الدین کے معمولات میں شامل تھا، وہ ان بچوں کو خریداری کرواتے تھے۔ اورعموماً یہ موقع عید ہی کا ہوتا تھا۔
غرباء کی مدد کیلئے امین الدین نے کچھ لوگوں کو چھوٹا موٹا کاروباربھی شروع کروایا تھا لیکن سرمایہ فراہم کرنے سے قبل ان کی شرط ہوتی کہ کاروبار کرنے والے اپنے بچوں کو تعکیم لازمی دلوائیں گے۔
محمد جمال نے مزید بتایا کہ ہربار پاکستان آمد پر امین الدین اس بات پرضرور توجہ مرکوز رکھتے کہ والدین اپنے بچوں کی کیسی تربیت کررہے ہیں۔
Comments are closed on this story.