’فوجی عدالتوں کیخلاف حکم پر عملدرآمد نہیں ہوگا، نگراں حکومت 2024 تک الیکشن نہیں کرائے گی‘
پاکستان کے سینئیر ترین صحافیوں میں سے ایک حامد میر نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ایک ہی دن ن لیگ کی حمایت میں بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید انہوں نے کسی کو اشارہ دیا ہے کہ وہ ن لیگ کو تنگ نہیں کریں گے۔
انہوں نے آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں شرکت کی، میزبان شوکت پراچہ نے جب حامد میر سے آصف زرداری کے گزشتہ روز دئیے گئے بیان کہ ’میں ن لیگ کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا‘، پر تبصرہ چاہا تو پہلے انہوں نے کہا کہ میں نے بیان نہیں سنا اس لیے اس پر کمنٹ نہیں کرسکتا۔
لیکن جب شوکت پراچہ نے انہیں تھوڑی تفصیل بتائی تو حامد میر نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے وہ ن لیگ کو بھی سنا رہے ہوں اور کسی اور کو بھی سنا رہے ہوں کہ بھئی ہم ن لیگ کو زیادہ تنگ نہیں کریں گے آپ بے فکر ہوجائیں، اگر آپ یہ سمجھتے ہیں شاید ہم تنگ کر رہے ہیں تو ہم تنگ نہیں کریں گے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن میرا خیال ہے کہ ن لیگ کے بارے میں اسٹیٹمنٹ (بیان) تو بلاول صاحب نے دی تھی تو بلاول صاحب نے بھی قومی اسمبلی میں وضاحت کی، تو ایک ہی دن بلاول صاحب نے بھی وضاحت کردی اور زرداری صاحب نے بھی اپنا معاملہ کلئیر کردیا، تو لگتا یہی ہے کہ شاید انہیں کسی نے کہا کہ بھئی۔۔۔ (حامد میر نے گردن سے اشارہ کیا جیسے پوچھ رہے ہوں)، تو انہوں نے کہا ۔۔۔ (حامد میر نے معافی کے انداز میں ہاتھ جوڑے)‘۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ 2022 میں جب یہ تحریک عدم اعتماد لا رہے تھے تو اس وقت ابتدائی طور پر ن لیگ چاہتی تھی کہ زرداری صاحب وزیراعظم بنیں، زرداری صاحب نے شہباز شریف صاحب کو کہا تھا کہ آپ کی پارٹی بڑی ہے آپ کی اکثریت زیادہ ہے آپ وزیراعظم بن جائیں، ’تو شہباز شریف صاحب کا خیال تھا کہ میری پارٹی مجھے امیدوار نہیں بنائے گی، اس کے بعد زرداری صاحب نے باقاعدہ شہباز شریف صاحب کیلئے لابنگ کی‘۔
حامد میر نے مزید کہا کہ زرداری صاحب ن لیگ کے ووٹوں پر انپا حق نہیں جتا سکتے تھے، زرداری صاحب نے گیم ایسی بنائی کہ انہوں کہا ایم کیو ایم کو بھی میں لے کر آؤں گا اور باپ پارٹی کو بھی میں لے کر آؤں گا، ایک دو آزاد بھی میں لے کر آؤں گا، بی این پی کو بھی میں لے کر آؤں گا، تو ووٹ جو ہے وہ میں پورے کروں گا، اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ووٹ بھی اکٹھے ہوجائیں گے، ’تو ویراعظم جس کو بھی بننا ہے نا، تو اس کو میرے علاقے سے ہوکر گزرنا پڑے گا‘۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ ن لیگ وزارت عظمیٰ کیلئے کوئی امیدوار بھی تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ ’وہ کہہ رہا ہے نا آج کل مفتاح اسماعیل کہ بیسٹ آپشن وزارت عظمیٰ کیلئے جو ہے وہ شاہد خاقان عباسی ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے شاہد خاقان عباسی کہیں نظر نہیں آتے۔
حامد میر نے کہا کہ ’ایک چیف جسٹس ہوتے تھے ہمارے، ان کا نام تھا جسٹس گلزار احمد صاحب، جسٹس گلزار احمد صاحب نے ایک حکم صادر کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایسے کسی بینچ میں شامل نہ کیا جائے جہاں پہ چئیرمین تحریک انصاف کا کیس سامنے ہو، کل بھی انہوں (جسٹس فائز عیسیٰ) نے کہا ، اب مجھے جو ہے وہ بتائیں جسٹس عمر عطا بندیال صاحب، ذرا مجھے بتائیں کہ جب گلزار احمد صاحب نے یہ حکم جاری کردیا، تو اس کے بعد آپ لوگوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو کسی بھی ایسے بینچ میں شامل نہیں کیا جس میں ڈائریکٹلی یا ان ڈائریکٹلی چئیرمین تحریک انصاف زیر بحث تھے، یا ان پر کوئی الزام تھا یا ان پر کوئی پٹیشن تھی۔ اچانک فوجی عدالتوں کا مسئلہ آیا تو آپ نے جو وہ چیف جسٹس آف پاکستان کا وہ جو حکم ہے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو اس بینچ میں ڈال دیا ، جس میں کہ وہ خود چئیرمین تحریک انصاف بھی ایک پٹیشنر ہے، ان کی پٹیشن جو ہے اس کے وکیل شعیب شاہین صاحب ہیں، اور اعتزاز احسن صاحب کی پٹیشن کے وکیل لطیف کھوسہ صاحب ہیں‘۔
انہوں نے کہا، ’میں سوچ رہا تھا کہ یار یہ کس قسم کی سپریم کورٹ ہے، جب ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے، یا ان کا اپنا انٹرسٹ ہوتا ہے، پولیٹیکل کنسڈریشن ہوتی ہے تو قاضی فائز عیسیٰ ان کو یاد نہیں آتا۔ اور جب ان کا کوئی خیال ہے کہ اب اگر ہم اس کو بینچ میں شامل کریں تو یہ وہی بات کرے گا جو ہم چاہتے ہیں یہ کرے تو اس کو بینچ میں ڈال لیتے ہیں‘۔
حامد میر نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو اگر آپ پڑھیں تو اس میں قاضی فائز عیسیٰ نے دو اداروں آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کو نام لے کر کہا تھا کہ آپ سیاست میں مداخلت بند کریں، تو اس پر جنرل قمر جاوید باجوہ بڑے ناراض ہوئے، ’مجھے کہا جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے کہ یہ قاضی فائز عیسیٰ ٹھیک جج نہیں ہے، اس کے خلاف ریفرنس آنا چاہئیے‘۔ چئیرمین پی ٹی آئی نے اس پر مجھے کہا کہ میں تو ریفرنس فائل نہیں کروں اور دو دن بعد ریفرنس دائر کردیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اگست میں اسمبلی کی مدت ختم ہوتی ہے اور ایک نگراں حکومت مرکز میں آتی ہے اور وہ تین مہینے میں الیکشن کروانے کے بجائے کوئی اور ہی کام شروع کردیتی ہے اور کہتی ہے ’کہ جی اب ہم 2024 تک چلیں گے، تو آئین کے تحت آپ اس کو روک تو نہیں سکتے، لیکن میرے خیال سے یہ غلط کام ہے اور میرے خیال سے یہ غلط کام ہونے جارہا ہے‘۔
انہوں نے ایک اور معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے اگر فوجی عدالتوں کے بارے میں کوئی عبوری حکم دے دیا، یا اس کو اسٹے دے دیا، یا اس کے خلاف فیصلہ دے دیا تو اس پہ عملدرآمد نہیں ہوگا، اسی طرح نہیں ہوگا جس طرح 14 مئی کے آرڈر پر نہیں ہوا۔ لیکن اس کے بعد یہ جو پیپلز پارٹی اور مسل لیگ (ن) بہت بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں نا آج کل، تو آپ دیکھتے جائیے پراچہ صاحب ، یہ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اور بہت سے جو ان کے ہمنوا ہیں، یہ باجماعت چیخ و پکار کریں گے‘۔
Comments are closed on this story.