لڑکی نے غلط مشورے پرجنس تبدیل کرنے والے ڈاکٹروں کیخلاف مقدمہ کردیا
کیلی فورنیا کی سان جوکوئن کاؤنٹی سپیریئر کورٹ میں 18 سالہ کیلا لوڈال نے اپنی نوعیت کا ایک انوکھا مقدمہ دائرکیا ہے، جنس کی تبدیلی کے آپریشن کے مرحلے سے گزرنے والی خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے ان کی زندگی بدلنے والی آزمائش شروع کرنے سے پہلے معائنے کیلئے صرف 75 منٹ صرف کیے اور اُن کے والدین سے کہا کہ ’مردہ بیٹی کے مقابلے میں زندہ بیٹا ہونا بہتر ہے‘۔
کیلا لوڈال کی جنس تبدیل کرنے والی سرجری 12 سال کی عمرمیں ہوئی تھی۔ گزشتہ ہفتے دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں خاص طور پر ڈاکٹر لیزا کرسٹین ٹیلر، ونی ماؤ ییو ٹونگ، سوزان واٹسن اور میرنا اسکالانٹے کو مدعا علیہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں نے کیلاکو جنس تبدیلی کے نفسیاتی اور دیگر دیرپا اثرات کے بارے میں مطلع نہیں کیا۔ اورعلاج کو حتمی شکل دینے کے بارے میں متنبہ کرنے یا سائیکو تھراپی کے ذریعے صنفی مسائل کو تلاش کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے اسے خود ہی ٹرانس جینڈر قراردے دیا گیا۔
35 صفحات پر مشتمل فائلنگ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ کیس ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے بارے میں ہے جنہوں نے جنسی تبدیلی کا ایک نقصان دہ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا، ایک بارہ سالہ کمزور لڑکی جو پیچیدہ ذہنی صحت کی بیماریوں سے نبرد آزما تھی۔ اس دیکھ بھال، توجہ اور سائیکو تھراپی کی ضرورت تھی، نارکل میڈیکل حکام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صورتحال سے غلط طریقے سے نمٹ رہے ہیں۔ ’کراس سیکس ہارمونز اور تبدیلی کی سرجری نہیں۔‘
اس عمل سے ہونے والے ذہنی نقصان کو دور کرنے کے لیے سائیکو تھراپی سیشن سے گزرنے پر مجبور، لوڈال اور ان کے وکلاء لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تشخیص قبل از وقت تھی -
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کلینیکل ماہر نفسیات واٹسن، جو اوکلینڈ میڈیکل سینٹر میں ’ٹرانس جینڈر کلینک‘ کے کلینیکل ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، نے 75 منٹ تک جائزہ لیا۔ ٹیلر اور ٹونگ، جو ایک اینڈوکرائنولوجسٹ اور پلاسٹک سرجن ہیں نے اپنے ساتھیوں کے جائزے سے اتفاق کیا۔
مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تینوں نے ’فوری طور پر اور لاپرواہی سے مناسب نفسیاتی تشخیص کے بغیر خود تشخیص شدہ ٹرانس جینڈرازم کی تصدیق کی اور ’اس طرح کے علاج کے بعد خودکشی کے خطرے میں اضافے کے بارے میں کیلا لوڈیل کو آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔ تینوں نے لوڈال اور اس کے والدین کو علاج کرانے پر مجبور کیا اور خاندان کو متنبہ کیا کہ ’مردہ بیٹی سے زندہ بیٹا رکھنا بہتر ہے‘۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ ’ادویات کا کوئی دوسرا شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں ڈاکٹر سرجری کے ذریعے جسم کے مکمل طور پر صحت مند حصے کو نکال دیں اور جان بوجھ کر نوجوان نوعمر مریض کی خواہشات کی بنیاد پر پیچوٹری گلینڈ کی بیماری کی کیفیت پیدا کریں۔‘
مقدمے کے متن کے مطابق جنس کی تبدیلی کے بعد کیل نے اپنی دماغی صحت میں مدد کے لیے باقاعدگی سے سائیکو تھراپی سیشن شروع کیے۔
کیلا کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں اگر ابتدائی بلوغت میں طبی طور پر علاج کیا جائے، تو ایسے بچوں کو نقصانات کا احساس کرنے کے لیے کافی عمر کے بعد اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘
اس تکلیف نے انہیں ’گہرے جسمانی اور جذباتی زخموں اور شدید افسوس‘ سے دوچار کیا۔
وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ اسپتال اور ڈاکٹروں نے انہیں اور ان کے والدین کو مناسب ’باخبر رضامندی‘ فراہم نہیں کی، جس سے تھراپی سیشن شروع ہو سکتے تھے۔ان کے وکلاء نے اس عمل کو ’بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ایک شکل‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
وکیل کا کہنا ہے کہ ’ اس طرح کے مقدمات انہیں روکنے کا بہترین طریقہ ہیں، خاص طور پر کیلیفورنیا جیسی لبرل ریاستوں میں، جہاں لاپرواہ نظریات اس بنیاد پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔’
Comments are closed on this story.