Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کے اجلاس میں 9 مئی کے ملزمان کے خلاف قرارداد پیش کی، جسے متقفہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کا جنرل کونسل اجلاس ہوا، جس میں ن لیگ کی نومنتخب سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے 9 مئی کے ملزمان کے خلاف قرارداد پیش کی، جسے متقفہ طور پر منظور کرلیا گیا۔
قرارداد کے متن میں ہے کہ اجلاس اپنی جانیں قربان کرنے والے شہداء کو سلام پیش کرتا ہے، سانحہ 9 مئی کے حوالے سے پروپیگنڈے کو ہر فورم پر مسترد کیا جائے، کیا یہ اجلاس اس قرارداد کو منظور کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سابق سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی موجود نہیں تھے۔ انہیں ن لیگ کے انٹرا پارٹی الیکشن میں مرکزی قیادت سے باہر کردیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت نواز شریف کی امانت ہے، وہ جب بھی پاکستان واپس آئے ان کے حوالے کردوں گا۔
اسلام آباد میں ن لیگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کا کہنا تھا کہ مریم نواز میری بیٹی ہے، میں ہمیشہ اسے گڑیا کہتا ہوں، اس نے چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت محنت کی، یہ بہت باہمت ہے جو ملک کے ہر کونے میں جارہی ہے۔
شہبازشریف نے کہا کہ چند باتیں دل کھول کر کرنا چاہتا ہوں، اس جنرل کونسل کے اجلاس کو کئی بار مؤخر کرایا، لیکن اب الیکشن کمیشن کی تلوار لٹک رہی تھی، اسی لئے پارٹی اجلاس بلایا، اور ایک بار پھر میرے سر پر صدر کی پگ باندھ دی گئی، بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب کرنے پر سب کا مشکور ہوں۔
صدر مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت نواز شریف کی امانت ہے، چاہتا ہوں میں چاہتا تھا کہ قائد مسلم لیگ ن پاکستان آئیں اور میں یہ امانت ان کے حوالے کردوں، میں صرف ان کا سپاہی بن کر خدمت کروں گا، دعا ہے وہ جلد پاکستان آئیں، انتخابات لڑیں اور چوتھی بار وزیراعظم بنیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے جن حالات میں اقتدارسنبھالا یہ پھولوں کی سیج نہیں تھی، ہم نے ہمت نہیں ہاری اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشکلات کا سامنا کیا، ہمارے سینگھ آج بھی آئی ایم ایف سے پھنسے ہوئے ہیں، ہم آئی ایم ایف کی شرائط منظور کرنے کیلئے الٹے سیدھے ہوگئے، لیکن مشکل معاشی حالات کے باوجود تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا۔
شہبازشریف نے کہا کہ ہم ملکی مفاد کی خاطر آئی ایم ایف سے بات کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈز کے ساتھ مختصر مدت کا ہی معاہدہ ہوجائے تاکہ ہم بڑے معاشی چلینجز سے نکل جائیں، اسحاق ڈار رات دن جس طرح ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے محنت کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے، لیکن کچھ لوگ ان کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، جو لوگ نواز شریف اور اسحاق ڈار کیخلاف باتیں کر رہے ہیں ان کو پارٹی میں رہنے کا حق نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے انٹرا پارٹی الیکشن میں سابق وزیراعظم و لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کی مرکزی قیادت سے باہر کردیا گیا۔
شاہد خاقان کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا، وہ (ن) لیگ کے سینیئر نائب صدر تھے۔ مریم نواز کو عہدہ دینے پر شاہد خاقان کے پارٹی سے اختلافات ہوئے تھے۔
دوسری جانب سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ملا، اسحاق ڈار کی وطن واپسی سے قبل مفتاح اسماعیل سے وزیر خزانہ کا عہدہ واپس لے لیا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ مختلف ٹی وی شوز پر حکومتی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف (ن) لیگ کے آئندہ 4 سال کے لئے صدر، مریم نواز سینئرنائب صدر اور چیف آرگنائزر منتخب ہوگئیں، دونوں بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
اسلام آباد میں ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل اجلاس میں احسن اقبال جنرل سیکرٹری، اسحاق ڈار صدر اوورسیز اور بین الاقوامی امور، مریم اورنگزیب سیکرٹری اطلاعات، عطا تارڑ ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، جبکہ تمام شخصیات بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
جنرل کونسل اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے لیگی رہنما مریم اورنگزیب نے کہ کہ اجلاس اپنی جانیں قربان کرنے والے شہداء کو سلام پیش کرتا ہے، سانحہ 9 مئی کے حوالے سے پروپیگنڈے کو ہر فورم پر مسترد کیا جائے، کیا یہ اجلاس اس قرارداد کو منظور کرتا ہے؟
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنا نے کہا کہ (ن) لیگ پنجاب میں بھرپورمنظم ہے پارٹی کے تمام شعبوں کی ضلع سطح پرتنظیم موجود ہے۔
رانا ثنا نے کہا کہ مریم نواز نے پنجاب کے تمام ڈویژنز کا دورہ کیا اور ہرسطح کے ذمہ داروں سے ملاقاتیں کیں، ن لیگ کے امیدواروں کی پنجاب میں پوزیشن مستحکم ہے اور مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے والوں کو ہی پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔
انہوں نے چئیرمین پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جوکہتا تھا کہ میں بہت پاپولر ہوں آج ملاقاتوں کیلئے بھیک مانگ رہا ہے، اس کے ارد گررہنے والے آج پی ٹی آئی سے اظہارلاتعلقی کررہے ہیں بڑھکیں مارنے والے ایک ہفتہ بھی قید برداشت نہیں کرپائے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آج اللہ تعالیٰ نے ہمارے قائد کو سُرخرو کیا ہے ہم نے تمام مشکلات کوصبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا، 9 مئی کے بعد جو حالات ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا انصاف ہے۔
اسلام آباد: سینیٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 سترہ میں ترمیم اور قائد ایوان، اپوزیشن لیڈرو اراکین کی مراعات کا بل منظور کرلیئے گئے۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ میں اجلاس ہوا جس میں وزیر مملکت شہادت اعوان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل پیش کیا جست کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
بل کے مطابق الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن نیا شیڈول اور عام انتخابات کی تاریخ کااعلان کرے گا جب کہ الیکشن پروگرام میں ترمیم بھی کر سکے گا۔
بل کے متن کے مطابق آئین میں جس جرم کی مدت سزا متعین نہیں، اس میں نااہلی پانچ برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔
اہلیت اور نااہلی کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت ایسی ہو جیسا آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں فراہم کیا گیا ہے اور جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی ہے، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔
مذکورہ بل کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا کسی بھی عدالتی فیصلے، ارڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نااہل ہو سکے گا۔
سینیٹ میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم بل کی مخلافت کی گئی۔
دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں قائد ایوان، اپوزیشن لیڈر اور اراکین کی مراعات کا بل بھی منظور کرلیا گیا جسے سینیٹر کہدہ بابر، منظور احمد، رضا ربانی اور دیگر نے ایوان میں پیش کیا۔
اس ضمن میں سابق صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایوسی ایشن اور ماہر قانون شعیب شاہین نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون سازی کے لئے پارلیمان کو استعمال کیا جا رہا ہے، قانون سازی عوام کے مفاد کے بجائے نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لئے ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے، قانون بنایا گیا تو دوبارہ اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
شعیب شاہین نے کہا کہ کرپشن پر نااہل ہونے والے کو دوبارہ الیکشن کا موقع دینا بدقسمتی ہے، دوبارہ اقتدارمیں آنے والا پھر کرپشن ہی کرے گا، البتہ جس ملک میں قانون نہ ہو وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے انصاف کا ٹیسٹ ہے، سوال یہ ہے کہ نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ کا حصہ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے سامنے انصاف کا ٹیسٹ ہے، بھارتی قانون میں بھی یہی ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ہم 184(3) کےخلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، لیکن اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے کہ نظرثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔
دوران دلائل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔
اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور وکیل الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر دلائل کی استدعا کی۔ وکیل نے کہا کہ ریویو ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر 10 منٹ دلائل کا موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو بطور مہمان کم بلاتے ہیں، ابھی بیٹھیں اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹس کو بھی اختیار دیا گیا، آرٹیکل 199 کیخلاف درخواست پر انٹرا کورٹ اپیل کا حق ہے، سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا دائرہ وسیع ہے، اس آرٹیکل کا اختیار مفاد عامہ سے متعلق ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی میں اپیل ہو سکتی ہے، نظرثانی میں اپیل کو سمجھنا ہی اصل معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وسیع دائرہ کار پر فریقین کو عدالت کو قائل کرنے کا موقع ملے گا، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل براہ راست سپریم کورٹ آتی ہے، ان تمام اپیلوں کا ہائی کورٹ سے تعلق نہیں بنتا، قانون کے مطابق اپیل کا حق دیا گیا ہے، نئے قانون میں اپیل کو نظر ثانی کا درجہ دیا گیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ نیا قانون خود کہہ رہا ہے کہ اپیل نہیں بلکہ نظر ثانی ہے۔ جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ بادی النظر میں قانون کہتا ہے اپیل اور نظرثانی میں فرق نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ آپ کی بات اپنے ہی دلائل سے متضاد ہو رہی ہے، سمجھنا چاہتا ہوں آپ کا پوائنٹ کیا ہے، اپیل اور نظرثانی میں زیر غور معاملہ الگ الگ ہوتا ہے، فیصلے کےخلاف اپیل الگ چیز ہے اور نظرثانی کا دائرہ اختیار الگ ہے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 19جون تک ملتوی کردی۔