Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
طوفان ”بپر جوئے“ کی شدت میں کمی آنے کے بعد کمشنر کراچی نے دفعہ 144 ختم کردی۔
سمندری طوفان ”بپر جوئے“ کمزور پڑنے لگا ہے اور کراچی سے اس کا فاصلہ بڑھ کر 230 کلو میٹر، ٹھٹھہ سے 159 اور کیٹی بندر سے 245 کلو میٹر ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق طوفان نے بحیرہ عرب میں شمال مشرق سے ہوتے ہوئے گجرات کے علاقے جکھاؤ پورٹ اور گرد و نواح پر لینڈ فال کیا ہے۔ طوفان شدت میں کمی کے بعد ڈپریشن میں تبدیل ہونے کا امکان ہے۔
این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ طوفان کے اثرات اب بھی موجود ہیں، بحیرہ عرب میں لہروں کی اونچائی دس سے پندرہ فٹ تک بلند ہوسکتی ہے، جب کہ آج رات اور کل کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، شہید بینظیر آباد، سجاول، بدین، ٹھٹھہ اور سانگھڑ کے اضلاع میں 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
دوسری جانب کراچی میں طوفان ”بپر جوئے“ کی شدت میں کمی آنے کے بعد کمشنر کراچی نے دفعہ 144 ختم کردی ہے، اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق اب شہریوں کو ساحل اور سمندر میں نہانے کی اجازت ہوگی، جب کہ ساحل سے ملحقہ سڑکیں بھی ٹریفک کیلئے کھول دی گئی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سی ویو اور ملحقہ شاہراہوں پر لگی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔
کمشنرکراچی نے شہر میں تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کردیا ہے، اور نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کل سے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق فعال ہوں گے اور امتحانات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔
کمشنرکراچی نے ممکنہ سمندی طوفان ”بپرجوئے“ کے پیش نظر معطل کی جانے والی تمام تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کا حکم دے دیا۔
جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ملتوی ہونے والے تمام امتحانات بھی کل سے بحال کردیئے جائیں۔
اس سے قبل شہر میں تمام امتحانات اور تعلیمی سرگرمیاں سمندی طوفان کے خاتمے تک معطل رکھنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ مکنہ طوفان کے پیش نظر اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے 14 اور 15 جون کو ہونے والے پرچے ملتوی کردیے تھے۔
عمرکوٹ میں گزشتہ 24 گھنٹے سے جاری بارش کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
شہری اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ انتظامیہ دعوؤں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
شہری اپنی مدد آپ کےتحت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں جبکہ دو روزکے دوران 122 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بارش کا سلسلہ مذید دو روز تک جاری رہے گا۔
شہر کے نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہوگیا ہے، نالے صاف نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال خراب ہے۔
کراچی میں ممکنہ سمندری طوفان اور بارشیں کے پیش نظرلیاقت آباد سُپرمارکیٹ کی 750 مخدوش دکانیں سیل کردی گئیں ہیں۔
ایس بی سی اے کی نشاندہی پر اسسٹنٹ کمشنرلیاقت آباد نے کارروائی کرتے ہوئے بیسمنٹ، گراونڈ فلور اور 9 منزلہ بلڈنگ کو چاروں اطراف سے سیل کیا گیا ہے۔
سپرمارکیٹ میں قائم چار سرکاری دفاتر کو بھی سیل کردیا، جن میں واٹر بورڈ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، لائبریری، کے ایم سی لیز کے دفاتر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ لیاقت آباد سپرمارکیٹ کی بیسمنٹ میں کئی سالوں سے کئی فٹ پانی جمع ہے جبکہ سپرمارکیٹ کو کئی سال قبل بھی انتہائی مخدوش قراردیا گیا ہے۔
کراچی میں سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ کا خطرہ ٹلتے ہی عبداللہ شاہ غازی کا مزار کھولنے کا اعلان کردیا گیا۔
مزار انٹظامیہ کے مطابق عبداللہ شاہ غازی کے مزار کو سمندری طوفان کے پیش نظر بند کیا تھا جسے زائرین کے لئے آج سے کھول دیا گیا۔
سمندری طوفان بپر جوئے راستہ تبدیل کرکے بھارت میں ٹکرا گیا تھا اور اس کے تقریباً 12 گھنٹے بعد اب ہوا کے کم دباؤ میں تبدیل ہو چکا۔
بپر جوئے کراچی سے 220 کولمیٹر جب کہ یٹی بندر سے 125 اور ٹھٹھہ سے 165 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
دوسری جانب محکمہ موسمیات کراچی، حدرآباد، سجاول سمیت دیگر شہروں میں آج پارش کی پیشگوئی کرچکا ہے۔
سمندری طوفان بپر جوئے بھارت میں ٹکرانے کے تقریباً 12 گھنٹے بعد اب ہوا کے کم دباؤ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ کم دباؤ پاکستان میں تھر کے علاقے میں داخل ہوگیا ہے جہاں طوفانی ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔
بحیرۂ عرب میں بننے والے سمندری طوفان بپر جوئے گزشتہ شب بھارتی ریاست گجرات کے ساحلی علاقوں جاکھو اور سوراشٹرا سے ٹکرانے کے بعد سندھ کے ساحلی علاقوں میں بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان کیٹی بندر سے 125 کلومیٹر، ٹھٹہ سے 165 کلومیٹر اور کراچی سے 220 کلوممیٹر کے فصلے پر ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ہواؤں کی رفتار 100 سے 120 جھکڑ 130 کلو میٹر فی گھنٹا تک پہنچ رہی ہے۔
ٹھٹہ اور بدین کے علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور گزشتہ روز ٹھٹہ کے علاقے بوھارا میں تیز ہوائیں اور موسلا دھار بارش ہوئی ہے جس کے باعث سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگیا۔
حکومت کی جانب سے بدین اور ٹھٹہ کے علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے مگر اب بھی کچھ لوگ ان علاقوں میں موجود ہیں جنھوں نے اپنے گھروں اور زمینوں کی حفاظت کے پیش نظر نقل مکانی نہیں کی۔
اس کے علاوہ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی کہ 17 جون تک ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپاکر، میرپور خاص اور عمر کوٹ میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کاامکان ہے جب کہ کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار اور سانگھڑ میں آج گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے۔
دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق انتہائی شدید سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ شدت میں کمی آگئی، مرکز کے گرد ہوا کی رفتار 100 تا 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔
این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ طوفان بھارتی گجرات کا ساحل عبور کرنے کے بعد کمزور ہوگیا، لہٰذا آج شام تک درجہ بندی ڈپریشن میں تبدیل ہو جائے گی، البتہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ سمیت تین پاکستانی ایئر پورٹس پر طیارے اتارنے پر مشروط پابندی عائد کردی۔
سی اے اے نے سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ کے تناظر میں محفوظ ہوائی سفر سے متعلق نوٹم جاری کردیا ہے۔
ترجمان سی اے اے کے مطابق نوٹم تیز ہواؤں کے امکان کے باعث جاری کیا گیا جوآج رات 12 بجے تک نافذ العمل رہے گا۔
سول ایوی ایشن کا کہنا ہے کہ نوٹم کراچی، سکھر، موہنجوداڑو اور نواب شاہ ایئر پورٹس کے لئے ہے، ان ہوائی اڈوں پر ہوا کی رفتار 30 ناٹس ہونے پر لینڈنگ یا ٹیک آف کی اجازت نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ محکمہ موسمیات نے سمندری طوفان کے باعث آج کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، اور بے نظیرآباد اور سمیت دیگر شہروں میںتیز ہواؤں کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی کی ہے۔
محکمہ موسمیات نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس دوران 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل سکتی ہیں، سندھ اور مکران کے ساحلی علاقوں میں طغیانی رہ سکتی ہیں۔
نوٹم ایک نوٹس ہوتا ہے جس میں فلائٹ آپریشنز سے متعلقہ عملے کے لیے ضروری معلومات ہدایات فراہم کی جاتی ہیں۔
نوٹم ہر صارف کو متاثر کرنے والے قومی فضائی نظام کی حقیقی وقت اور غیر معمولی حیثیت کی نشاندہی کرتا ہے جب کہ یہ قومی فضائی نظام میں کسی بھی سہولت، سروس، طریقہ کار یا خطرے کے قیام، حالت، یا تبدیلی سے متعلق ہوتا ہے۔
بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کا آغاز ہوا تو اس کا رُخ کراچی کی جانب تھا، اسی سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک نئی بثت چھڑ گئی کہ یہ طوفان شہر قائد سے ٹکرائے یا نہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ 1990 کے بعد سے آنے والے سمندری طوفان کراچی پہنچنے سے پہلے ہی اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے یا تو طوفان کی شدت اتنی کم ہوئی کہ اس سئ ٹکرانے کے باوجود کراچی محفوظ رہا۔
بعض افراد کا ماننا ہے کہ کراچی عبداللہ شاہ غازی کی کرامات کی وجہ سے سمندری طوفان سے بچ جاتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر مونا لیزا نے کہا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس طرح کے طوفان کو روکنے کے لیے دیگر پیشگی اقدامات کے علاوہ ساحل سمندر پر دیوار تعیمر کرتے ہیں تاکہ طوفان اس دیوار سے ٹکرا کر زیادہ نقصان کا باعث نہ بنے۔
ان کے مطابق کراچی تین پلیٹس بشمول بھارتی، یوروشیا اور عریبین کی باؤنڈری پر واقع ہے جو سمندری طوفان کے لیے قدرتی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا تھا کہ جہاں یہ پلیٹس کراچی کے لیے اہمیت اختیار کر گئیں وہیں یہ پاکستان کے لیے بڑے خطرے کا سبب بھی ہیں یعنی ان پلیٹس کی وجہ سے ملک میں زلزلے بھی آتے ہیں۔
طوفان سے متعلق چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ سائیکلون درجہ حرارت اور ہواؤں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور درجہ حرارت اگر اس سمندری طوفان کو جنم دیں تو ہواؤں کا دباؤ اس کے رخ کا تعین کرتا ہے۔
سائیکلون کے دورانیے کے حوالے سے ڈاکٹر مونا لیزا کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بھی درجہ حرارت سے ہی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جب سائیکلون سست پڑ جائے تو پھر اس کا دورانیہ گھنٹوں سے بڑھ کر کئی دنوں تک ہو جاتا ہے۔
’انگریزوں کی لکھی گئی کتابوں میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے‘
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مؤرخ اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن نے کہا کہ کراچی والوں کے لیے عبداللہ شاہ غازی پیر کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں شہر کا ’پیٹرن سینٹ‘ کہا جاتا ہے۔
مصنف و تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ نے بتایا کہ انہوں نے جتنی بھی تحقیق کی اور کتابیں پڑھیں ان میں عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں ایسی تفصیلات درج نہیں۔ ان کی رائے میں 19 صدی میں انگریزوں کی بھی لکھی گئی کتابوں میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ذکر ملتا ہے مگر باقی کوئی زیادہ تفصیلات نہیں۔
ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں جتنی باتیں مشہور ہوئی ہیں ان کا تعلق گذشتہ 40 سے 50 برس سے ہی ہے جب کہ اس طرح کی باتیں پہلے پہل مذاق کے طور پر کی جاتی تھیں مگر اب لوگ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔
مئی 1985 میں ایک طوفان کراچی کی جانب بڑھا تھا جو شہر کے جنوب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہی کمزور ہوکر ختم ہوگیا تھا۔
نومبر 1993 میں بھی کیٹیگری 1 کا طوفان مڑ کر سندھ و گجرات سرحد کے قریبی ساحل سے ٹکرایا، جبکہ جون 1998 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کی جانب آتے آتے جنوبی مشرقی سندھ کی طرف بڑھ گیا تھا۔
اس کے علاوہ مئی 1999 میں کیٹیگری 3 کا سمندری طوفان کراچی کے قریب ٹکرایا جس نے سندھ کے ساحلی علاقوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا، یہ پاکستان کا ریکارڈ سخت ترین طوفان تھا۔ مئی 2001 میں کیٹگری 3 کا سائیکلون گجرات کے ساحل سے ٹکرایا جب کہ اکتوبر 2004 میں اونیل نامی سائیکلون کراچی اور سندھ کے ساحل کی جانب بڑھا مگر بعد میں سمندر کی طرف واپس مڑ گیا۔
جون 2007 کے اوائل میں گونو نامی سُپر سائیکلون سے کراچی محفوظ رہا اور جون 2007 ہی میں، یمین نامی ایک سمندری و ہوائی طوفان کراچی کے قریب سے گزرا تھا جب کہ نومبر 2009 میں پھائن نامی سائیکلون پہلے ہی دم توڑ گیا تھا۔
جون اور نومبر 2010 میں پھیٹ اور جل نامی طوفان کراچی کے قریب آکر کمزور پڑ گئے تھے، جب کہ 2014 میں نیلوفر نامی سائیکلون کا رخ بھی کراچی کی جانب تھا مگر عین موقع پر اس نے اپنا رخ موڑ لیا اور کراچی ایک مرتبہ پھر سمندری طوفان سے محفوظ رہا۔
بحریہ عرب میں بننے والے سمندر طوفان بپر جوئے راستہ بدل کر رات گئے بھارتی ریاست گجرات سے ٹکرا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق طوفان ریاست گجرات کے جکھاؤ پورٹ تک پہنچ گیا، ضلع کچھ میں تیز ہوائیں چل رہی ہیں، بارشوں کے بعد سیلاب کا خدشہ ہے۔
رپورٹس میں بتایا گیا کہ اس وقت ایک سو چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں، پوری ریاست گجرات میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
بھارت کے موسمیاتی اداروں کے مطابق تین دن تک ممبئی سمیت بھارت کے متعدد علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
بھارتی محکمہ موسمیات کے مطابق طوفان کا مرکز تقریباً 50 کلومیٹر کے دائرے میں پھیلا جس سے اس کی سنگین ہونے کا معلوم ہوا، بحیرہ عرب میں سمندری طوفان کی پیش قدمی کے دوران 10 سے 14 میٹر اونچی سمندری لہریں اٹھیں تھیں۔
بھارتی محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ جمعرات کو ساحل سے ٹکرانے کے بعد نولکھی علاقے میں 7.5 میٹر لہریں اٹھتی دیکھی گئیں جس کے باعث سمندر میں ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہوگئی تھیں۔
دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سمندری طوفان بپر جوئے نے بھارتی گجرات کی ساحلی پٹی پر لینڈ فال مکمل کر لیا ہے۔
این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان کیٹی بندر سے 125 کلومیٹر جنوب-جنوب مغرب میں ہے جب کہ طوفان پہلے کمزور ہو کر سائیکلونک طوفان اور پھر آج شام تک ڈپریشن میں تبدیل ہو نے کا امکان ہے۔
این ڈی ایم اے نے بتایا کہ متعلقہ ادارے ہائی الرٹ ہیں اور مختلف موسمیاتی ماڈلز کے ذریعے طوفان کی پیشرفت پر مسلسل مانیٹرنگ جاری ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان کمزور ہوکر آج ڈپریشن میں تبدیل ہو جائے گا، بپر جوئے کیٹی بندر سے 135 کلو میٹر اورک راچی سے 220 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
طوفان کے باعث شمال مشرقی بحیرہ عرب میں لہریں 10 سے 15 فٹ تک بلند ہو سکتی ہیں، کیٹی بندر اور اطراف میں لہریں 6 سے 8 فٹ تک بلند ہوسکتی ہیں۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، بے نظیرآباد اور سانگھڑ میں آج تیز ہواؤں کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے جب کہ 17 جون تک ٹھٹہ، سجاول، بدین تھرپاکر، میرپور خاص اور عمرک وٹ میں بھی بارش متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس دوران 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل سکتی ہیں، سندھ اور مکران کے ساحلی علاقوں میں طغیانی رہ سکتی ہیں۔
اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی نے کل کے انٹرمیڈیٹ کے پرچے ملتوی کردیے۔
سمندری طوفان اور ممکنہ بارش کے پیش نظر اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے کراچی میں کل ہونے والے انٹرمیڈیٹ کے پرچے ملتوی کر دیے ہیں۔
اس حوالے سے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے، ناظم امتحانات ظہیر الدین کے مطابق ملتوی شدہ امتحانات کی نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب چیئرمین ٹیکنیکل بورڈ نے بھی اعلان کیا ہے کہ سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے تحت صوبہ بھر میں کل منعقد ہونے والے پرچے ملتوی کردیے گئے ہیں، جب کہ ملتوی کئے گئے پرچوں کی نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
گزشتہ روز بھی شیڈول کراچی میں ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کردیئے گئے تھے، اور کمشنر کراچی اقبال میمن نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جب کہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے بھی 14 اور 15 جون کو ہونے والے پرچے ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ سمندری طوفان ”بپرجوئے“ سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا امکان ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے سمندری طوفان ”بپرجوئے“ کے حوالے سے رپورٹ حکومتِ پاکستان کو بھجوادی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ سمندری طوفان کی شدت میں کمی آئی ہے، اور اس کی شدت کیٹگری تھری میں داخل ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ طوفان ”بپرجوئے“ سے پاکستان کے 11 اضلاع شدید متاثر ہونے کا امکان ہے، اور ایک لاکھ کے قریب افراد کا انخلاء ہو گا، اور اب تک ساحلی پٹی سے 70 ہزار سے زائد افراد کا انخلا کرایا جاچکا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق طوفان کیٹی بندر، بھارتی گجرات سے ٹکرائے گا، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں محکمہ صحت کا اضافی عملہ تعینات ہے، 9 ہائی رسک اضلاع میں 300 ریسیکو 1122 کے اہلکار بھی تعینات ہیں، اور ان اضلاع میں اضافی 80 ایمبولینسز بھجوائی گئی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور کراچی کے اضلاع ملیر، کورنگی اور کیماڑی میں 75 ریلیف کیمپس قائم کردیئے گئے ہیں، جب کہ ڈبلیو ایچ او نے سمندری طوفان کیلئے اسٹریٹجک ہیلتھ آپریشنل سنٹر قائم کر دیا ہے، جو صبح 8 سے رات 8 بجے تک کام کرے گا، جب کہ آپریشنل سینٹر اداروں کے مابین کوآرڈینیشن کرے گا۔
سمندری طوفان بپرجوئے کے باعث کراچی میں بادلوں کے ڈیرے ہیں، تیز ہوائیں چل رہی ہیں اور متعدد مقامات پر وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ایسے میں کئی لوگ عیدالاضحیٰ کیلئے قربانی کا جانور لینے کو بیتاب ہیں اور موسم کی خوشگواری کے باعث منڈی کا رخ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
ایسے میں ضروری ہے کہ جانے سے پہلے وہ جان لیں کراچی کی مویشی منڈی کی اس موسم میں کیا صورت حال ہے۔
کراچی سے دور ناردرن بائی پاس پر بسائی گئی مویشی منڈی میں اس وقت سناٹا ہے۔
حالانکہ موسم خوشگوار ہے اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی رہیں، لیکن امکان ہے کہ اگر یہاں بارش ہوئی تو مٹی کیچڑ میں تبدیل ہوجائے گی۔
ایسے میں جانوروں کے بیمار ہونے کا خدشہ ہے، اور بیوپاریوں کیلئے جانوروں کو بارش سے بچا کر خشکی میں رکھنے کی بھی کوئی جگہ نہیں۔
ناردرن بائی پاس پر قائم ہونے کے باعث منڈی کا راستہ بھی خاصا دشوار ثابت ہوسکتا ہے۔
چونکہ منڈی کے شوقین اکثر موٹر سائیکلوں پر منڈی کا رخ کرتے ہیں تو ایسے میں تیز ہواؤں کے باعث موٹر سائیکل بے قابو ہونے کا خدشہ ہے۔
جبکہ ہوا کے باعث اڑتی ہوئی دھول نے حد نگاہ بھی کم کردی ہے۔
اس لیے فی الحال اس موسم میں منڈی جانے سے گریز کریں اور متعلقہ حکام کے احکامات کا انتظار کریں۔
سمندری طوفان بپر جوئے کیٹی بندر سے ٹکرانے والا ہے اور اس حوالے سے مختلف ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
انہی میں سے ایک ویڈیو جسے کیٹی بندر کے حالیہ مناظر قرار دیا جارہا ہے، اس میں سیاہ گھنے بادلوں کو ساحل کی جانب بڑھتے دیکھا جاسکتا ہے۔
دیکھنے میں یہ منظر خوف میں مبتلا کردینے والا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ساحل پر بالکل سناٹا ہے اور سمندی لہریں ساحل سے تیزی سے ٹکرا رہی ہیں۔
ویڈیو میں ساحل پر کچھ بنچز اور دور بنے بنگلے نما ہٹ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن اس ویڈیو کی حقیقت کچھ اور ہے۔
یہ ویڈیو پاکستان کے کسی ساحل کی نہیں، بلکہ بولیویا کی ہے جو 2021 میں بنائی گئی تھی۔
اس ویڈیو کو اب پاکستان کی طوفانی صورت حال سے جوڑ کر دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
بحریہ عرب سے بننے والے سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ کے قریب آتے ہی شہر قائد کے مختلف علاقوں میں بارش شروع ہوگئی۔
کراچی کے علاقے بن قاسم،گلشن حدید، پورٹ قاسم، شاہ لطیف ٹاون سمیت دیگر علاقوں میں بارش کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ آرٹس کونسل کے باہر بھی بادل برس پڑے جب کہ گارڈن، فیڈرل بی ایریا میں بھی تیز ہواؤں کے ساتھ بوندا باندی ہو رہی ہے۔
حیرہ عرب میں کئی روز تک قوت پکڑنے کے بعد سائیکلون میں تبدیل ہونے والا سمندری طوفان کیٹی بندر سے صرف 150 کلو میٹر اور کراچی سے صرف 210 کلو میٹر دور رہ گیا ہے۔
سمندری طوفان بپرجوئے ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے کیٹی بندر سے کچھ دیر میں ٹکرانے والا ہے، اس حوالے سے کیٹی بندر پر حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں اور وہاں کے 5 ہزار رہائشیوں کو مختلف جگہوں پر منتقل کیا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ حفاظتی اقدامات کافی ہوں گے؟ کیا کیٹی بندر اس طوفان کو جھیل پائے گا؟
کیٹی بندر پورٹ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے۔ یہ بندرگاہ محمد بن قاسم کی فوج کے عراق سے پہنچنے والے مقام دیبل کی بندرگاہ کی باقیات پر تعمیر کی گئی ہے۔
کیٹی بندر گھارو سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ کسی زمانی میں ایک مشہور شہر اور بندرگاہ ہوا کرتا تھا۔
لیکن 1948ء میں دریائی بہاؤ کی تبدیلی کی وجہ سے کیٹی بندر کی خوش حالی کا سورج غروب ہونے لگا۔
1946 میں یہ علاقہ خشکی سے جڑا ہوا تھا لیکن اب یہ جزیرے کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اب یہاں پہنچنے کے لیے کشتی میں تیس منٹ سفر کرنا پڑتا ہے۔
کیٹی بندر پورٹ کراچی سے دو سو کلومیٹر دور ہے مگر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کا یہ ساتواں بڑا ڈیلٹا تیزی سے زیر سمندر آرہا ہے۔
کیٹی بندر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی غیرسرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ سمندر روزانہ اسی ایکڑ زرعی زمین اپنے زیر اثر کر رہا ہے اور یہاں سے لوگوں کی نقل مکانی برسوں سے جاری ہے۔
کیٹی بندر پورٹ کے اردگرد دلدلی علاقہ ہے، جو بیشتر نقشوں میں نہیں دکھایا جاتا، ان نقشوں میں کیٹی بندر جزیرے کے طور پر نظر آتا ہے۔ حالانکہ ہائی وے 110 یہاں تک آتی ہے۔
سائیکلون بپرجوئے پر براہ راست اپ ڈیٹ مہیا کرنے والی ویب سائیٹ زوم ارتھ پر موجود نقشے میں بھی کیٹی بندر پورٹ کو باقی زمین سے الگ جزیرہ نما جگہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
دوپہر 12 بجے سمندری طوفان یہاں سے 116 کلومیٹر کے فاصلے پر گزر رہا تھا۔
زوم ارتھ کے مطابق شام پانچ بجے طوفان کا مرکزی حصہ کیٹی بندر پورٹ سے صرف 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ تاہم طوفان آخر وقت تک راستہ بدل سکتا ہے اور کیٹی بندر پورٹ اس مثلث کے اندر ہے جسے cone of uncertanity کہا جاتا ہے۔
خدشہ ہے کہ بپرجوائے اس علاقے میں کوئی بھی رخ اختیار کر لے گا۔ اگر طوفان کا رخ شمال مشرق یعنی بھارت کی طرف رہا تو کیٹی بندر میں نسبتاً کم تباہی ہوگی۔
طوفان کے قریب تر ہونے سے کیٹی بندر میں بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، اور پانی کا بہاؤ بھی آہستہ آہستہ بڑھتا جارہا ہے اور پانی آس پاس کے گاؤں اور گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔
کیٹی بندر سے ریلیف کیمپوں میں منتقل کئے گئے لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ یہاں پانی دیا جارہا ہے نہ یہاں سہولیات ہیں، رات کو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سو بھی نہیں سکتے۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ انخلاء مجبوراً کرنا پڑا ہے اور کوشش کر رکہے ہیں کہ انہیں سہولیات مہیا کی جاسکیں۔
صوبہ سندھ میں سمندری طوفان بپر جوئے کے خطرے کے پیش نظر بجلی املاک کو نقصانات کے ازالے کے لیے لیسکو کی 70 امدادی ٹیمیں حیدرآباد روانہ ہوگئیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ممکنہ سمندری طوفان کے پیش نظر لیسکو کی امدادی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
بجلی املاک کو نقصانات کے ازالے کے لیے لیسکو کی 70 امدادی ٹیمیں حیدرآباد روانہ ہوگئیں ہیں۔
ترجمان لیسکو کے مطابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز حافظ میاں محمد نعمان اور چیف ایگزیکٹو لیسکو انجینئر شاہد حیدر نے امدادی ٹیموں کو حیدرآباد روانہ کیا۔
جی ایس سی اور کنسٹرکشن کے 10 افسران، 350 اسٹاف ممبرز اور 44 گاڑیاں حیسکو کی معاونت کریں گے۔
لیسکو اہلکار سمندری طوفان سے متاثرہ علاقوں میں بجلی کے ترسیلی نظام کی ترسیل اور املاک کی دیکھ بھال کے لیے کام کریں گے۔
کراچی کے ساحل پر تفریح کے لئے جانے والے 20 افراد کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کرلیا گیا۔
کراچی میں ممکنہ سمندری طوفان کے پیش نظر ساحل سمندر پر دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے، تاہم اس کے باوجود بھی منچلے نوجوان تفریح کے لئے تمام رکاوٹیں توڑ کر ساحل پر پہنچ گئے۔
پولیس حکام کے مطابق پابندی کے باوجود شہری ساحل سمندر پر پہنچ کرٹک ٹاک اور تفریح کرنے میں مصروف تھے، انہیں متعدد بار منع بھی کیا گیا، جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 20 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات درج کرلیے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ گرفتاریاں ساوتھ پولیس کی جانب سے کی گئی ہیں، اور گرفتارافراد کے خلاف دفعہ 188کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے سمندر کے قریب جانے پر پابندی عائد ہے، اور شہری انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے، شہری سمندر کی جانب جانے سے گریز کریں۔
سمندری طوفان بپر جوئے کی شدت کے باعث کراچی کے ساحل ہاکس بے پر سمندر بپھر گیا، جس کی وجہ سے سومار گوٹھ کے قریب بنایا گیا بند ٹوٹ گیا، بند ٹوٹنے سے 180 مکانات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
ہاکس بے پر گزشتہ شام سے ہی طغیانی کی صورتحال ہے، سمندری لہیں ساحل پر موجود ہٹس سے پوری شدت کے ساتھ ٹکرا رہی ہیں۔ جبکہ متعدد مقامات پر ہٹس زیر آب آچکے ہیں۔
پانی ہاکس بے کی سڑکوں تک آگیا ہے، جبکہ کئی جگہوں پر آبادی میں بھی داخل ہوگیا ہے۔
ہاکس بے جانے والی سڑکیں کنٹینرز لگا کر بند کردی گئی ہیں۔
اسی سے ملتی جلتی صورت حال سی ویو پر بھی ہے، جہاں سمندری لہریں دو دریا کی دیوار سے ٹکرا رہی ہیں، جبکہ ساحل پر پانی کافی چڑھا ہوا ہے۔
حکام کی جانب سے متعدد بار ساحل سے دور رہنے کی اپیل کی گئی ہے، اس بے باوجود لوگ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساحل کا رخ کر رہے ہیں۔
کراچی پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والے متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کر لئے ہیں۔
جوں جوں سمندری طوفان بپر جوئے کراچی سے قریب ہوتا جارہا ہے، اس کے اثرات شہر پر نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ طوفان کے کراچی سے براہ راست ٹکرانے کے امکان نہیں تاہم اس کے نتیجے میں شہر میں بارش ہوسکتی ہے۔ اسی بنا پر کچھ ساحلی علاقوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔
کراچی کے آسمان پر بادلوں کا ڈیرہ ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں بدھ سے وقفے وقفے سے ہلکی اور تیز بارش جاری ہے۔
کراچی کے علاقوں ابراہیم حیدری اور یونیورسٹی روڈ پر تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہوئی۔
جبکہ گرومندر، صدر، نمائش، کلفٹن اور کورنگی سمیت دیگرعلاقوں میں ہلکی بارش ریکارڈ کی گئی۔
ذیل میں موجود نقشے میں وہ علاقے دکھائے گئے ہیں جہاں طوفان کا اثر سب سے زیادہ ہوگا۔
چودہ سے سولہ جون تک کراچی کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ موسلا دھار بارش کا امکان ہے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیات سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ طوفان کے باعث شہر میں تیز ہوائیں اور بارش متوقع ہیں.
چئیرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) لیفٹیننٹ جنرل (ر) انعام حیدر ملک نے بتایا کہ سمندری طوفان کل صبح کسی بھی وقت زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ طوفان کا لینڈ فال کیٹی بندر اور گجرات کے بیچ ہوگا۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیات شیری رحمان کا کہنا ہے کہ بحیرہ عرب سے بننے والے سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ کے اثرات کراچی پر رونما ہوں گے۔
اسلام آباد میں چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ طوفان اپنے متعین راستے پر چل رہا ہے جوکہ کل ساحل سے ٹکرائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جس راستے کی پیشگوئی کی گئی یہ اس پر چل رہا ہے، کراچی سے طوفان نہیں ٹکرائے لگا لیکن اس کے اثرات شہر پر رونما ہوں گے جب کہ بپر جوئے کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ کراچی کے علاقے ملیر سے انخلا کیا جائے گا، ساحلی علاقوں سے انخلا انتہائی ضروری ہے اور لوگ رضاکارانہ طور پر بھی نقل مکانی کر رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ طوفان کا رخ تبدیل ہونے کے باوجود ہم نے الرٹ برقرار رکھے ہیں، طوفان کے باعث تیز ہوائیں اور بارشیں متوقع ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام متعلقہ ادارے حفاظتی اقدامات کے لئے تیار ہیں، متاثرین کو اسکولوں اور پکی عمارتوں میں منتقل کیا گیا جب کہ متاثرین کے لئے خیمے بھی لگادیئے گئے ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ طوفان کی رفتار 150 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے، لہٰذا شہریوں سےاحتیاطی تدابیر کی اپیل ہے جب کہ ماہی گیروں سے درخواست ہے ساحل سے دور رہیں۔
فلائیٹ آپریشنز سے متعلق وفاقی وزیر برائے ماحولیات کا کہنا تھا کہ چھوٹے جہازوں کا فلائیٹ آپریشن بند کر رہے ہیں اور بڑے جہازوں کے لئے صورتحال کے مطابق ایڈوائزری جاری کریں گے۔
پاکستان اور بھارت واحد ملک نہیں جو اس وقت سمندری طوفان بپرجوئے پر بات کر رہے ہیں۔ اس انتہائی شدید طوفان کی خبر خلا تک پہنچ گئی ہے۔
اس وقت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر مقیم ایک اماراتی خلا باز سلطان النیادی نے بپرجوئے کی خلا سے بنائی ایک ویڈیو جاری کی ہے۔
سلطان النیادی نے لوگوں سے طوفان کے دوران حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم فی الحال جزیرہ نما عرب بالخصوص متحدہ عرب امارات پر پرواز کر رہے ہیں۔ ہم فی الحال طوفان یا طوفان کی آنکھ (مرکز) کی تصاویر لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا، ’ہم کیمرے کو نیچے کی سمت برقرار رکھیں گے۔ ہائی زوم کا استعمال کرتے ہوئے، میں اپنے کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ تصاویر کھینچوں گا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئی ایس ایس موسم کی نگرانی میں زمین پر ماہرین کی مدد کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’کیا آپ یہ گرجتا چمکتا طوفان دیکھ رہے ہیں، لیکن اب میں طوفان کا مرکز دیکھ سکتا ہوں۔‘
آخر میں انہوں نے کہا کہ لیکن یہ وہ تصویریں ہیں جو آپ بحیرہ عرب کی دیکھ رہے ہیں۔ یہ آج کی ہماری کوریج ہے۔ ہم ان تصاویر کو آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔
سمندری طوفان بپرجوئے اس وقت کراچی سے 350 کلومیٹر جنوب میں اور ٹھٹھہ سے 370 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
طوفان کے اردگرد ہواؤں کی رفتار 140 سے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، جبکہ کچھ جھونکے 170 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتے ہیں۔
طوفان کے باعث سمندر میں 30 فٹ سے زیادہ اونچی لہریں اٹھ رہی ہیں۔
توقع ہے کہ جمعرات تک یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔
کمشنر کراچی اقبال میمن نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو مخدوش عمارتوں سے متعلق فہرست فراہم کردی۔
کمشنر کراچی اقبال میمن نے شہر کی مخدوش عمارتوں کے حوالے سے فہرست وزیراعلیٰ سندھ کو دے دی دہے، جس کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرل اتھارٹی نے کراچی میں 578 عمارتیں مخدوش ڈکلیئر کی ہیں۔
کمشنر کراچی کے مطابق شہر کے ضلع جنوبی میں 456 عمارتیں مخدوش قرار دی گئی ہیں، ضلع وسطی میں 66 عمارتوں کو مخدوش قرار دے دیا گیا ہے، ضلع کیماڑی کی 23 عمارتوں کو مخدوش ڈکلیئر کردیا گیا ہے، ضلع کورنگی کی 14 عمارتوں کو مخدوش قرار دے دیا گیا ہے، ضلع شرقی میں 13 عمارتیں، ضلع ملیر کی 4 عمارتیں اور ضلع غربی کی 2 عمارتوں کو مخدوش قرار دے دیا گیا ہے۔
کمشنر کراچی نے ڈپٹی کمشنرز کو مخدوش عمارتیں خالی کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عمارتیں پہلے سے ہی خالی ہیں تو ان کو بند/سیل کردیں، جب کہ وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر شہر میں کمزور پول بھی ہٹائے جا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے طوفان کے باعث منتقلی کی تازہ صورتحال کے اعداد و شمار شیئر کردیے ہیں، اور بتایا ہے کہ ٹھٹہ، سجاول اور بدین اضلاع سے ابھی تک مجموعی طور پر 56985 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے، اور تینوں اضلاع میں مجموعی طور پر 37 ریلیف کیمپ قائم کردئے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق کیٹی بندر کی 13000 آبادی سے 8000 کو حکومت نے جبکہ 3000 رضاکارانہ طور منتقل کردیا گیا ہے، کیٹی بندر میں 7 ریلیف کیمپوں میں 5000 افراد کی گنجائش ہے اور 700 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ گھوڑا باڑی کی 4500 آبادی سے حکومت نے 2100 جب کہ 1000 رضاکارانہ طور پر خود منتقل ہوئے، گھوڑاباڑی میں 3 ریلیف کیمپوں میں 1000 کی گنجائش اور 100 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔
مراد علی شاہ کے مطابق شہید فاضل راہو کی 19038 آبادی سے حکومت نے 14310 جبکہ 5160 رضاکارانہ منتقل ہوگئے ہیں، یہاں 10ریلیف کیمپوں میں 5000 کی گنجائش اور 3009 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ بدین کی 12300 آبادی سے حکومت نے 3010 جب کہ 5600 رضاکارانہ منتقل کردیے گئے ہیں، اس ضلع میں 3 ریلیف کیمپوں میں 2500 کی گنجائش اور 922 خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق شاہ بندر کی 6537 آبادی سے حکومت نے 2578 جبکہ 2500 رضاکارانہ منتقل ہوئے، اور یہاں 10 ریلیف کیمپوں میں 9500 کی گنجائش موجود اور 500 خاندان منتقل ہوئے ہیں، جاتی کی 8070 آبادی سے حکومت نے 1727 جبکہ 3000 رضاکانہ منتقل ہوگئے، اور یہاں بھی 4 ریلیف کیمپوں میں 2500 کی گنجائش موجود اور 450 خاندان منتقل کردیے گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کھاروچھان کی 7935 آبادی سے حکومت نے 3000 جبکہ 2000 رضاکانہ طور منتقل ہوئے، تاہم کھاروچھان میں ابھی تک کوئی ریلیف کیمپ قائم نہیں کیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے سمندری طوفان ”بپر جوئے“ کے پیش نظر پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کمیٹی قائم کردی، شہباز شریف نے سمندری طوفان کے پیش نظر تمام تر وسائل کو بروئے کار لا کر لوگوں کی حفاظت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ متاثرہ علاقوں میں ہنگامی طبی امداد کا خاطر خواہ انتظام یقینی بنایا جائے۔
وزیرِاعظم نے سمندری طوفان سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال پر جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔
جس میں وفاقی وزراء شیری رحمان، اسحاق ڈار، خرم دستگیر، مرتضی محمود، مشیر احد چیمہ، وزیرِ مملکت مصدق ملک، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک، سندھ اور بلوچستان کے چیف سیکٹریز اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔
اجلاس کو سمندری طوفان بپر جوائے کے راستے اور ممکنہ ساحلی علاقوں سے ٹکراؤ پر بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ طوفان 15 جون کو ممکنہ طور پر کیٹی بندر سے ٹکرائے گا اور 3 دن تک مکمل طور پر ختم ہونے کی پیشگوئی ہے، اس وقت اوسطاً 140-150 کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں، ساحلی علاقوں سے اس وقت 50 ہزار سے زائد لوگوں اور مجموعی طور پر تقریباً 9 ہزار گھرانوں کی نقل مکانی کروائی جا رہی ہے۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کے تمام ادارے ہائی الرٹ پر ہیں۔
اس موقع پروزیراعظم نے ممکنہ سمندری طوفان کے پیش نظر تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر لوگوں کی حفاظت کی ہدایت کردی۔
شہباز شریف نے ہدایت کی کہ سندھ حکومت، این ڈی ایم اے اور دیگر ادارے مل کر ساحلی علاقوں میں موبائل اسپتالوں کا قیام یقینی بنائیں، کیمپس میں پینے کے صاف پانی اور خوراک کا خصوصی انتظام یقینی بنایا جائے، متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو امدادی سامان کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر خرم دستگیر کو بھی جنوبی سندھ کے اضلاع میں طوفان کے اثرات ختم ہونے تک موجود رہنے کی ہدایت کردی۔
انہوں نے ہدایت کی کہ ممکنہ نقصان کی فوری مرمت کرکے بجلی کی بحالی یقینی بنائی جائے۔
وزیراعظم نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی وزیرشیری رحمان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے۔
کمیٹی میں خرم دستگیر، طارق بشیر چیمہ، چیئرمین انعام حیدر ملک، حکومت سندھ، بلوچستان، محکمہ موسمیات اور این آئی ایچ کے نمائندے شامل ہوں گے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے کمیٹی کو کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال سے عوام کو آگاہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
کراچی میں ممکنہ سمندری طوفان ”بپر جوئے“ کے پیش نظر تمام امتحانات ملتوی کردیے۔
کمشنر کراچی نے سمندری طوفان کے پیش نظر تعلیمی سرگرمیاں ملتوی کردیں۔
مزید پڑھیں: سمندری طوفان بپر جوئے کا رخ تبدیل، کراچی میں کل سے موسلا دھار بارش کی پیش گوئی
کمشنر کراچی نے نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس کے مطابق کل سے تمام امتحانات اور تعلیمی سرگرمیاں ملتوی کردی گئیں، طوفان کے خاتمے تک تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں گی۔
کمشنر کے نوٹیفکیشن کے مطابق انسانی جانوں کا ضیاع بچانے کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سمندری طوفان بپرجوئے سے 60 ہزار افراد کو خطرہ، انخلا کیلئے کشتیوں کا انتظام، کراچی میں تیز بارش متوقع
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ تمام امتحانات، تعلیمی سیمیناز، سمر کیمپس اور دیگر سرگرمیاں 14 جون سے طوفان ٹلنے تک ملتوی رہیں گی۔
کراچی میں ممکنہ طوفان کے پیش نظر اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے 14 اور 15 جون کو ہونے والے پرچے ملتوی کردیے ہیں۔
اس حوالے سے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ نے اعلامیہ بھی جاری کردیا ہے۔ جس کے تحت ملتوی ہونے والے پرچوں کی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب جامعہ کراچی نے 14 جون کو تدریسی عمل اور امتحانات ملتوی کردیے ہیں، ملتوی امتحانات کی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔