خورشید شاہ کی کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی مخالفت
پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی مخالفت کردی اور زراعت کا مناسب بجٹ نہ رکھنے پر حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں اجلاس شروع ہوا تو ایم کیو ایم کن رکن صلاح الدین نے مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر ایوان میں سمندری طوفان کے بارے میں وضاحت کریں۔
شازیہ مری نے کہا کہ سندھ ہی نہیں بلوچستان کے بعض ساحلی علاقوں پر بھی سمندری طوفان کا خطرہ ہے، یہ حالات ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہورہے ہیں۔
اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ سمندری طوفان سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پاک فوج کے جوان علاقے میں کام کررہے ہیں، مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق سمندری طوفان سے لوگوں کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
مولانا عبدالاکبر چترالی نے سمندری طوفان سے بچاؤ کے لیے دعا کرائی۔
وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں یہ بجٹ پیش کرنا ہی بڑی بات ہے، جب ہم اپنے لوگوں کو کہتے ہیں ہمیں ووٹ دو ہم ایوان میں ان کے لیے مہنگائی سے لڑیں گے، افسوس دو تین وزراء کے علاوہ ایوان میں دیگر وزراء موجود نہیں، کل ملا کر 96 وزراء وزرائے مملکت میں سے تین چار کا ایوان میں ہونا ان کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔ ایوان میں ارکان کی تعداد بھی بہت ہی کم ہے، کیا ارکان اور وزراء کی یہ غیر سنجیدگی بجٹ اجلاس اور ان کے ووٹرز کے لیے پیغام نہیں ہے۔
اپوزیشن کے رکن نورعالم خان بھی وزراء کی طرف سے بجٹ کو زبردست قرار دینے پر برس پڑے اور کہا کہ میرے دوستوں نے بجٹ کو بہت اچھا کہا، مجھے حیرانی ہوئی، مجھے یہاں وزراء نہیں مگر ان کی لینڈ کروزر نظر آتی ہیں، یہ بتائیں کہ غریب بندے کو انہوں نے دیا ہی کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب وزراء بڑی گاڑیوں میں اور اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں سب اچھا ہی نظر آتا ہے، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ عروج پر ہے، حکومت بتائے ایک سال میں کیا کیا ہے۔
بجٹ اجلاس کے دوران ایوان ارکان کی اکثریت غائب تھی، جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کی تقاریر کے نوٹس لینے والے مختلف وزارتوں کے افسران کے موجود نہ ہونے کا نوٹس لیا اور حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
Comments are closed on this story.