Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

چینی سیاحوں کو سعودی عرب میں دلچسپی کیوں؟

چین اور سعودی عرب ایک دوسرے کیلئے ضروری کیوں ہیں؟
شائع 13 جون 2023 11:42am
الولا، سعودی عرب میں ایلیفنٹ راک کے مقام پر ایک لڑکا اونٹ پر سوار ہے۔ (تصویر: ژنہوا)
الولا، سعودی عرب میں ایلیفنٹ راک کے مقام پر ایک لڑکا اونٹ پر سوار ہے۔ (تصویر: ژنہوا)

سعودی عرب اور چین کے تیزی سے مضبوط ہوتے تعلقات ریاض اور بیجنگ دونوں کے لیے اہم ہیں، کیونکہ سعودی مملکت وژن 2030 اور چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) تیز رفتاری سے آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔

مشرق میں سعودی عرب کا جیو اکنامک محور اور سعودی مملکت کی معیشت میں چین کا گہرا ہوتا نقش اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ حالیہ برسوں میں دو طرفہ تعلقات کس طرح مضبوط ہوئے ہیں۔

سیاحت سعودی ویژن 2030 کا ایک ستون ہے، اور چین 2019 میں سیاحوں کے حوالے سے عالمی سطح پر پہلے نمبر پر ہے۔

155 ملین چینی شہریوں نے ملک سے باہر سفر کیا اور چین سے باہر چھٹیاں گزارنے کے دوران 250 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کیا۔

سعودی حکومت اس دہائی کے آخر تک سیاحت سے ہونے والی آمدنی کو سالانہ 46 بلین ڈالر تک لے جانے کی کوشش کر رہی ہے، اور مزید چینی سیاحوں کے سعودی عرب آنے سے یہ آمدنی مزید بڑھ سکتی ہے۔

چین سعودیہ کا ایک ساتھ سفر

ایک طرف چین اپنی سخت صفر کووڈ پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑے معاشی دھچکوں سے باہر آ رہا ہے، تو دوسری جانب سعودی عرب اپنی سیاحت کی منڈی کو استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے، کیونکہ اس سے بیرون ملک سفر کرنے والے چینی سیاھوں کی تعداد قدرتی طور پر بڑھے گی۔

مارچ میں، سعودی ٹورازم اتھارٹی کے سی ای او فہد حمیدالدین نے چین کے نائب وزیر ثقافت و سیاحت راؤ کوان سے ملاقات کی، تاکہ 2030 تک ہر سال تقریباً 40 لاکھ چینی سیاحوں کو راغب کرنے میں سعودی مملکت کی مدد کرنے کے لیے مشترکہ سیاحتی اقدامات شروع کرنے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

 النمس کے جبل مریر پارک میں دھند نے آسمان کو ڈھانپ رکھا ہے۔ سعودی عرب میں بحیرہ احمر کا ساحل، پہاڑ اور چٹانوں کے مناظر۔ (تصویر: رانیہ سنجار/اے ایف پی)
النمس کے جبل مریر پارک میں دھند نے آسمان کو ڈھانپ رکھا ہے۔ سعودی عرب میں بحیرہ احمر کا ساحل، پہاڑ اور چٹانوں کے مناظر۔ (تصویر: رانیہ سنجار/اے ایف پی)

بیجنگ ویژن 2030 کی کامیابی کو مشرق وسطیٰ میں چین کے اپنے مفادات کے لیے انتہائی اہم سمجھتا ہے۔

اگر مستقبل میں سعودیہ عرب ملک کی معیشت تیل سے آگے بڑھانے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ ایک تباہ کن اقتصادی حادثہ ہوگا جو خطے میں عدم استحکام کی نئی پرتوں کو جنم دے سکتا ہے، جس سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) اور چین کے عالمی تجارتی عزائم کو خطرہ لاحق ہوگا۔

واشنگٹن میں عرب گلف اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ (AGSIW) کے ایک سینئر رہائشی اسکالر حسین ابیش نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’سعودی تیل اور توانائی کے بعد سیاحت اور تفریح کو اپنی نمبر دو قومی صنعت بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ چینی سیاحت ان کے لیے ممکنہ طور پر ایک بہت بڑی منڈی ہے۔‘ سعودیہ عرب میں میں تین اہم پرکشش مقامات ہیں جو بہت سے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں۔

سب سے پہلے، قدیم سعودی مقامات جیسے کہ مدینہ صوبے میں نخلستان کے شہر الولا میں زمین پر قدیم ترین آثار اور یادگاریں موجود ہیں۔

دوسرا، سعودی عرب کے بحیرہ احمر کے ساحل، پہاڑوں اور چٹانوں کے مناظر قدرتی حسن سے مالا مال ہیں، جو سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔

تیسرا، جیسا کہ سعودی معیشت متنوع ہو رہی ہے، وہاں ایک تفریحی شعبہ بڑھ رہا ہے جو کنسرٹ، ثقافتی میلے، کھیلوں کی تقریبات، کار شو وغیرہ پیش کرتا ہے، جبکہ شمال مغربی سعودی عرب میں ایک منصوبہ بند میگا سٹی ”نیوم“ جس میں 2030 تک 20 لاکھ افراد رہائش پذیر ہوں گے، ممکنہ طور پر بہت سے سیاحوں کو مملکت کی طرف راغب کر سکتا ہے۔

بحر اوقیانوس کونسل میں مشرق وسطیٰ کے پروگراموں کے نان ریذیڈنٹ فیلو احمد ابودوح کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے جاپان کی قومی سیاحت کی حکمت عملی اور آسٹریلیا کے چین 2020 کے اسٹریٹجک پلان کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے۔

ابودوح نے کہا کہ ان منصوبوں میں ’ویزا کی پالیسیوں میں نرمی، فضائی روابط کو بہتر بنانا، سفری خدمات کو اپ گریڈ کرنا اور دیگر ٹارگٹڈ اپروچز شامل ہیں، جن میں روایتی چینی میڈیا اور مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سعودی مقامات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا اور تکنیکی ادائیگیوں کے حل شامل کرنا‘ شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چینی سیاحوں کی خرچ کرنے کی طاقت نہ صرف مقامی مارکیٹ کو سرمایہ فراہم کرے گی اور سعودی عرب میں ملازمتیں پیدا کرے گی بلکہ چین اور خلیج کے درمیان سپلائی چین کو بھی مضبوط کرے گی اور خطے میں ہوا بازی کی صنعت کو فروغ دے گی۔ معیشت کو متنوع بنانے کے سعودی منصوبوں کی حمایت کرنے کی (ان کی) وسیع صلاحیت کے علاوہ … چینی سیاح دونوں کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے ثقافتی تبادلے کا ایک اہم جزو ہیں‘۔

علاقائی اور بین الاقوامی مقابلہ

اگر سعودی عرب مزید توجہ دیتا ہے تو اس سے خلیجی اور یورپی ممالک میں چینی سیاحوں کی تعداد کم کر سکتا ہے۔

ابودوح نے الجزیرہ کو بتایا کہ چینی سیاحت کے لیے مملکت کی ترغیبات ہمسایہ ملک عمان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مسابقت کو متحرک کر سکتی ہیں۔

خلیج تعاون کونسل (GCC) میں چینی سیاحوں کے لیے بڑھتی مسابقت بیجنگ کو اس کی ”ہیجنگ“ حکمت عملی کے لحاظ سے ایک چیلنجنگ پوزیشن میں ڈال سکتی ہے، جس کا مقصد کسی ایک ملک کے زیادہ قریب جانے سے گریز کرتے ہوئے تمام خلیجی ممالک کے ساتھ بیجنگ کے اچھے تعلقات کو متوازن کرنا ہے۔

لہٰذا، ابودوح کو توقع ہے کہ خلیج کے مشہور مقامات کے لیے ایک متوازن آؤٹ باؤنڈ چینی سیاحت کی پالیسی اور BRI اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کو استعمال کرنے پر توجہ دی جائے گی، تاکہ خطے میں چین کے خلیجی شراکت داروں میں سے کسی کو الگ نہ کیا جا سکے۔

 نجران، سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ کی تربیت کے دوران سیاح تصویریں کھینچ رہے ہیں
نجران، سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ کی تربیت کے دوران سیاح تصویریں کھینچ رہے ہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ ریل اور ویزا اسکیمیں سعودی عرب اور جی سی سی کے دیگر پانچ رکن ممالک کے درمیان رابطے کو بڑھانے کا کام کر سکتی ہیں، جو ’خلیجی ممالک کو آنے والی سیاحت کی دولت کو خطے میں اس طرح پھیلانے کی اجازت دے سکتی ہے جیسے ماضی میں کرنا زیادہ مشکل تھا‘۔

چین سعودی تعلقات کے لیے سیاحت کی اہمیت

چین کے ساتھ سعودی مملکت کے کثیر جہتی تعلقات صرف سیاحت پر قائم نہیں ہیں۔ چین سعودی تعلقات کے سب سے اہم پہلو تیل، تجارت اور حساس ٹیکنالوجی نظر آتے ہیں۔

پھر بھی، بڑھتے ہوئے سیاحتی روابط چین سعودی تعلقات کو ان طریقوں سے گہرا کریں گے جو معاشیات سے بالاتر ہوں گے۔

چین سعودی سیاحتی تعلقات میں توسیع “سعودی اقتصادی منتقلی کو مضبوط بنانے اور لوگوں کے درمیان تبادلے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے ایک طویل سفر طے کرے گی، جو ایک مضبوط شراکت داری کے دیگر پہلوؤں کی بنیاد ہو سکتی ہے۔

Saudia Arabia

china

tourism

Sino Saudi relations