Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

عمران خان اور پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پرسوالیہ نشان

کیا پی ٹی آئی آئندہ انتخابات تک قائم رہے گی؟
شائع 03 جون 2023 10:16am
تصویر: ای پی اے
تصویر: ای پی اے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو ان پر قائم مقدمات کے حوالے سے شاید ہی کبھی کسی کے ذہن میں آیا ہو لیکن 9 مئی کو ان کی گرفتاری کیخلاف ردعمل کے بعد نہ صرف عمران خان بلکہ اس پارٹی کی سیاسی ساکھ اور مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

عمران خان پارٹی چیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اکائی ہیں جنہیں سپورٹرز پی ٹی آئی کے لیے لازم گردانتے ہیں اوران کا ماننا ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو پھر پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل بھی نہیں۔

عمران خان کی گرفتاری سے قبل تک پی ٹی آئی کا بچہ بچہ ببانگ دہل یہ بتا کہتا تھا کہ الیکشن میں جیت صرف اُنہی کی ہوگی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ وہی عام کارکن مخمصے میں ہے کہ ان کی جماعت الیکشن تک برقرار بھی رہے گی یا نہیں اور اس سارے میں خود عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔

نو مئی کے پُرتشدد واقعات کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے بعد پارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے پریس کانفرنسزمیں جس طرح پارٹی چھوڑنے اور کئی ایک نے سیاست تک سے کنارہ کشی کرنے کا اعلان کیا وہ خود اپنی جگہ جواب طلب ہے کیونکہ ’ہے حق ہمارا آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی‘ اور ’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘ کے بیانیے سے راتوں رات دستبرداری اور پھرانہی اقدامات کی مذمت جو خود کارکنوں کو اُکسا کر کروائے گئے، کے بعد چُپ سادھ لینا شاید ہی کسی کو ہضم ہوا ہو۔

پارٹی کی سینیئرقیادت کے ساتھ چھوڑجانے کے بعد اس کے مستقبل کی ہچکولے کھاتی کشتی کی بقاء کیلئے فکرمند یہ سوچنے پر مجبورہیں کہ اب ان کی سیاسی جماعت کا کیا ہوگا؟ کیا اسے ختم کردیا جائے گا؟ تاہم ان کے شکوک وشبہات کو عمران خان ان بیانات سے سنبھالا دے رہے ہیں کہ چھوڑ جانے والوں کی جگہ نئے آنے والوں کو دی جائے گی ۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے بیانات سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہیں اپنے ووٹرز اور سپورٹرز پر پُورا بھروسہ ہے اور انہی کےدم سے وہ سیاسی اکھاڑے میں اپنی اہمیت برقرار رکھیں گے۔

قانونی جنگ میں پی ٹی آئی کا کیا ہو گا؟

نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن ، مرکزی قیادت کے ساتھ چھوڑنے اور بعد میں پرانے ساتھیوں (جو اب پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ) کے ساتھ ملاقاتوں میں ’سیاسی جوڑتوڑ‘ کو ’ریاستی جبر‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے عام سپورٹرزکی جانب سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ سب عمران خان کو پارٹی سے نکالنے یا اسے ختم کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والے شدید ردعمل کے بعد کارکنوں کی گرفتاریوں ، چھاپوں ، گمشدگیوں کے علاوہ قدمات ملٹری کورٹس میں چلانے جیسے اقدامات نے اب اس جماعت کے حامیوں کو بھی پہلے کی طرح کھل کر بولنے سے روک دیاہے۔

سیاسی مبصرین کیا کہتے ہیں

برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سے بات کرتے ہوئے کئی لوگوں نے اس بات کا ذکرکیا کہ وہ اب پی ٹی آئی کو کھلے عام سپورٹ کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ اس لیے وہ خاموش ہیں۔

اسی حوالے سے تجزیہ کار نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ اس باز چیزیں تھوڑی مختلف اور کریک ڈاؤن کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پی پی پی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا تھا ۔ اس بار یہ فرق بھی ہے کہ اگر لوگ پکڑے نہیں جا رہے تو ان کے خاندان کے لوگوں کو پکڑا جارہا ہے۔ کسی کے سُسر تو کسی کےبیٹے کو پکڑا گیا۔کوئی رہنما (شہزاد اکبر)بیرون ملک ہے تو اُس کے چھوٹے بھائی کو بھی نہیں بخشا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سب کو پتا چل رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں پولیس کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو جا کر ہراس کر رہے ہیں، پکڑ رہے ہیں۔اس بار سب کچھ کھل کر سامنے آ رہا ہے۔انتظامیہ کا اور عدلیہ کا جو مقابلہ چل رہا ہے وہ پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

نسیم زہرہ کے مطابق، ’عدلیہ اگر لوگوں کو ضمانت پر رہا کرتی ہے تو انتظامیہ یعنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ رہا ہونے والوں کو دوبارہ گرفتار کر لیتے ہیں۔ مختلف لیڈر ہیں پی ٹی آئی کے تین تین، چار چار مرتبہ پکڑے گئے اور چھوڑے گئے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو لے لیں، علی محمد خان کو دیکھ لیں۔ فواد چوہدری کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، وہ تو بھاگ کر جا رہے تھے کہ کورٹ سے ضمانت لے لیں تاکہ پھر نہ پکڑے جائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہے سب کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے ،کون کر رہا ہے۔ کلئیر کٹ اپروچ اور پلان ہے کہ، ”توڑ پھوڑ کر پی ٹی آئی کو ختم کرنا ہے۔“ جہانگیر ترین فوراً اٹھ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ق میں تھوڑی سی جان زیادہ پڑی ہے۔ ابھی واضح نہیں کہ شاہ محمود قریشی اور تین چار اور لوگ تحریک انصاف سے جڑے رہیں گے یا نہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک منحرف رہنما کی رائے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سابق رکن کا کہنا تھا کہ اس وقت پارٹی صورت حال کمزورہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی صرف عمران خان تک ہی محدود ہے۔ جب دیگر رہنما گرفتار ہوئے تھے تو ہمارے لیے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔

ان کے مطابق، ’میں حلقے کی سیاست کرنے والا بندہ ہوں اوربطور سیاست دان میں نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ میرے علاقے کے لوگ کس حال میں ہیں۔ جب یہ کریک ڈاون شروع ہوا تو میرے حلقے کے کئی لوگ پکڑے گئے۔ ان کے پیچھے جانا بھی ضروری تھا۔‘

کسی قسم کے دباؤ اور خوف کے ڈر سے پارٹی چھوڑی یا اپنی مرضی سے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، ’مجھ پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں سیاست دان ہوا کا رخ دیکھتا ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں پر دباؤ بھی ڈالا گیا۔لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ سب پر دباؤ ڈالا گیا ہے تو یہ غلط ہوگا۔ اور جہاں تک رہی بات دباؤ ڈالنے والوں کی تو یہ وہی لوگ ہیں جو پی ٹی آئی کو وجود میں لائے اور عمران خان کو 2018 میں مسند اقتدار تک پہنچایا‘۔

سابق پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ، ’کیونکہ اب لڑئی بھی انہی لوگوں سے ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کو بندے پورے کر دیے تھے تو وہ بندے توڑ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے میں تو اس پارٹی کا سیاسی مستقبل کچھ زیادہ روشن نہیں دیکھ رہا‘۔

تاہم دباؤ اور گرفتاریوں کے باوجود کچھ لوگ تاحال تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پارٹی سے منسلک چند ایسے افراد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کچھ ساتھی گرفتار ہوئے ہیں۔ تاہم ہم ابھی تک اپنے آپ کو گرفتاری سے بچانے میں کامیاب ہیں۔ ایسے ہی ایک پارٹی رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان سے باہر چلے جائیں گے۔

اپنے گھر اور اہل خانہ سے کئی سو میل دور کسی علاقے میں چھپنے پر مجبور ایک صاحب ایسے بھی ہیں جن کا کہنا تھا کہ ہم تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، ہمھیں پہلے لگتا تھا کہ مسلم لیگ ن کی سیاست ختم ہو گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے ہمیں یقین ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی ختم کرنا آسان نہیں ہے۔

عمران خان کو مستقبل میں کِن سیاسی اور قانونی محاذوں کا سامنا ہوگا؟

سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست میں فوج کے عمل دخل کے بغیر اقتدار کی کرسی پربیٹھنا ناممکنات میں شمار ہوتا ہے۔اسی لیے عمران خان اپنا اقتدار کھونے اور اپنےخلاف سیاسی انتقام کا الزام کئی مرتبہ فوج پر لگا چکے ہیں۔

جبکہ ماضی میں عمران خان کے سیاسی حریف یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ فوج اور اسیبلشمنٹ کے منظور نظر ہونے کی وجہ سے ہی اقتدار میں آئے۔اور اب انہی کو ناراض کرنے کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نو مئی کے واقعات کی وجہ سے عمران خان کی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

تازہ صورتحال یہ ہے پی ٹی آئی حقیقی (ملتان سے پی ٹی آئی یوتھ وِنگ کے سابق ضلعی صدر راؤ یاسر اس جماعت کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں ) کے نام سے نئی جماعت کے علاوہ ماضی میں عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی جہانگیر ترین بھی اُن خلاف متحرک ہیں۔ خود عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ ان کی نااہلی اور سیاست سے انہیں باہرکردینے کی کوششیں جاری ہیں۔

قانونی ماہر اسد جمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کیخلاف زیادہ تر مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن میں وزن ہے لیکن انہیں بنیاد بنا کر عمران خان کو سیاست سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔تاہم نو مئی کے واقعات کو عمان خان خان سے جوڑا جارہا ہے۔ ان پر لوگوں کو اکسانے کا الزام ہے جس کو بنیاد بنا کر ان کیخلاف بھی ملٹری ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ، ’یہ ایک ایسا کیس ہے جس میں عمران کو سزا بھی ہو سکتی ہے اورکچھ عرصے کے لیے سیاست سے بھی دوررکھا جا سکتا ہے۔‘

دوسری جانب اب بھی بیشتر سپورٹرزکا یہ ماننا ہے کہ عمران خان اب بھی اتنے ہی مقبول ہیں کہ وہ جس کسی کو بھی پارٹی ٹکٹ دیں گے وہ آئندہ الیکشن میں کامیاب ہوگا۔

pti

imran khan

Elections