Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
14 Jumada Al-Awwal 1446  

پشاور میں 13 سالہ بچی کا ریپ، حمل اور موت

بچی کے والدین پولیس کو مقدمہ درج نہ کرنے کے لیے اصرار کرتے رہے۔
اپ ڈیٹ 30 مئ 2023 03:59pm
آرٹ ورک: آج نیوز/ڈیجیٹل
آرٹ ورک: آج نیوز/ڈیجیٹل

پشاور کے سرکاری ہسپتال میں تیرہ سالہ حاملہ بچی کی موت پختونخوا میں ناعمر بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کے واقعات کی ایک ایسی تلخ حقیقت ثابت ہوئی، جس نے معاشرے کی بے حسی اور قانون کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا۔

ایس پی فقیرآباد ڈاکٹر عمر نے آج ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 24 مئی کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے پولیس کو ایک کال آئی کہ ان کے پاس تشویشناک حالت میں 13 سالہ حاملہ بچی لائی گئی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ کلینک میں بچی کا غیر قانونی اور انتہائی غیر محفوظ طریقوں سے حمل ضائع کرنے کی کئی کوشش کی گئی، لیکن بچی کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث اُسے لیڈی ریڈنگ اسپتال لایا گیا۔ جہاں اُسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔

ہسپتال میں بچی نے پانچ ماہ کے (fetus) کو مردہ حالت میں جنم دیا اوراس کے بعد 13 سالہ زچہ بھی چل بسی۔

طبی عملے کے مطابق بچی کو اسقاط حمل کی غیر قانونی کوششوں کے دوران ضرورت سے بہت زیادہ ادویات دی گئیں اور انجکشن بھی لگائے جاتے رہے تھے۔

بچی کون تھی؟

تیرہ سالہ بچی نادیہ (فرضی نام) پھندو کے سرکاری اسکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ بچی کے والد مقامی فروٹ منڈی میں مزدور کرتے ہیں۔

والد کے مطابق انہیں بیٹی کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور اس کے حاملہ ہونے کے بارے میں کسی قسم معلومات نہیں تھیں۔

اُنہوں نے بیٹی کے اسقاط حمل کی کوشش سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ والد کے بیان کے مطابق انہیں صرف یہ کہا جاتا رہا کہ ان کی بیٹی کے پیٹ میں بہت درد رہتا تھا اس لئے اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا تھا۔

25 سالہ ملزم نے جرم کا اقرار کر لیا

پولیس کی طرف سے اس مقدمے میں ایف آئی آر درج کیے جانے کے بعد کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ بچی کے خاندان کا ماضی قریب میں ایک پڑوسی کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔

پھر چند روز قبل یہی پڑوسی اور اس کے اہل خانہ اپنے گھر کو تالا لگا کر اچانک کہیں چلے گئے تھے۔

پولیس کو اس خاندان پر شبہ ہوا تو انھیں بھی شامل تفتیش کیا گیا۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے بیان نے حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔ ملزم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایس پی فقیرآباد ڈاکٹر عمر نے آج ڈیجیٹل کو بتایا کہ پھندو پولیس نے واقعے کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 25 سالہ ملزم عتیق الرحمان کو گرفتار کیا۔

ملزم نے ابتدائی تفتیش میں اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ بچی گلی سے گزر رہی تھی کہ اس نے اسے گھر کے اندر بلایا اور اس کا ریپ کیا اور یہ عمل دو سے تین بار کیا۔

بچی سے زیادتی کا ملزم (بائیں) اور واقعے کی ایف آئی آر کا عکس (دائیں)
بچی سے زیادتی کا ملزم (بائیں) اور واقعے کی ایف آئی آر کا عکس (دائیں)

2022 میں جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح 3.6 فیصد رہی

پولیس کے مطابق 2019ء سے 2021ء تک خیبر پختونخوا میں ریپ کے جو 119 واقعات رجسٹر ہوئے ان میں سے صرف 11 میں ملوث مجرموں کو ہی سزائیں سنائی جا سکیں۔

2022ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں بچوں اور بچیوں کے ریپ کے 365 واقعات رجسٹر ہوئے، متاثرہ بچوں اور بچیوں میں سے چار کو ریپ کے بعد قتل بھی کر دیا گیا تھا۔

ان جرائم کے سلسلے میں گذشتہ سال پولیس نے 329 مبینہ ملزمان کو گرفتار کیا تھا، جبکہ پاکستان کی سطح پر 2022 میں جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح 3.6 فیصد رہی۔

7988 مقدمات میں سے صرف 160 افراد کو عدالتوں نے جنسی جرائم کے ارتکاب کی سزا سنائی۔

جن لوگوں نے جنسی جرائم کے مقدمات کا سامنا کیا ان میں سے 65 فیصد کو ٹرائل کورٹس نے بری کر دیا۔

پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 11 ریپ کے واقعات

ریسرچ گیٹ پر ریپ سے متعلق موجود تحقیق سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 11 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔

گزشتہ چھ سالوں میں پولیس کے پاس 22,000 سے زیادہ کیسز درج کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایک سال میں (12 اکتوبر 2020 سے 12 اکتوبر 2021 تک) عصمت دری کے 1,040 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان میں سے 685 مقدمات نابالغوں کے خلاف ہوئے۔ 351 بالغ اور چار خواجہ سرا بھی عصمت دری کا شکار ہوئے۔

اعداد و شمار سے عصمت دری کے متاثرین کی 69 اموات کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔

بچی کے ساتھ جنسی تعلق ریپ کے زمرے میں آتا ہے

پشاور ہائیکورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل ایڈووکیٹ کا مؤقف ہے کہ ملزم کی جانب سے پولیس کے سامنے اعتراف کی عدالت میں کوئی قانونی حیثیت نہیں، لیکن ملزم کے بیان سے پولیس کو ٹھوس شواہد تک پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سیف اللہ محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ اسلامی معاشرے میں جنسی تعلقات کا باہمی رضامندی سے بھی کوئی تصور موجود نہیں، بلکہ یہ ایک جرم تصور ہوگا اور پھر 18 سال سے کم عمر بچی کے ساتھ تو جنسی تعلقات قائم کرنا پوری دنیا میں جرم ہے۔ اس لئے بچی کے ساتھ جنسی تعلق ریپ کے زمرے میں ہی آئے گا۔

سیف اللہ نے بتایا کہ اسقاط حمل کی کوشش میں زچہ بچہ دونوں جاں بحق ہوئے، اس لئے پولیس کو اس زاویے سے بھی تحقیق کرکے ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کی مشاورت سے قتل کی دفعہ 302 سمیت مزید دفعات شامل کرنی چاہیے۔

سیف اللہ محب کاکا خیل کی رائے ہے کہ اس کیس میں میڈیکل اور ڈی این اے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور مؤثر ڈی این اے رپورٹ تیار کرنے سے ہی کیس کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

کیا پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون ہے؟

خیبرپختونخوا میں بچوں کے تحفظ کے لیے ایک جامع قانون ”خیبر پختونخواہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010“ کی شکل میں موجود ہے۔ اسی قانون کے تحت 2011 میں صوبہ کے سطح پر ایک کمیشن بھی قائم ہے۔ اس قانون میں 2022 میں ترامیم بھی کی گئیں۔

خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ ترمیمی بل 2022 کے مطابق بچوں سے زیادتی کی سزا عمر قید، سزائے موت اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ زیادتی کے وقت ویڈیو بنانے پر 20 سال قید اور 70 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد ہوگا۔ جبکہ زیادتی کی ویڈیو شیئر کرنے والے کو بھی 10 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

اسی طرح ڈی این اے رپورٹ اور ویڈیو کو عدالت میں بطور ثبوت تسلیم کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ بھی کئی اور اہم ترامیم کی گئیں جو بلاشبہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام اور متاثرہ بچے کو انصاف کی فراہمی کے لئے ایک اہم پیش رفت ثابت ہوسکتی ہیں۔

لیکن کمزور ایف آئی آرز، ناقص تحقیقات، متاثرہ فریق اور ملزم کے خاندانوں میں سمجھوتہ اور معاشرتی دباؤ ایسے عوامل ہیں جو ریپ کیسز میں ملزمان کے چھٹکارے کا سبب بنتے ہیں۔

جیسا کہ 13 سالہ نادیہ (فرضی نام) کے کیس میں پولیس نے بتایا کہ بچی کے والدین پولیس کو مقدمہ درج نہ کرنے کے لیے اصرار کرتے رہے۔

KPK

Child Rape

Child Abuse