Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سنگوٹہ اسکول فائرنگ: تڑتڑاتی گولیوں کے بیچ طالبات نے کیا دیکھا؟

'ہم بہت ڈر گئے تھے، لیکن اب ہم سکول جارہے ہیں اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہیں'
اپ ڈیٹ 29 مئ 2023 01:15pm
تصاویر بزریعہ مصنف
تصاویر بزریعہ مصنف

’مجھے نہیں لگتا کہ میری شہید بھتیجی عائشہ کو انصاف مل سکے گا۔ پولیس صرف تعزیت کیلئے آئی تھی، اس کے بعد ہمیں کسی قسم کی کارروائی کا پتا نہیں۔ اس سے قبل بھی ہمارے خاندان کے 10 سے زائد افراد کو شہید کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک اُن کی بھی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کیس بھی دیگر کیسوں کی طرح بھلا دیا جائے گا۔‘

یہ کہنا ہے سنگوٹہ پبلک اسکول فائرنگ میں جاں بحق چھ سالہ بچی عائشہ کے چچا حیات خان کا، جنہوں نے واقعے کی تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سوات کا سنگوٹہ پبلک اسکول پولیس کلیئرنس ملنے کے 7 روز کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ لیکن طالبات کے دلوں میں اب بھی خوف بیٹھا ہے۔

عائشہ کے چچا حیات خان کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے انصاف کی توقع نہیں، یہ ایک اہم کیس ہے۔ کیونکہ فائرنگ کسی دہشت گرد نے نہیں بلکہ سیکورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگ پولیس سے بھی خوف محسوس کررہے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ اس کیس میں متاثرہ خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ورنہ لوگ ان سے بھی نفرت کریں گے۔

سنگوٹہ پبلک اسکول میں 16 مئی کو اسکول کے سرکاری گارڈ نے سرکاری کلاشنکوف سے اسکول کی بچیوں پر فائرنگ کی تھی جس سے ایک بچی جاں بحق اور ٹیچر سمیت 7 بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔

اسکول میں فائرنگ کرنے والے اہلکار کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ ذہنی مریض ہے۔ فائرنگ کرنے والے گرفتار پولیس اہلکار عالم خان پر فی الحال 320 ، 324 اور 427 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

’گاڑی پر جب فائرنگ شروع ہوئی تو میں نے شیشے سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی بچائی۔‘

چوتھی جماعت کی 13 سالہ طالبہ گل بشی نے واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بتایا، اور کہا کہ ہم گھر جارہے تھے۔ جیسے ہی گیٹ کھلا فائرنگ شروع ہوگئی۔ ہمیں پتا نہ چلا کہ کیا ہوا ہے، ہم نے سوچا کہ کوئی پٹاخے پھوڑ رہا ہے۔

گل بشی نے بتایا کہ جب میں نے اپنے دوستوں کے کپڑوں پر خون کے دھبے دیکھے تو پتا چلا کہ گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے۔ میں نے شیشے سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی، میری دیگر رشتہ دار بچیاں گاڑی میں ہی رہ گئیں۔

گل بشی نے مزید بتایا کہ میری ماموں کی بیٹی عائشہ گولی لگنے سے سیٹ کے نیچے پڑی تھی۔ میری چچا زاد بہن جب بیگ لینے کیلئے گاڑی میں گئی تو عائشہ سیٹ کے نیچے خون میں لت پت پڑی تھی۔ اس کے بعد اس کی چیخیں نکل گئیں۔ ہم بہت ڈر گئے تھے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ لیکن اب ہم سکول جارہے ہیں اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہیں۔

’آنکھوں کے سامنے بہن پر گولی چلی‘

چوتھی جماعت کی طالبہ اریشا کی عمر دس سال ہے۔ جو جاں بحق چھ سالہ عائشہ کی بہن ہے، جس کے سامنے اُس کی بہن پر گولی چلائی گئی۔

اریشا نے بتایا، ’ہم نے دوسرے چوکیدار کو کہا کہ گیٹ کھول دیں۔ جب گیٹ کھل گیا اور آدھی گاڑی باہر نکلی، تو پولیس اہلکار نے پہلے ہماری گاڑی کے ٹائر پر فائرنگ کی اور پھر گاڑی کے پیچھے والے حصے پر فائرنگ کھول دی، جس میں کچھ بچیاں آگے اور کچھ پیچھے زخمی ہوگئیں۔ ٹیچرز کے پاؤں زخمی ہوگئے اور ہماری دوست بچیاں بھی مختلف جگہ پر زخمی ہوگئیں۔‘

اریشا نے کہا کہ میری بہن کے سر میں گولی لگی جس سے وہ جاں بحق ہوگئی۔ میری خالہ زاد بہن کی ناک اور مجھے خود چہرے پر زخم آئے۔ میری بہن کو لگنے والی گولی مجھ پر بھی لگی۔ اس کے باوجود ہم اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے۔

’چیخنا شروع کیا تو چوکیدار نے گاڑی سے اتارا‘

دوسری جماعت کی نو سالہ طالبہ حورین بھی ان متاثرہ بچیوں میں شامل ہیں جن کے دماغ میں وہ بھیانک لمحات ہمیشہ کیلئے قید ہوچکے ہیں۔

حورین نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم گاڑی میں بیٹھے تھے، جب گیٹ کھل گیا تو اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی۔ میں شیشہ لگنے سے ناک اور چہرے پر زخمی ہوئی ہوں۔

حورین نے بتایا کہ میں اس لیئے بچ گئی کہ فائرنگ کے دوران میں سیٹ کے نیچے چھپ گئی تھی۔ جیسے ہی میں نے سر باہر نکالا تو زخمی ہوگئی۔ بہت زیادہ فائرنگ ہورہی تھی۔

حورین نے کہا کہ جب میں گاڑی میں آئی، تو میری چچا زاد بہن گاڑی کی فرش پر پڑی تھی۔ میں نے چیخنا شروع کیا تو دوسرے چوکیدار نے مجھے واپس گاڑی سے نیچے اُتارا اور بعد میں عائشہ کو گاڑی سے اُتار کر اسپتال لے گیا۔ فائرنگ کے دوران ہم بہت ڈر گئے تھے۔

ملزم عالم خان کون تھا؟

ڈی پی او سوات شفیع اللہ گنڈا پور کے مطابق عالم خان اسپیشل پولیس فورس میں بھرتی ہوا۔ اس نے 2022 میں بونیر میں ٹریننگ اسکول میں تربیت حاصل کی اور پانچ ماہ سے سنگوٹہ پبلک اسکول میں تعینات تھا۔

شفیع اللہ نے مزید بتایا کہ ایک دفعہ اس کانسٹیبل کی معطلی اُس کے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم موجودہ واقعے پر جے آئی ٹی بنائی گئی ہے جو مکمل تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے گی۔

فائرنگ کرنے والے گرفتار پولیس اہلکار عالم خان پر فی الحال 320 ، 324 اور 427 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ کانسٹیبل سے متعلق یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسے کام پر حاضر نہ ہونے پر ایک بار معطل کیا گیا اور پھر دوبارہ ڈیوٹی پر لگایا گیا۔

ملزم عالم خان کا تعلق اسلام پور سے ہے اور آج نیوز سے رابطہ کرنے والے ایک پڑوسی کے مطابق وہ اپنے والد سے لڑ کر گھر سے باہر چلا گیا تھا۔

ملزم کا طالبان سے تعلق

جاں بحق نرسری کی طالبہ عائشہ کے چچا حیات علی نے آج نیوز کو بتایا تھا کہ عینی شاہدین نے دیکھا پولیس کانسٹیبل نے پورا میگزین بچیوں پر خالی کیا اور دوسرا میگزین لوڈ کرنے کی کوشش کے دوران عوام نے اسے پکڑ لیا۔

حیات علی نے عینی شاہدین کے حوالے سے مزید بتایا کہ اہلکار کی جانب سے پوری وین پر حملہ کیا گیا، جس سے ایسا لگا کہ اس نے تمام بچیوں کو مارنے کی کوشش کی ہے۔

اہلکار کی فائرنگ سے جاں بحق بچی کے چچا نے انکشاف کیا کہ حملہ کرنے والے پولیس کانسٹیبل کا پہلے طالبان سے تعلق تھا جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ طبی طور پر فٹ نہیں تھا۔

TTP

Taliban

Swat

police constable

Sanguta School Firing