گرفتاری غیر قانونی قرار، عمران خان کو سپریم کورٹ کی نگرانی میں رکھنے کا حکم
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دے کر انہیں ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی اور پی ٹی آئی چیئرمین کو پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس میں رکھنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی درخواست پر سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہرمن اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تو پولیس انہیں لے کر پولیس لائنز سے روانہ ہوئی، پولیس نے عمران خان کو پولیس لائنز کے عقبی دروازے سے نکالا۔
ڈی آئی جی اورایس ایس پی آپریشنز شہزاد بخاری نے سپریم کورٹ پہنچ کر سکیورٹی اقدامات کا جائزہ لیا۔ عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی سے قبل پاک فوج کی ٹیم نے اسلام آباد میں فلیگ مارچ بھی کیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے کارکنان کو سپریم کورٹ نہ پہنچنے کی ہدایت کی تاہم پی ٹی آئی لائرز ونگ کے وکلا پارٹی چیئرمین سے اظہار یکجہتی کے لئے عدالت پہنچ گئے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو ساڑھے 4 بجے عدالت پہنچانے کے حکم دیا تھا تاہم اسلام آباد پولیس نے سابق وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے میں ایک گھنٹہ 12 منٹ کی تاخیر کردی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی گرفتاری کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر
عمران خان کو اسلام آباد پولیس نے تاخیر سے سپریم کورٹ میں پیش کیا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا اور عدالت نے سابق وزیراعظم کو روسٹرم پر طلب کیا۔
اس دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں، یہ بات کی جارہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باہر نکلے، ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ آپ 9 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، کورٹ آف لاء میں پیش ہونے کا مطلب ملزم نے سرینڈر کردیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی جسے ہم واپس کر رہے ہیں۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ امن بحال ہوگا تو آئینی مشنیری کام کر سکے گی، آپ کو پر تشدد مظاہروں کا علم ہوگا، عدالت کی خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں، عدالت ہر شہری کا تحفظ کرنے کے لئے ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کل کیس کی سماعت کرے جس کا فیصلہ ماننا ہوگا۔
عمران خان کا سپریم کورٹ میں بیان
سپریم کورٹ میں پیش وہنے پر چیف جسٹس نے سابق وزیراعظم کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔ اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ سےاغوا کرکے مجھے ڈنڈے مارے گئے، نہیں معلوم مجھےکہاں کہاں لے جایا گیا، ایسا کو کسی مجرم کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔
عمران خان نے کارکنوں کو پُرامن رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، کارکنان پُرامن ہو جائیں، ملک میں انتشار نہیں چاہتے۔
مجھے علم ہی نہیں تھاکہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، عمران خان
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، کل وکلاء نے مجھے بتایا کہ انتشار پھیل رہا ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عدالت میں لوگ انصاف کیلئے آتے ہیں، جب اغوا کیا گیا تو یہ واقعات میرے لیے حیران کُن تھے، مجھے علم ہی نہیں تھاکہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، لہٰذا میں مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہوگیا۔
عمران خان کو سپریم کورٹ کی زیر نگرانی گیسٹ ہاؤس میں رکھنے کا حکم
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کل اسلام ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے، لہٰذا آئی جی عمران خان کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں، ان کی سکیورٹی کی گارنٹی سرکار کی ہوگی۔
آپ عدالت کی نگرانی میں ہیں، ہم نہیں چاہتے آپ کو کوئی نقصان پہنچے، چیف جسٹس
عمران خان نے عدالت سے بنی گالہ میں رہنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت کی نگرانی میں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی نگرانی سے اللہ کی برکت آئے گی، ہمیں آپ کی سکیورٹی عزیز ہے، عمران خان کو فیملی ممبر اور ساتھی ارکان سے ملاقات کی اجازت ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عمران خان آج سپریم کورٹ کے مہمان ہوں گے، سکیورٹی کے مدنظر عمران خان کو آج پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا جہاں وہ جن شخصیات سے چاہیں مل سکتے ہیں، عمران خان کو کل صبح 11 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہیں تو ان کے ساتھ دوست یا فیملی ممبران رات کو قیام بھی کر سکتے ہیں، عمران خان کی خواہش کے برعکس ملنے والوں کو عمران خان سے اجازت لینا ہوگی۔
مجھے دھمکی دی گئی کہ آپ حملے کا انتظار کریں، چیف جسٹس
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ مجھےدھمکی دی گئی کہ آپ حملے کا انتظار کریں، عمران خان کےپاس سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں، 23 کروڑ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارا لیڈر اس کشتی کو آگے چلائے، لہٰذا آپ اس کشتی کو آگے نکالنے میں مدد کریں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئین کے تحت عوام کی خدمت کرنے والا آمین ہوتا ہے، ہمیں یقین ہے کہ آپ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، البتہ ہمیں توقع ہے دوسرا فریق بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔
سماعت کا احوال
سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی اس دوران عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوئے تھے، انہیں ہائی کورٹ سے گرفتار کرلیا گیا، رینجرز نے انہیں پرتشدد طریقے سے گرفتار کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق درخواست دائر ہوئی ہے مقرر نہیں ہوئی، جو مقدمہ مقرر تھا وہ بھی دیکھ لیتے ہیں، وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔
کسی کو انصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان عدالت کے احاطہ میں داخل ہو چکے تھے، کسی کو انصاف کے حق سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا احترام ہوتا ہے، نیب نے سپریم کورٹ کی پارکنگ سے ملزم کو گرفتار کیا تھا، عدالت نے اس گرفتاری کو واپس کرایا تھا، نیب نے یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا۔
کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس
وکیل نے بتایا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے توعدالت کی کیا توقیر رہی، کیا عدالت میں توڑ پھوڑ پر وکلا کے خلاف کارروائی کی گئی، کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں سرنڈرکرنے پر گرفتاری کا کیا مطلب ہے، آئندہ کوئی انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرارسے اجازت لینی چاہیئے تھی۔
وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ قانونی نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے عمل کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان پرحملہ ہوا، سکیورٹی بھی واپس لے لی گئی، عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے، جس طرح رینجرز نے گرفتار کیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب افسر بھی موجود نہیں تھے، اگلے دن اسد عمر کو ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا۔
وقت آ گیا ہے کہ نیب کا یہ تاثر ختم ہو، جسٹس اطہر
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کئی سال سے یہ حرکتیں منتخب نمائندوں کے ساتھ کررہا ہے، وقت آ گیا ہے کہ نیب کا یہ تاثر ختم ہو۔
جسٹس اطہر من اللہ وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کا عمل مکمل ہوچکا تھا؟َ۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ہماری درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم کو وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، سیکریٹری داخلہ نے بتایا وارنٹ ابھی تک عملدرآمد کے لیے انہیں موصول نہیں ہوئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قیادت عدالتی پیشی پر بھی اچھے عمل کی توقع ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری کے بعد جو ہوا اسے رکنا چاہیئے تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظرچرائی جاسکے، ایسا فیصلہ دینا چاہیئے جن کا اطلاق سبھی پر ہو، انصاف تک رسائی ہرملزم کا حق ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میانوالی کی ضلعی عدلیہ پر آج حملہ ہوا ہے، معلوم کریں یہ حملہ کس نے کیا ہے، ضلعی عدالیہ پرحملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کو گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تویہاں نہ ہوتے، عمران خان کے ساتھ کوئی کارکن یا جتھہ عدالت میں نہیں تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا نیب نوٹسزکا جواب بھجوایا گیا تھا۔ جس پر وکیل عمران خان نے بتایا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا، قانون کے مطابق انکوائری سطح پر گرفتاری نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 100 لوگوں کے داخلے سے احاطہ عدالت میں خوف پھیل جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: عمران کی گرفتاری کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض کردیا
جسٹس محمد علی مظفر نے ریمارکس دیئے کہ نیب نوٹس کا مطلب ہے کہ وہ ملزم تصورہوگیا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ضمانت قبل از گرفتاری کرا لیتے ہیں، کیا عمران خان نے قانون نہیں توڑا تھا، نیب ریکارڈ کے مطابق نوٹس کا جواب2 ماہ بعد دیا گیا۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس موصول ہوا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس محمد علی قانون پرعملدرآمدری کی بات کر رہے ہیں۔
پروسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر کے دلائل
پروسیکویرٹرجنرل نیب اصغرحیدر روسٹرم پر آئے اور مؤقف پیش کیا کہ عدالیہ کا بہت احترام کرتے ہیں، مجھے تمام حقائق معلوم نہیں، وقت دیا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی الزامات لگتے ہیں، کیا نیب نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے اجازت لی تھی۔
پروسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ وارنٹ کی تعمیل کیلئےوزارت داخلہ کوخط لکھاتھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وارنٹ گرفتاری پر کس نے عملدرآمد کرایا۔ جس پر پرسیکیوٹر جنرل نے جواب دیا کہ وارنٹ پرعملدرآمد کوئی بھی کراسکتا ہے، نیب خودبھی اپنے وارنٹس پرعملدرآمد کرتا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب نے وزارت داخلہ کو کہا اور وہ دوسرے دن آرہا تھا، درخواست گزار کو کس فورس نے گرفتارکیا۔
نیب وکیل نے جواب دیا کہ ہائیکورٹ میں آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے گرفتارکیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ گرفتار کس فورس نے کیا۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے آرڈر پر گرفتاری پولیس کی نگرانی میں کی گئی۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ پولیس نے رینجرزکی مدد سے عمران خان کو گرفتاری کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے کہ وزارت داخلہ نے رینجرز کو پولیس کی مدد کیلئے بلایا، وہاں گرفتارکرنے کے لئے کتںے لوگ آئے تھے۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ رینجرز اور پولیس تحفظ کیلئے موجود ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر نیب وارنٹ کی تعمیل کے معاملے پر الگ کر رہی ہے، نیب نے وارنٹ کی تعمیل کیلئے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں لکھا۔
چسٹس اطہرمن اللہ نے ایک بار پھر ریمارکس دیئے کہ نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔
سردار مظفر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ دیکھیں، وہ ماضی میں مزاحمت کرتے رہے ہیں، نیب کو جانوں کے ضیاع کا بھی خدشہ تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب کا کوئی افسرگرفتاری کے وقت موجود تھا۔ لیکن نیب افسران تفتیشی افسرکی موجودگی کاجواب نہ دے سکے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے رجسٹرار آفس سے گرفتاری کی اجازت لی تھی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے تھے۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان کو کہیں اور سے گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا عمران خان نے گرفتاری دینے سے مزاحمت کی، یہ تو واضح ہو گیا کہ گرفتاری کی اجازت نہیں لی گئی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انصاف تک رسائی کےحق پراٹارنی جنرل کوسنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب جو کر رہا ہےعمران خان کو معمول بن چکا ہے، نیب ایک آزاد ادارہ ہے، نیب نے رینجرز تعینات کرنے کے لئے 8 مئی کو کو تحریری درخوست کی تھی۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائے گی، آزاد عدلیہ کا مطلب شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف دیا کہ ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل کو جوابی ریمارکس دیئے کہ آپ کیلئے دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے، دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک ہوا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ حالیہ گرفتاری سے ہر شہری متاثر ہورہا ہے، عدالت سے گرفتاری بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، وارنٹ گرفتاری کی قانون حثیت پررائے نہیں دینا چاہتے، کیا مناسب نہیں ہوگا کہ عوام کا عدلیہ پراعتماد بحال کیا جائے، کیا مناسب نہیں ہوگا عمران خان کی درخواست ضمانت پرعدالت فیصلہ کرے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں بہت کچھ ہوچکا ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو، گرفتاری کو وہیں سے ریسورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ساڑھے چار بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آج ہی حکم جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی سیاسی رہنما اورکارکن عدالت نہیں آئےگا، صحافیوں اور وکلاء کوعدالت آنے کی اجازت ہے، سرکاری اورعوامی املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عمران خان کی پیشی پر کوئی شہری عدالت میں نہ ہو، عدالت معاملے پربہت سنجیدہ ہے، عدالت آج مناسب حکم جاری کرے گی۔
آئی جی اسلام آباد عمران خان کو لے کر سپریم کورٹ روانہ
سپریم کورٹ کے حکم پر آئی جی اسلام آباد عمران خان کو لینے پولیس لائنز پہنچے، جہاں انہوں نے سینئر پولیس افسران کا اجلاس طلب کیا، اجلاس کے بعد آئی جی اسلام آباد عمران خان کو پولیس لائنز کے عقبی دروازے سے لے کر سخت سیکیورٹی میں سپریم کورٹ روانہ ہوئے۔
عمران خان کو رینجرز اور سیکیورٹی ڈویژن کے اہلکاروں کے سخت حصار میں سپریم کورٹ لایا جارہا ہے، اس موقع پر سپریم کورٹ میں عام سائلین کا داخلہ بند کر دیا گیا، جب کہ عدالت عظمیٰ کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے۔ عمران خان کی سپریم کورٹ پیشی سے قبل آرمی ٹیم نے فلیگ مارچ کیا۔
عمران خان کو تقریباً ایک گھنٹہ 12 منٹ تاخیر کے ساتھ کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست
گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے عمران خان کی درخواست پر اعتراضات عائد کرتے ہوئے واپس کردی تھی۔
رجسٹرار آفس نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عمران خان ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 9 مائی کو نیب نے سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری
عمران خان عسکری اداروں کے بیان بازی سمیت دیگر کیسز میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تھے جہاں ہائیکورٹ میں رینجرز کی بھاری نفری نے عمران خان کو حراست میں لیا۔
Comments are closed on this story.