عمران خان سے پہلے پاکستان کے کِن سابق وزرائے اعظم کو گرفتار کیا گیا
پاکستان کے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو رینجرز نے گزشتہ روز دوپہر 2 بجے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں موجود دفترسے اس وقت گرفتار کیا جب وہ کمرے میں بیٹھے اپنا بائیو میٹرک کروا رہے تھے۔ نیب نے سابق وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزام میں القادرٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا ہے۔
کرکٹر سے سیاست داں بننے کا سفرطے کرنے والے 70 سالہ عمران خان کا شمار پاکستان کے مقبول ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے، گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار راولپنڈی میں واقع پاک فوج کے ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) اور لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس میں بھی گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ شدید ردعمل کے بعد وزارت داخلہ کی ہدایت پرپی ٹی اے نے ملک کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی۔
پی ٹی آئی نے عمران خان کی گرفتاری کو ’اغوا‘ قرار دیتے ہوئے اس کا الزام رینجرز پرعائد کیا۔
عمران خان 2022 سے تنازعات کی زد میں ہیں جب اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
یہ محاذ آرائی اور عمران خان کی برطرفی پاکستان کی سیاست میں بھونچال لےآئی اور اپنی حکومت جانے کا ذمہ دار پہلے امریکا اور پھر پاک فوج کی سیاسی مداخلت کو ٹھہراتے ہوئے پی ٹی آئی نے اس بیانیے کو خوب استعمال کیا۔
عمران خان وہ پہلے سابق وزیراعظم نہیں ہیں جنہیں گرفتار کیا گیا ، ان سے قبل بھی پاکستان کے کئی سابق وزرائے اعظم کو حراست میں لیا گیا جن پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
حسین شہید سہروردی
پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو جنوری 1962 میں گرفتار کیا گیا۔
حسین شہید سہروردی نے جنرل ایوب خان کی حکومت پر قبضے کی حمایت کرنے سے انکارکردیا تھا۔ ان پر سیاست کی پابندی عائد کرتے ہوئے پاکستان کے الیکٹو باڈیزڈس کوالیفیکیشن آرڈر (ای بی ڈی او) کی خلاف ورزی کا ذمہ دارٹھہرایا گیا تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت ملک کے پہلے فوجی سربراہ ایوب خان نے اسمبلی کے 70 سے زائد منتخب نمائندوں کو نااہل قرار دیا۔ آرڈیننس 1966 میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔
حسین سہروردی کو 1952 کے سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔
ذوالفقارعلی بھٹو
پاکستان کے نویں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو ستمبر 1977 میں گرفتارکیا گیا تھا۔
بھٹو اگست 1973 سے جولائی 1977 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ انہیں 1974 میں سیاسی حریف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی گرفتاری قابل قبول بنیادوں پر نہیں کی گئی تھی۔ تاہم بھٹو کو تین دن بعد ملک کے مارشل لاءریگولیشن کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
اس قانون کے تحت پاکستانی افواج کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ایسے شخص کو پکڑ سکتی ہیں جو پاکستان کی سلامتی، امن و امان کے خلاف کام کررہا ہو یا مارشل لاء کے ہموار آپریشن کے لیے خطرہ بن رہا ہو۔ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں مارشل لاء کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ذوالفقاربھٹو کو سزائے موت سنائی گئی اور اپریل 1979 میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔
بے نظیربھٹو
دسمبر 1988 سے اگست 1990 اور اکتوبر 1993 اور نومبر 1996 کے درمیان دو مرتبہ پاکستان کی گیارہویں اور تیرہویں وزیر اعظم رہنے والی بینظیر بھٹو کو اگست 1985 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بینظیرپاکستان میں ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں قائد حزب اختلاف تھیں۔ 1985 میں جب وہ اپنے بھائی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں تو انہیں 90 دن کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔مقامی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق، انہیں کراچی میں ”نعرے لگانے، سیاسی اجتماع کرنے اور مبینہ طور پر حساس علاقوں کا دورہ کرنے کے ارادے“ کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اگست 1986 میں بھٹو کو پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر ایک عوامی ریلی میں حکومت کی مذمت کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اپریل 1999 میں بینظیر بھٹو کو کسٹم فراڈ چھپانے کے لیے ایک بین الاقوامی ادارے سے رشوت لینے کے الزام میں 5 سال قید کی سزا سناتے ہوئے عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اعلیٰ عدالت نے گرفتاری کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے اکتوبر 1999 میں ان کے خلاف دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے جس کی وجہ اثاثہ جات ریفرنس کیس میں عدالت میں پیش نہ ہونا تھا۔
بینظیربھٹو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش دھماکے میں شہید کردی گئی تھیں۔
نواز شریف
مارچ 1997 میں تین چوتھائی کی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے دوسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے نواز شریف کی حکومت کا تختہ اکتوبر 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے الٹ کر ملک کی سربراہی سنھال لی۔
اس کے بعد نواز شریف پرمختلف نوعیت کے مقدمات چلائے گئے اورانہیں جیل جانا پڑا۔ایک ڈیل کے بعد نواز شریف نے سزا معطل ہونے کے بعد سعودی عرب میں جلا وطنی اختیارکی
جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے نوازشریف کو متحدہ عرب امارات میں کام کرنے کا اقامہ ظاہر نہ کرنے پر صادق اور امین نہ ٹھہراتے ہوئے اسمبلی سے نااہل قراردیا۔
فیصلے میں مزید تین ریفرنسز کی تحقیقات کا بھی کہا گیا ۔ احتساب عدالت میں ستمبر 2017 میں شروع ہونے والی کاروائی کا سلسلہ تقریباً 10ماہ تک جاری رہا اور جولائی 2018 میں بھی ایک بار پھرعدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا اورکرپشن کے الزامات کی بنا انھیں 10 سال قید بامشقت اور8 ملین پاؤنڈ کے جرمانے کی سزا سنائی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد 13 جولائی کومریم نواز کے ہمراہ وطن واپس لوٹنے پرنواز شریف کوائرپورٹ سے ہی حراست میں لے کر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔
شاہد خاقان عباسی
اگست 2017 سے مئی 2018 تک پاکستان کے 21ویں وزیراعظم کے عہدے پر فائر رہنے والے شاہد خاقان عباسی کو جولائی 2019 میں گرفتار کیا گیا۔
شاہد خاقان عباسی کو قومی احتساب بیورو (نیب ) کی 12 رکنی ٹیم نے اربوں روپے کی بدعنوانی کے ایک کیس میں مبینہ ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا، یہ گرفتاری 2013 میں ایل این جی معاہدہ کے سلسلے میں کی گئی تھی جب وہ پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر تھے۔
ضمانت پر رہائی کے شاہد خاقان عباسی فروری 2020 میں اڈیالہ جیل سے باہر آگئے۔
نومبر 2019 میں انہیں علاج کی غرض سے باہرجانے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کے بعد سے وہ پاکستان واپس نہیں آئے۔
شہباز وزیراعظم
پاکستان مسلم لیگ کے موجودہ صدر میاں محمد شہبازشریف فی الوقت پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہیں۔
شہباز شریف کو 28 ستمبر 2020 میں منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد نیب کی ٹیم نے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ شہباز شریف تقریباً 7 ماہ تک کوٹ لکھپت جیل میں رہے۔
Comments are closed on this story.