انٹیلی جنس ایجنسیاں ججز کی تعیناتی کیسے کنٹرول کرسکتی ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات نہ کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی کمیٹی کا جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کومسترد سے متعلق قانونی حیثیت میں جاٸزہ لیں گے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طارق آفریدی کو پشاورہاٸیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات نہ کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزارکے وکیل حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ جوڈیشل کمیشن نے طارق آفریدی کو پشاور ہاٸیکورٹ کا ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی سفارش کی لیکن ججز تقرر بارے پارلیمانی کمیٹی نے نامزدگی انٹیلی جنس ایجنسیز کی رپورٹ پر مسترد کی، انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق طارق آفریدی کی ساکھ اچھی نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز ججز کی تعیناتی کو کیسے کنٹرول کرسکتے ہیں، پارلیمانی کمیٹی نے پیشہ وارانہ صلاحیت کی بجائے انٹیلی جنس رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کیا، اس عمل سے عدلیہ کہ آزادی پر اثر پڑے گا،
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ عدالت معاملے کی قانونی حیثیت کا جاٸزہ لے گی، کیا پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کے لیے بلا لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آٸندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کوعدالتی معاونت کے لیے طلب کرتے ہوے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.