سوشل میڈیا پر وائرل تالا لگی قبر کی حقیقت منظرعام پر
گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک مقفل قبر کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں، جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ قبر کسی خاتون کی ہے اور گھر والوں نے متوفی کے جسد کو ریپ ہونے سے بچانے کیلئے قبر پر دروازہ لگایا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قبر کو ایک بھاری دروازے اور بڑے تالے سے محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جبکہ بھارتی میڈیا نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے نیکروفیلیا کے حوالے سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
نیکروفیلیا کیا ہے؟
نیکرو فیلیا (Necrophilia) دراصل ایک مکروہ نفسیاتی اور ذہنی عارضہ ہے، جس میں مبتلا شخص لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے لذت حاصل کرتا ہے۔
لفظ نیکروفیلیا یونانی زبان سے ماخوذ ہے، جس میں ”نیکرو“ کا مطلب مردہ جسم اور ”فیلیا“ کا مطلب محبت ہے۔ اس طرح، یونانی میں، نیکروفیلیا کا مطلب ہے مردہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات میں خوشی حاصل کرنا۔
تاہم اب اس مقفل قبر کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔
اس طرح کی افواہوں اور فرضی خبروں کی جانچ کرنے والے بھارتی خبر رساں ادارے ”آلٹ نیوز“ کے شریک بانی محمد زبیر کہتے ہیں کہ ان کی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ یہ خبر غلط ہے جس کو مختلف میڈیا اداروں نے شائع کیا ہے۔
ان کے مطابق خبر رساں ایجنسیوں اور نیوز پورٹلز نے اطلاع دی تھی کہ پاکستانی والدین عصمت دری سے بچنے کے لیے اپنی بیٹیوں کی قبروں پر تالے لگا رہے ہیں۔
ٹوئٹر تھریڈ میں انہوں نے بتایا کہ یہ مضامین ایک مرتد حارث سلطان کی ایک ٹویٹ پر مبنی ہیں، جو ایک کتاب ”دی کرس آف گاڈ، میں نے اسلام کیوں چھوڑا“ کے مصنف ہیں۔
محمد زبیر نے یہ بھی بتایا کہ یہ قبر بھارت میں واقع ہے اور قبرستان دراب جنگ کالونی مدنا پیٹ حیدرآباد تلنگانہ میں واقع مسجدِ سالار ملک کے سامنے واقع ہے۔
محمد زبیر کے مطابق آلٹ نیوز نے عبدالجلیل نامی ایک سماجی کارکن سے رابطہ کیا جو حیدرآباد کے رہنے والے ہیں۔ ہمارے کہنے پر انہوں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور ہمیں زیر بحث قبر کی تصاویر فراہم کیں۔
’جلیل نے مسجد کے مؤذن مختار صاحب سے بات کی۔ جناب مختار نے کہا کہ مقفل قبر جو کہ تقریباً ڈیڑھ سے دو سال پرانی تھی داخلی دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے اس طرح راستہ بند ہو رہا ہے۔‘
مختار صاحب کے مطابق ’آٹھ دن تک مسجد کمیٹی کے ارکان کے درمیان یہ مسئلہ زیر بحث رہا۔‘
قبر پرگرل لگانے کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ، ’بہت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور بغیر اجازت پرانی قبروں میں لاشوں کو دفن کردیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کے پیارے پہلے سے ہی یہاں آرام کررہے ہیں انہیں شکایت ہے، وہ یہاں فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔ دوسروں کو کسی بھی لاش کی تدفین سے روکنے کے لیے اہل خانہ نے وہاں گرل لگا دی ہے۔‘
قبر کی تصویر پاکستان کی ہونے کے دعوے پر مختار صاحب نے اس کی تردید کی اور مزید کہا کہ یہ گرل بھی اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی کہ لوگ قبر پر چہل قدمی نہ کریں کیونکہ یہ قبرستان کے داخلی راستے کے بالکل سامنے ہے۔
محمد زبیر نے بتایا کہ ’آلٹ نیوز نے ایک مقامی رہائشی سے بھی بات کی جس کا گھر مسجد کے قریب ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ قبر ایک بوڑھی عورت کی ہے جو ستر کی دہائی میں فوت ہو چکی تھی۔ اس کے بیٹے نے اسے تدفین کے تقریباً 40 دن بعد قبر پر گرل لگوائی تھی۔‘
بعض سوشل میڈیا صارفین نے قبروں کو مقفل کرنے کے اس عمل کو مردے پر کالا جادو وغیرہ کیے جانے سے روکنے کا پرانا طریقہ بتایا ہے۔
پاکستان میں نیکروفیلیا کا وجود ہے؟
ایسا نہیں کہ پاکستان میں نیکروفیلیا بالکل بھی نہیں، پاکستان میں بھی کئی مواقع پر خواتین کی لاشیں نکالی گئیں اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔
نیکروفیلیا کیس کی سب سے خوفناک مثال پاکستان میں 2011 میں سامنے آئی جب کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان نامی ایک گورکن کو 48 خواتین کی لاشوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
تقریباً ایک سال قبل مئی 2022 میں، پاکستان کے شہر گجرات کے گاؤں چک کملا میں کچھ نامعلوم افراد نے ایک نوعمر لڑکی کی لاش کو کھود کر اس کا ریپ کیا۔ یہ واقعہ اسی رات پیش آیا جس رات اہل خانہ نے میت کی تدفین کی تھی۔
2021 میں ساحلی شہر غلام اللہ کے قریب مولوی اشرف چانڈیو گاؤں میں کچھ نامعلوم افراد نے ایسی ہی وحشیانہ حرکت کی تھی۔
2020 میں، ایک شخص کو پنجاب میں ایک قبرستان میں ایک عورت کی لاش کے ساتھ ریپ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔
ایک اور کیس 2019 میں سامنے آیا، جب کراچی کے علاقے لانڈھی ٹاؤن میں نامعلوم افراد کی جانب سے مبینہ طور پر ایک خاتون کی لاش کو تدفین کے بایک روز بعد کھود کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ہولناک واقعہ سنہ 2013 میں سامنے آیا تھا، جب گوجرانوالہ میں ایک 15 سالہ لڑکی کی لاش اس کی قبر کے باہر پڑی ملی تھی، اور مبینہ طور پر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ مبینہ طور پر معاملہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔
پکی قبروں کا مقصد
حالانکہ اسلام میں پکی قبریں بنانے سے منع کیا گیا ہے اس کے باوجود لوگ اپنے مرحومین کیلئے ماربل اور دیدہ زیب ڈیزائن والی قبروں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے قبروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور لوگ ایک طرح سے پکی قبر بنا کر اسے مستقبل کیلئے محفوظ کر لیتے ہیں۔
لیکن ایسا کرنے سے قبرستانوں میں مزید تدفین کی گنجائش اب تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
اسی وجہ سے گورکنوں کی بھی چاندی ہوئی ہے، جو منہ مانگی قیمت وصول کرکے قبر فراہم کرتے ہیں۔
گورکنوں کو جگہ کہاں سے ملتی ہے، یہ بھی ایک الگ گورکھ دھندا ہے۔
گورکن ایسی قبروں پر نظر رکھتے ہیں جن کے لواحقین عرصہ دراز سے فاتحہ خوانی یا قبر کا احوال دیکھنے نہیں آئے۔
اس کیلئے قبر کے مختلف حصوں کو توڑا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ آیا کوئی اس پر اعتراض اٹھاتا ہے یا نہیں، اگر کوئی اس پر اعتراض کرنے والا سامنے آجائے تو اس سے قبر کی رکھوالی کی مد میں ماہانہ فیس باندھ لی جاتی ہے کہ پانی بھی ڈالا جائے گا اور قبضے کی صورت میں آگاہ بھی کیا جائے گا۔ یہ فیس 300 سے 500 روپے ماہانہ تک ہوتی ہے۔
اگر کوئی معترض سامنے نہیں آتا وہ قبر منہ مانگے داموں کسی اور کو دوبارہ بنا کے دے دی جاتی ہے اور میں موجود مردے کو دوسری قبر میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.