مفاد عامہ کے علاوہ از خود نوٹس بن ہی نہیں سکتا، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مفاد عامہ کے علاوہ از خود نوٹس بن سکتا ہے اور نہ آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں کوٹ لکھپت اور جیل اسپتال کا دورہ کرکے قیدیوں کے مسائل سنے اور ان میں تحائف تقسیم کیئے۔
کوٹ لکھپت جیل کے دورے پر شہباز شریف کو جیل کے انتظامات پر بریفنگ دی گئی جب کہ اس موقع پر وزیراعظم کو جیل میں بیتے لمحات بھی یاد آگئے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب میں کوٹ لکھپت جیل میں تھا تو بہت برا حال تھا، جیل میں پہلی بار 10 دن اور دوسرے بار 6 ماہ رہا، میں نے اپنی قید کے دوران جیل میں ایک پیاسا کوا دیکھا۔
وزیراعظم نے قیدیوں کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں، خاتون قیدیوں نے وزیراعظم کو اپنی فریاد سنائی جس پر شہباز شریف نے انظامیہ کو قیدیوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایت کردی۔
قیدیوں سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قیدی اچھے پاکستان بن کر گھروں میں جائیں، اپنے علاقوں میں جو خدمت کر سکتے ہیں کریں، مجھے معلوم ہے جیل میں کیا صورتحال ہوتی ہے، میں بھی قیدی رہا ہوں، مجھے اس کا بہت احساس ہے۔
سینٹرل جیل کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم نے کہا کہ ہزاروں قیدی ضمانتوں کے پیسے نہ ہونے پر کئی کئی سال قید ہیں، کسی نے 30 اور کسی نے 35 سال سزا کاٹ لی، ان لوگوں کو نہ کوئی پوچھنے والا ہے، نہ ان کی کوئی رسائی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے اتنے ازخود نوٹس لیے، کیا کبھی قیدیوں کے حوالےسے کوئی نوٹس لیا؟ ہزاروں قیدی ایسے ہیں جن کی فوری رہائی ہو سکتی ہے لیکن اس حوالے سے عدالتوں نے کتنا کام کیا؟ از خود نوٹس انہی کاموں کے لیے ہے، البتہ مفاد عامہ کے علاوہ از خود نوٹس بن سکتا ہے اور نہ آئین و قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لاہور کی دونوں جیلوں میں 8 ہزار جب کہ ملک بھر کی جیلوں میں لاکھوں قیدی موجود ہیں جن کی کھانے پینے، علاج معالجے اور صاف بیت الخلاء جیسی بنیادی ضروریات پر توجہ دینی چاہئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جیلوں میں علاج و معالجے کی بہترین فراہمی ترجیح ہے، لہٰذا قیدیوں کے لئے مخصوص اسپتال کے قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے، جیل میں قیدی مریضوں کو ادویات کی آسان دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔
Comments are closed on this story.