انتخابات کیس : 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کا اجلاس، 27 کو عدالت میں رپورٹ طلب
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عام انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، لیکن سیاسی قائدین عید منانے کیلئے روانہ ہوگئے، جس پر عدالت نے 27 اپریل تک سماعت ملتوی کردی۔
پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے کی ہدایت کردی ہے، اور حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
پنجاب میں انتخابات روکنے کے لئے وزارت دفاع کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کا تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، بینچ کے دیگر2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: فیصلے سے واپسی ناممکن، حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے، سپریم کورٹ
آج سماعت کے آٖغاز پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے علاوہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: دومراحل میں الیکشن کروانے سے انارکی پھیلے گی، الیکشن کمیشن کی رپورٹ
چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کرنے کے بعد سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مکالمہ کیا کہ “آپ نے نیک کام (مذاکرات) کو شروع کیا اللہ کامیاب کرے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی’۔
مزید پڑھیں: انتخابات فنڈز : الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک نے رپورٹس جمع کرادیں
چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویزکی حمایت کرتے ہیں۔ جس پر وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتی ہے، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، سپریم کورٹ جو بھی حکم کرے قبول ہوگا۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان کی درخواست پر چیف جسٹس نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کیا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر وزارت دفاع کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ بیشترسیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہیں، مناسب ہوگا، عدالت تمام قائدین کو سن لے۔ جمہوریت کی مضبوطی الیکشن ایک دن ہوناضروری ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کی تشریف آوری پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے۔ قوم میں اضطراب ہے اس لیے سیاسی قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام وتفہیم سےمسئلہ حل کریں توبرکت ہوگی۔
چیف جسٹس نے وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز دی جانے والی بریفنگ کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج 29 رمضان ہے، ہمیں ایک بریفنگ دی گئی تھی۔ درخواست گزار بھی ایک ہی دن میں الیکشن چاہتے ہیں، ایک ہی دن کی بات اٹارنی جنرل نے کی تھی لیکن وہ بات ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ نےاس عمل کی حمایت کا اظہارکیا اور فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں۔ ہم آصف زرداری کےمشکورہیں، انھوں نے تجویزسےاتفاق کیا۔ ن لیگ نے بھی تجویزسے متعلق بات کی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات سےاتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو، ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق
اس کے بعد رہنما ن لیگ خواجہ سعد رفیق نے روسٹرم پرآکرکہا کہ میری قیادت کےمشورے سے عدالت کے سامنے آئے ہیں،ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہیے۔ سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے چاہئیں، ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔
لیگی رہنما نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہیں، ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاس بلایا ہے۔ ہم جومیڈیا پربات کرتے ہیں اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
سعد رفیق کے بعد ایازصادق بی این پی مینگل کی نمائندگی کیلئے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اکٹھے اچھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، قیادت دبئی میں ہے اور ہم ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرت ہوں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ
پی پی رہنما قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ کوشش تھی اس ہیجان کوختم کیا جائے، پہلے ہم نے اپنی پارٹی اور پھراتحادیوں سےمشاورت کی۔ جب جب تلخیاں بڑھیں،اس کے نقصانات نکلے اور مسئلہ پھر بھی مذکرات سے حل ہوا۔ ہم نے اس عمل کا آغازپہلے سے شروع کیا ہے اور گزشتہ حکومت میں بھی قومی اشوزپر ساتھ چلے۔
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ
مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا، ہمارا مؤقف ہے کہ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہئے، ایک روز انتخابات بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا، ایک دن انتخابات کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے، اگر سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں گی تو پھر سب کیلئے بہتر ہوگا۔
ایم کیو ایم کا مؤقف
ایم کیوایم کے رہنما صابر قائم خانی نے کہا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالاجائے، ملک میں انتخابات ایک دن ہوں تو بہتر ہوگا۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی
پی ٹی آٸی رہنما شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آٸے اور عدالت کو پارٹی مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں، آئین کا تابع ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق فیصلہ دیا، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، آئینی اور جمہوری رستہ انتخابات ہی ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں۔
شاہ محمود نے مزید کہا کہ ن لیگ نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کردیں، ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی، اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے، عدالت نے زمینی حقائق کےمطابق 14مئی کی تاریخ دی، مذاکرات توکئی ماہ اورسال چل سکتے ہیں، کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیربحث ہیں، حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے، اعتماد کا فقدان ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیزنہیں کئے گئے، پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہوسکتی، مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے، انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار۔
رہنما ن لیگ خواجہ سعد رفیق
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آ ئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے توسوال جواب کریں گے، عدلیہ اور ملک کیلئے جیلیں کاٹیں اور ماریں کھائی ہیں، آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔
رہنما پیپلزپارٹی قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں ہونا چاہئے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے، مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے، آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنےکھڑے ہیں، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید روسٹرم پر آئے اور کہا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے، عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا، یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عیدیں اکٹھی ہو جائیں، سیاستدان مذاکرات کی مخالفت نہیں ہوتے، لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں، ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔
امیرجماعت اسلامی سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق روسٹرم پرآئے اور کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں، کل پاک افغان بارڈر پر تھا، رات سفر کرکےعدالت پہنچا ہوں، تلاوت قرآن پاک سے کارروائی آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہو جائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں، اللہ کا حکم ہے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کئےگئے تو احتجاج شروع ہوگیا، اس وقت بھی سعودی اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لڑائی پر مارشل لاء لگا، آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے، لیکن آج امریکا، ایران اور سعودیہ پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے، سیاستدانوں نے خود اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد آخر مذاکرات کئے گئے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا، خیبرپختونخوامیں کسی نے استعفا دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے، خیبرپختونخوا نے خلاف روایت دوسری بار بھی پی ٹی آئی کوووٹ دیا، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایم کے ساتھ، دونوں سیاسی جماعتوں سے اخلاص کےساتھ بات کی۔
امیر جماعت اسلامی نے بڑی عید کے بعد انتخابات کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ کہنے پر بات تو نہیں کی، میں تو چاہتا ہوں کہ سب اداروں کو آزاد رہنا ہوگا، اس مسئلے کا حل ہے سب اپنی ریڈ لائن سے پیچھے ہٹ جائیں۔
تمام جماعتوں کا مؤقف سننے کے بعد عدالت کا مذاکرات کا حکم
بینچ نے تمام جماعتوں کا مؤقف سننے کے بعد سیاسی جماعتوں کوآج ہی مذاکرات کی ہدایت کردی، اور سماعت میں 4 بجے تک وقفہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یئے کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970اور71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مذاکرات کی کوشش کی ہے، پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی،عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی، یادرکھنا چاہئےکہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج ہی بیٹھیں، بڑی عید جولائی میں ہوگی، اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
بنچ ممبر کراچی روانہ
سپریم کورٹ میں انتخابات ایک دن کرانے کے مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے ممبر جسٹس منیب اختر کراچی روانہ ہوگئے۔
جسٹس منیب اختر کی چار بجے فلائیٹ شیڈول تھی۔
اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک کی چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات
دوسری جانب اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی، دوران ملاقات چیف جسٹس کے چیمبر میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ نے ملک بھر میں انتخابات ایک دن کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور حکومت سے مذاکرات پر پیشرفت رپورٹ 27 اپریل کو طلب کرلی۔
ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کیلئے دائر درخواست سمیت پنجاب اور کے پی میں انتخابات کیلئے فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق سماعت کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ عدالتی سماعت میں وقفے کے دوران فاروق نائیک اور اٹارنی جنرل نے ججز سے چیمبر میں ملاقات کی اور ججز کو بتایا گیا کہ سیاسی قائدین عید منانے کیلئے جاچکے ہیں۔
حکم نامے کے مطابق عدالت کو تحریک انصاف کے سینٸر رہنما سے ابتدائی رابطے سے بھی آگاہ کیا گیا جبکہ یہ بھی بتایا گیا کہ حکومتی اتحاد کا پارٹی سربراہ اجلاس26 اپریل کو ہوگا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے ایک ساتھ انتخابات پر مثبت گفتگو کی، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر اس عزم کو دہرایا کہ آئین سپریم ہے۔ اگر سیاستدانوں کے مابین تمام اختلافات پر مذاکراتی عمل شروع ہوا ہے تو اس پر کافی وقت خرچ ہونے کا امکان ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ سیاستدانوں کے آپس کے تمام اختلافات پر مذاکرات کا اصل فورم سیاسی ادارے ہیں۔ عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے۔ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے۔ تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا، اور 27 اپریل تک پیشرفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ روز کی سماعت میں سپریم کورٹ کا حکم
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کے بعد تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندوں کے ذریعے کیس کا حصہ بننے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کی حامی ہیں اورانتخابات کی تاریخ پر مل بیٹھ کر اتفاق رائے ممکن ہے۔
گزشتہ روزسماعت میں الیکشن کمیشن کو فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ کو بھی ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک پنجاب میں انتخابات کے لئے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک نکتے پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14 مئی کا حکم دے چکے ہیں۔
سردار کاشف کی درخواست
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔عدالت نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم شہبازشریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سابق صدر آصف زرداری ،سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، خالد مقبول صدیقی، اسفندیار ولی، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو آج طلب کررکھا ہے۔
Comments are closed on this story.