الیکشن تاریخ پر مذاکرات کے بیچ میں عمران خان کی خود شمولیت کا امکان
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف کا مذاکرات کے حوالے سے کہنا ہے کہ کیا ہم بات چیت کے لیے بااختیار ہیں؟ بااختیار وہی ہیں جو جن کے پاس اختیار ہے۔ زندگی کے دس قیمتی سال نواز شریف کو باہر رکھا گیا، کبھی کوئی قیدی آزادی سے کوئی معاہدہ کرتا ہے؟
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ ’کیا ہم بااختیار ہیں؟‘ جس پر میزبان عاصمہ جہانگیر نے پوچھا کہ تو پھر کون بااختیار ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ’جو ہوتے ہیں‘۔ عاصمہ نے لقمہ دیا کہ وہ تو کہتے ہیں ہم نیوٹرل ہیں۔
جاوید لطیف نے کہا کہ آج کے وزیر قانون سے آپ سن لیں کہ وہ کہتے ہیں دو جونئیر ججز کو عسکری قیاقدت نے میری حکومت سے منوایا اور پھر میں نے ووٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے تو آج بھی اسمبلی میں یہ بات کہی کہ اب کیسی پردہ داری، کھل کر کہیں یہ دو ججز ہیں جن کیلئے ڈیمانڈ تھی، خواہش تھی، ضرورت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میں کہوں 2014 کا دھرنا دلوایا گیا تھا اور اس کے پیچھے تھرڈ امپائر تھا جس کو یہ پکارتے تھے۔
جاوید لطیف نے کہا کہ پھر کہا جاتا ہے آپ بے بس تھے تو حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ 2014 میں ہم نے پاکستان کے اندر سے اندھیرے کو دور کیا، سی پیک دیا، پاکستان میں امن لے کر آئے، دہشتگردی کے خلاف آپریشن کیا بے سرو سامانی کے عالم میں اور بے اختیار ہوتے ہوئے، تو آج لوگ موازنہ کرتے ہیں کہ بے اختیار ہونے کے باوجود بھی انہوں نے کچھ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں، میں نے یہ کہا ہے کہ 2002، 2008 اور 2018 کی طرح 2023 میں بھی میری قیادت کو آپ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی انتخاب سے باہر رکھیں، 2015 اور 2017 کے تمام کردار بے نقاب ہوچکے ہیں وہ اقرار جرم کرچکے ہیں کہ ہم نواز شریف کو بے گناہ سزا دینے والوں میں سے ہیں یا دلوانے والوں میں سے ہیں۔ چاہے وہ عمران خان ہوں، جنرل باجوہ ہوں، فیض ہوں، سعید کھوسہ ہوں یا ثاقب نثار، یہ اپنی نجی محفلوں میں بھی بات کرتے ہیں اور محفلوں میں بھی۔ مگر کون پوچھے گا، ازکود نوٹس کون لے ، فل کورٹ کون بنائے گا؟
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے جاوید لطیف کی باتوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ غلطیاں سب طرف سے ہوئی ہیں، یہ لوگ گلہ کرتے ہیں ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے، حالانکہ اس ملک میں چار بار ان کی جماعت کو حکومت دی گئی ہے، اس بار سال یہ گزار چکے ہیں اور ایسے بھولے بن رہے ہیں جیسے کل یہ حکومت میں بیٹھے ہیں۔ جن چیزوں کا آپ شکار رہے آپ نے خود وہی کیا۔
علی محمد خان نے کہا کہ وقت آگیا ہے اب ہم لوگ انسانوں کی طرح بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں، آئین تو ٹوٹ گیا ہے، ایسا نہیں کی تمام شقیں ٹوٹیں گی تو آئیں ٹوٹے گا، جب آپ نے آئین کی ایک بہت بڑی رکوائرمنٹ توڑ دی تو آپ نے آئین توڑ دیا۔
انہوں نے کہا کہ جو ہوا سو ہوا، اب یہ ایک موقع ہے، بیٹھ کر ایک تاریخ پر آئیں۔
انہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی رات کا حوالہ دیتے ہوئے جاوید لطیف کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہ جو پرزن وین اس رات آئی تھی، یہ صرف اسد قیصر کی بے عزتی نہیں تھی یہ اسپیکر نیشنل اسمبلی کی بے عزتی تھی، اور وہ اسپیکر جتنا ہمارا تھا اتنا آپ کا بھی تھا۔
جس پر جاوید لطیف نے کہا کہ عمران خان خود کہا کرتے تھے کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں، پھر یہ حکومت سے نکلنے کے بعد فرمایا کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس ادارے اور دفاعی ادارے ارکان کو اکھٹا کر کے ہمارے بل پاس کراوایا کرتے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں علی محمد خان کا کہنا تھا کہ مذاکرات شروع ہوجائیں تو عمران خان کی اس میں خود شمولیت کا شاید امکان ہو، سب کو بیٹھنا چاہئیے اور عمران خان بھی بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سراج الحق نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا ہوگا، اور وہ جو بات کر رہے ہیں اس وزن کے ساتھ کر رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.