سندھ کے نوجوان نے مصنوعی ذہانت سے ’موت کے ٹیلے‘ کو زندہ کردیا
دنیا کی سب سے جدید اور قدیم تہذیب کے گھر سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک فوٹو گرافر نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کی مدد سے ”موت کے ٹیلے“ کو ذندہ کردیا۔
موئن جو دڑو 2500سے 1500 قبل مسیح میں آباد تھا، لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ خالی چھوڑ دیا گیا، پھر 1921 میں اس کی دوبارہ دریافت ہوئی، قدیم وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے بڑی بستی اور دنیا کے ابتدائی بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
فوٹو گرافر رحمت اللہ میر بحر نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے دکھا دیا کہ موئن جو دڑو کی زندگی ہزاروں سال قبل کیسی تھی۔
انہوں نے قدیم شہر اور وہاں کے باسیوں کی رنگین تصاویر تخلیق کی ہیں۔
تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موئن جو داڑو کے باسی رنگین کپڑے اور خوبصورت زیور زیب تن کرتے تھے۔
ان کی رنگت سانولی لیکن انتہائی پُروقار اور پُرکشش دکھائی گئی ہے۔
مکلی جو کہ موئن جودڑو سائٹ سے زیادہ دور نہیں ہے، میں واقع اپنے دفتر کی عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کمپیوٹر پر بیٹھے رحمت اللہ میربحر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ”جب میں نے پہلی بار یہ تصاویر بنائی تھیں تو میں نے انہیں اپ لوڈ نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے نہیں لگتا تھا کہ لوگ انہیں پسند کریں گے، لیکن پھر میں نے انہیں اپ لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ کیسے وائرل ہوئے۔“
مکلی میں بھی ایک قدیم قبرستان ہے جس میں نصف ملین مقبرے اور قبریں ہیں، یہ دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شامل ہے۔
اے آئی سافٹ وئیر کی مدد سے ہزاروں برس پہلے موجود لوگوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔
ان تصاویر نے ایک بار پھر موئن جو دڑو کی عظمت کی دھاک بٹھا دی ہے۔
رحمت اللہ نے بتایا کہ “ مجھے جرمنی سے کالیں آئیں، امریکہ سے کالیں آئیں، مجھے ہندوستان سے بھی کالیں آئیں“۔
میر بحر کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت اس منصوبے کے لیے ایک مثالی انتخاب ہے، کیونکہ یہ کسی جگہ یا اس کے لوگوں کے بارے میں دستیاب آن لائن ڈیٹا کی بنیاد پر نتائج دے سکتی ہے اور جہاں یہ حقیقت سے میل نہیں کھاتی، وہاں انسانی ذہن مداخلت کر سکتا ہے۔
اور میربحر کو اپنے علم اور فوٹو گرافی سے جو انہوں نے موئن جو دڑو اور سندھ کے دیگر قدیم مقامات کے کھنڈرات میں کی تھی کے باعث متعدد مواقع پر مداخلت کرنی پڑی۔ تاکہ علاقے کے قدیم فن تعمیر، ثقافت اور مذہب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جاسکیں۔
چونتیس سالہ رحمت اللہ میربحر ٹھٹھہ کے ضلعی محکمہ صحت میں ایک کمپیوٹر آپریٹر ہیں، جنہوں نے ویب سائٹس اور یوٹیوب ٹیوٹوریلز کا استعمال کرتے ہوئے خود سیکھا کہ اے آئی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے آرٹ کیسے بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ حیران لیکن خوش ہیں کہ موئن جو دڑو کی ان کی تصاویر کو اتنی پذیرائی ملی ہے۔
فوٹوگرافر رحمت اللہ میربحر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے مرحلے میں موئن جو دڑو کے رہن سہن کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔
موئن جو دڑو کے بعد میربحر اب قدیم سمندری شہر بھنبھور کی زندگی تصور کرنا چاہتے ہیں، جہاں سے مؤرخین کا کہنا ہے کہ مشہور عرب جرنیل محمد بن قاسم آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ میں داخل ہوئے تھے۔
وہ مکلی اور اس کے مشہور قبرستان میں زندگی کا دوبارہ تصور کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، جو 10 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہ 14ویں اور 18ویں صدی کے درمیان کے کچھ طاقت ور خاندانوں کی آرام گاہ ہے۔
ان کی فہرست میں ٹیکسلا بھی ہے، جو قدیم گندھارا کا دارالحکومت ہے، جس کی بنیاد 1000 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔
تخلیق کار کہتے ہیں کہ میں پاکستان سے باہر کی تہذیبوں پر بھی کام کر رہا ہوں۔
اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، وہ یہ یاد کر کے ہنس پڑے کہ کس طرح تقریباً دو دہائی قبل ان کے گھر والوں نے انہیں اس بات پر ڈانٹا تھا کہ اُن کے خیال میں کمپیوٹر خریدنے میں پیسے کا ضیاع تھا۔
میربحر نے کہا، ”میرے گھر والوں نے مجھے بہت ڈانٹا اور کہا کہ تم کیا کر رہے ہو، تم نے فضول خرچی کی ہے۔“
”لیکن میں آج جو کچھ بھی ہوں اس کمپیوٹر کی وجہ سے ہوں، اور میرے گھر والے بھی خوش ہیں۔“
Comments are closed on this story.