Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن نہ کرانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی تو ہم سب باہر نکلیں گے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے کارکنان اور قیادت کو ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی سے تیاری کریں، ہم باہر نہ نکلے تو اللہ ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ اللہ نے انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد فرض کی ہے، اگر ہم نے اس سازش کو کامیاب ہونے دیا تو اللہ اور تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے، 10 دن میں تمام ٹکٹس کا فیصلہ کرلیں گے، قوم انہیں الیکشن سے بھاگنے نہیں دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں شروع سے ہی انصاف نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میرا کام ہے آپ کی تربیت کرنا ہے، میں ساری دنیا دیکھ چکا ہوں، امیر ملکوں میں انصاف ہے اور غریب ملکوں میں جنگل کا قانون ہے۔
پی ٹی آئی چئیرمین نے کہا کہ ججز صاحبان کو ڈرایا گیا، بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، کوشش کی گئی کہ وہ طاقتور کا ساتھ دے دیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن بعد الیکش ہونا چاہئیں، ہم نے ماہرین سے پوچھ کر اسمبلیاں تحلیل کیں، یہ الیکشن سے خوفزدہ ہیں، انہیں پتہ ہے کہ الیکشن میں تباہی ہے، الیکشن کمیشن اور حکومتیں ان کے ساتھ ہیں، خود کو بچانے کے لیے یہ الیکشن میں نہیں جارہے۔
عمران خان نے کہا کہ انہی ججز نے شہباز شریف کو بحال کرایا، آج یہ اسی سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے، کابینہ کہہ رہی ہے کہ فیصلہ قبول نہیں۔
عمران خان کہتے ہیں کہ ان کو ایک جج نے بالکل ٹھیک کہا تھا، سسیلین مافیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے تکلیف یہ تھی رات کے 12 بجے عدالتیں کھلیں، ہم نے سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ قبول کیا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہم قانون کی حکمرانی کی طرف جارہے ہیں، مافیا کہتے ہیں فیصلہ نہیں مانیں گے، آئیں پر نہیں چلیں گے۔
انہوں نے نواز شہرف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مفرور جھوٹ بول کر علاج کے لیے پاکستان سے باہر گیا، بھائی نے ایفی ڈیوٹ دیا کہ واپس آجائے گا۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اس ملک کے فیصلے کر رہے ہیں، جن بچوں نے زندگی میں ایک گھنٹہ کام نہیں کیا انہیں بٹھایا ہوا ہے، ایک کہتا ہے کہ مارشل لا لگ جائے گا، جس نانے پر سیاست کررہا ہے اسے مارشل لا کی وجہ سے تو پھانسی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ملکی مفاد سے سمجھوتا کریں گے، یہ کوشش کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں دراڑیں پڑ جائیں،1999 میں بھی انہوں نے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا۔
دوسری جانب خیلجی ٹی وی کو دئے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، الیکشن کمشنر کا اکتوبر میں انتخابات کا اعلان آئین کی خلاف ورزی تھا، دیکھیں گے کہ انتخابات میں کیاہوتا ہے، یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نتیجہ قبول کریں گے یا نہیں، مجھےنہیں معلوم کہ انتخابات میں کیا ہوگا اور الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیسا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد سے ایک سبق میں نے اور ایک پاکستانی عوام نےسیکھا ہے، میرا سبق یہ ہے کہ میں نے آرمی چیف پر بھروسہ کیا، میں نے سمجھا احتساب کے معاملے میں آرمی چیف اور میں ایک پیج پر ہیں لیکن ایسا نہیں تھا، آرمی چیف احتساب پریقین نہیں رکھتے تھے، وہ نہیں مانتے تھےکہ بدعنوانی ایک بری چیز ہے، میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، اگرآپ کے پاس قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو پھر آپ کے پاس بدعنوانی ہے۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے پنجاب میں الیکشن کے لئے کل سے پارٹی ٹکٹ دینے کا عمل شروع کرنے کا اعلان کردیا۔
زمان پارک لاہور میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اسد عمر، فواد چوہدری، سیف اللہ نیازی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال، انتخابی جلسوں کےشیڈول سمیت پنجاب میں انتخابی حکمت عملی، پارٹی ٹکٹس کی تقسیم کے حوالے سے مشاورت جب کہ حکومت کی عدلیہ مخالف مہم پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دوسری جانب افطار کے موقع پر کارکنوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں کل سے پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنا شروع کروں گا، الیکشن کے لیے آپ سب نے تیار رہنا ہے۔
اجلاس کے بعد ایک بیان میں رہنما تحریک انصاف اسد عمر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں انتخابی حکمت عملی پر تفصیلی مشاورت کی گئی جب کہ عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئینی طریقہ کار پر غور کیا گیا۔
اسد عمر نے کہا کہ عمران خان عیدالفطرکے بعد انتخابی جلسوں کا آغاز کریں گے، البتہ آج رات ملک کے 75 شہروں میں حقیقی آزادی کا جشن ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) آئین سے بغاوت کی بات کر رہی ہے، ان کا کوئی بیانیہ نہیں جب کہ پی ڈی ایم کا عدلیہ مخالف بیانیہ بھی پٹ چکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا متعصبانہ فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک اور قرار داد لانے کا اعلان کردیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف مذاق کیا جا رہا ہے، اس پر اتحادیوں کے فیصلے کی ایک ٹھوس شکل آنی چاہیے۔
پی ایم ہاؤس میں اتحادیوں کے مشاورتی اجلاس میں مریم نواز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ رانان ثناء اللہ، خالد مقبول، مولانا فضل الرحمان، نوید قمر، اعظم تارڑ اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور علی اعوان نے بھی اجلاس میں شرکت کی جب کہ قائد ن لیگ نواز شریف، سابق صدر آصف زرداری بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شریک ہوئے۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے ہفتے اتحادیوں کی جامع نشست ہوئی تھی، کابینہ کی بھی 2 میٹنگز ہوئیں، نیشنل اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اجلاس ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی سب کے سامنے ہے، قاضی فائزعیسیٰ کے فیصلے کو پہلے سرکلر سے ختم کیا گیا، پھر کل 6 رکنی بینچ بیٹھا، وزیر قانون نے بڑے احسن طریقے سے کابینہ اور قومی اسمبلی میں حکمت سے یہ ساری باتیں کیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک قراداد منظور ہو چکی ہے اور کل (آج ) قومی اسمبلی میں ایک اور قرارداد پیش کی جائے گی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یہ قرارداد ایوان میں پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا کھلواڑ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، پارٹی بنانے کی سیاسی جماعتوں کی درخواست مسترد کی گئی۔
شہباز شریف نے کہا کہ کل 3 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق 10 تاریخ کو حکومت پاکستان نے الیکشن کے حوالے سے فنڈز مہیا کرنے ہیں اور الیکشن کمیشن نے 11 تاریخ کو سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرنی ہے۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے مطابق 17 اپریل تک پنجاب میں سیکیورٹی مہیا کرنی ہے، وفاق نے فوج اور رینجرز مہیا کرنی ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے حوالے سے کہا گیا کہ ہائی کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔
وزیراعطم نے کہا کہ کل بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں دیگر رہنماؤں نے اچھی گفتگو کی، آج پھر اجلاس ہے اور کل بھی قومی اسمبلی میں اجلاس ہوگا، اتحادیوں کا اجلاس اس لئے بلایا ہے تاکہ مشاورت کے بعد فیصلہ کریں، آئین اور قانون کے خلاف جو مذاق کیا جارہا ہے اس پر اتحادیوں کے فیصلے کی ایک ٹھوس شکل آنی چاہئے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زمان پارک لاہور کی رہائشگاہ پر سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے، اور رہائش گاہ جانے والے راستے کو دو مقام پر آہنی دیوار سے بند کردیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حالیہ دنوں میں اپنے کارکنان اور رہنماؤں کے ہمراہ افطاری کررہے ہیں، اب پی ٹی آئی کارکنان کو بھی افطار سے قبل رہائش گاہ کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
عمران خان کی رہائش گاہ کا گیٹ نمبر ایک پہلے ہی کنٹینر لگا کر بند کردیا گیا تھا، اب پی ٹی آئی چیئرمین سے ملاقات کیلئے رہنما اور کارکنان گیٹ نمبر 2 استعمال کر سکیں گے۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہناہے کہ 1971کے انتخابات نے ملک کو دولخت کیا تھا، اگر یہ الیکشن ہوا تو تباہی کا سبب بنے گا۔
وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ 1971کے انتخابات نے ملک کو دولخت کیا، 71 اور 77 کے الیکشن کےنتائج آج تک بھگت رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار پھر متنازع انداز میں الیکشن کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگریہ الیکشن ہوا تو تباہی کا سبب بنے گا، متنازع الیکشن ملک کو تباہی اورافراتفری کی طرف لے جائے گا۔
راناثنااللہ نے کہا کہ ہم الیکشن سے بھاگ نہیں رہے، الیکشن لڑکر اور ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں، الیکشن ضرور ہوں لیکن وقت پر ہونا چاہئیں، اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہونا چاہیئے، اتحادی حکومت کو ضد اور ہٹ دھرمی قبول نہیں، عمران خان کی ضد نے ملک کو نقصان پہنچایا۔
مسلم لیگ ن کی چیف آگنائزر مریم نواز کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وکلاء اور قانون کا ٹرک ہے فواد چوہدری والا نہیں، درست بات کرنے پرتوہین عدالت لگتی ہے تو لگ جائے۔
وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں آج پاکستان بنانے، بچانے اور قانون کے محافظوں کے پاس آئی ہوں، ن لیگ میں خواتین وکلاء کی بڑی تعداد ہے، جس جماعت کا وکلاء ونگ ہو اس جماعت کو کبھی شکست نہیں ہوسکی، ہمارے پاس وکلاء اور قانون کاٹرک ہے، فواد چوہدری والانہیں، وکلا کی وجہ سے ن لیگ پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، ملک میں منتخب وزیراعظم کو دھمکایا گیا، جھوٹے مقدمات بناکر نکالا گیا، ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا گیا، ڈکٹیٹرز کا نہیں، ہمیشہ عوام کے منتخب وزیراعظم کو ہی نکالا گیا، کبھی کسی نے ڈکٹیٹر کو نہیں، ڈکٹیٹرکو ہمیشہ عوام اور وکلاء نے نکالا۔
لیگی رہنما نے کہا کہ ملک میں 40 سال تک آمریت رہی ہے، 4 ڈکٹیٹرز نے 10،10سال پورے کیے، لیکن پاکستان کا وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا، کسی نے بھی ڈکٹیٹر کو کٹہرےمیں کھڑا نہیں کیا گیا، مسلم لیگ ن کے لوگوں پرسچ بولنے پر ظلم کیا گیا، 2018 میں آرٹی ایس بٹھا کرعوام کے ووٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔
مریم نواز کا چیف جسٹس کے ریمارکس پر کہنا تھا کہ ٹی وی پر دیکھا عطاء بندیال جذباتی ہوگئے، آپ نے کہا کل جو جیلوں میں تھے وہ آج ایوانوں میں ہیں، وہ جیلوں میں اس لئے تھے کیونکہ اختیار کسی کی مٹھی میں تھا، آپ جذباتی اس وقت نہ ہوئے جب ن لیگ کو چن چن کر نااہل کیا گیا، رانا ثناء پر شرمناک کیس بنا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کا مقابلہ نہ کرنے والوں نے جھوٹے مقدمات بنائے، جیلیں بھگتنے والوں نے جھوٹے مقدمات بھگتے، غلط سزائیں کاٹنے کے باوجود ہم عدالتوں میں پیش ہوئے، 200 پیشیوں پر میں اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ گئی۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف تمام اصل مقدمات ہیں، اس نے اور اس کی اہلیہ نے توشہ خانہ کے تحائف چوری کیے، سعودی عرب سے ملنے والی خانہ کعبہ کی گھڑی بیچ دی، فارن فنڈنگ کا فیصلہ ناقابل تردید ثبوتوں سے بھرا پڑا ہے، اور جب اس سے حساب مانگو تو بہانے بناتا ہے، اور اہلیہ خاتون خانہ بن جاتی ہیں۔
نائب صدر ن لیگ نے کہا کہ میں سیاسی لیڈر ہوں، لیکن میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے جب خود کو لیڈر کہنے والا ایک گیڈر جنگلے والی گاڑی میں نکلتا ہے، اور منہ پر کالا ڈبہ پہن کر عدالت آتا ہے، جن کے کوئی اصول، نظریے، مشن نہیں ہوتے وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے، اور جب نکلتے ہیں تو منہ پر کالا ڈبا پہن کر نکلتے ہیں۔
لیگی رہنما نے کہا کہ نوازشریف کو جیل میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا، جیل میں ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی تھی، درست بات کرنے پر مجھ پرتوہین عدالت لگتی ہے تو لگ جائے، میں نے5 ماہ اڈیالہ میں جیل کاٹی، 5 ماہ نیب کیسز کا سامنا کیا، میں جھوٹی نااہلی اور جیل بھگت کر آئی ہوں، مجھے نااہلی یا جیل سے نہ ڈرایا جائے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ تین، چار ججز عمران خان کے اور باقی تمام ججز عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، عمران خان کے سہولتکار ججز نئے چیف جسٹس سے پہلے الیکشن چاہتے ہیں، انہوں نے مل کر ٹائم لائن رکھی ہے کہ نئے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو۔
لیگی چیف آرگنائزر نے کہا کہ عمران خان اور ان کے سہولت کار جانتے ہیں کہ انہوں نے جرم کیا ہے، اس نے سائفر کا جھوٹا ڈرامہ کیا تھا، اس نے اقتدار کے 4 سال انتقام میں گزار دیئے، اور خیبر پختونخوا میں احتساب کے اداروں کو تالا لگادیا، اسے ایک ساتھ 12،12 مقدمات میں ضمانتیں مل جاتی ہیں۔
سینئر نائب صدر ن لیگ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کبھی آئین پاکستان اور قانون کو سمجھا ہی نہیں، جتھہ لے کر عدالتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، اس نے ملک میں فتنہ وفساد پھیلایا، انہیں 2،2 گھنٹے میں ضمانتیں مل رہی ہیں پھر بھی رو رہے ہیں، میں نے اپنے خاتون ہونے پرعدالت سے رعایت نہیں لی۔
مریم نواز نے کہا کہ پنجاب میں بھی 3 کے گینگ نے تباہی مچائی، لاہور سے پیسہ بنی گالا جاتا تھا، وہاں سے کہاں جاتا تھا کچھ نہیں معلوم، ایک بار پھر ایک شخص کو قوم پر دوبارہ مسلط کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ آئین میں لکھا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، اور ہم بھی وقت پر ہی انتخابات کی بات کرتے ہیں، الیکشن کیلئے شور کرنے والا الیکشن میں ہار جائے گا، اور اگلے 5 سال بھی روتا رہے گا۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ
وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ 1971 کے انتخابات نے ملک کو دولخت کیا، 71 اور 77 کے الیکشن کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک بار پھر متنازع انداز میں الیکشن کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگریہ الیکشن ہوا تو تباہی کا سبب بنے گا، متنازع الیکشن ملک کو تباہی اورافراتفری کی طرف لے جائے گا۔
راناثنااللہ نے کہا کہ ہم الیکشن سے بھاگ نہیں رہے، الیکشن لڑکر اور ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں، الیکشن ضرور ہوں لیکن وقت پر ہونا چاہئیں، اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہونا چاہیئے، اتحادی حکومت کو ضد اور ہٹ دھرمی قبول نہیں، عمران خان کی ضد نے ملک کو نقصان پہنچایا۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ شہبازشریف سوچ لے کہ عدلیہ کا فیصلہ مانناہے یا توہین عدالت میں نااہل ہوکر رائیونڈ جانا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں سابق وزیرداخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدالت نے مشکل وقت میں بہتر فیصلہ دیا اور نظریہ ضرورت نہیں بنی، سپریم کورٹ کے اندر کسی نے نہیں کہا کہ ہم بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں، سب دلائل دینا چاہتے تھے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انتخابات میں جنگجو فورس نہیں چاہیے، رینجرز، ایف سی اور سابق سرکاری ملازمین ہی کافی ہیں، اب شہباز شریف سوچ لیں کہ عدلیہ کا فیصلہ ماننا ہے یا توہین عدالت میں نااہل ہو کر رائیونڈ جانا ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ عدلیہ خود آئین کےتابع ہے ملک کےتمام ادارےعدلیہ کےتابع ہیں، 85 رکنی کابینہ کا جمعہ بازار سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد نہیں کرسکتا۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 3 ججز پر ریفرینس لانے، ایمرجینسی لگانے یا مارشل لاء کی باتیں کرنے کے ڈراؤنے خواب دیکھنا چھوڑدیں، عوام کا نام ریاست ہےعدلیہ کا فیصلہ نہ مانا تو گلی کوچے میں بغاوت ہوگی، شہبازشریف حکومت نااہلی یا انارکی میں سے ایک کے لیے تیار ہو جائیں، سو پیاز بھی کھائیں گے، سو لتر بھی کھائیں گے اور عدلیہ کا فیصلہ بھی مانیں گے۔
سربراہ عوامی لیگ نے کہا کہ عدلیہ کے بھگوڑے نواز شریف کی دردناک اور مایوس کن پریس کانفرنس خود اس کا منہ چڑھارہی تھی، ہفتے سے سعودی عرب کے سرکاری مہمان بننے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ خارج ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
تحریک انصاف کی رہنما شاندانہ گلزار نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملے کے بعد ٹی وی شو میں عسکری رہنماؤں پرکڑی تنقید کی تھی، جس پر ان کے خلاف وفاقی دارالحکومت کے وومن تھانے میں ضابطہ فوجداری کے تحت مجسٹریٹ عبدالہادی کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شاندانہ گلزار کے خلاف بغاوت کا مقدمہ خارج ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محسن اختر کیانی نے جاری کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ شاندانہ گلزار کا بیان انفرادی شخصیات اور حکام کے خلاف ہے، لیکن اس میں عوام کو بغاوت پر اکسانے کے حوالے سے کوئی عنصر موجود نہیں، آرٹیکل 19 چند مخصوص پابندیوں کے ساتھ مکمل اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔
فیصلے میں تحریر ہے کہ شاندانہ گلزار کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں مجوزہ قانونی طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی، پروسیکویشن کا ریکارڈ بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ یہ مقدمہ درج کرنا درست یے، اس قسم کے مقدمات جس میں قانونی طریقہ کار کی پیروی نہ کی گئی کو خارج ہونے چاہیے۔
فیصلے میں بغاوت کا مقدمہ کیسے درج ہوگا سات نکاتی طریقہ کار حصہ بناتے ہوئے عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یکم فروری کو شاندانہ گلزار کے خلاف تھانہ ویمن میں درج مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت کی منظوری ضروری ہے، وجوہات کے ساتھ الزامات کا جائزہ لیکر متعلقہ حکومت مجاز افسر ہی مقدمہ درج کرا سکتا ہے، کوئی بھی عام شہری بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج نہیں کرواسکتا۔
لاہور ہائیکورٹ نے عدلیہ مخالف بیان بازی پر مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدرمریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لئے انٹراکورٹ اپیل واپس لینے پر خارج کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مریم نواز کےخلاف توہین عدالت کی کاروائی کے لئے انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کی۔
درخواست گزار رانا شاہد نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرا کورٹ اپیل واپس لینا چاہتا ہوں اجازت دی جائے۔
عدالت نے اپیل کنندہ کی استدعا پر اپیل واپس کرتے ہوئے خارج کر دی۔
انٹرا کورٹ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سنگل بینچ نے قانونی جواز کے بغیر درخواست مسترد کی، عدالت سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل منظور کرے۔
اپیل میں کہا گیا تھا کہ مریم نواز اپنی جماعت کی سینئیر نائب صدر ہیں اور چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھال چکی ہے، انہوں نے سرگودھا میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ مخالف بیان بازی کی، مریم نواز نے اپنے خطاب کے ذریعے اعلی عدلیہ کو اسکینڈ لائز کرنے کی کوشش کی۔
اپیل میں مزید کہا گیا تھا کہ مریم نواز کی تقریر الیکٹرانک میڈیا پر لائیو نشر ہوئی اور اگلے روز اخبارات میں پرنٹ ہوئی، آئین کے تحت اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف بیان بازی نہیں ہو سکتی،عدالت اعلیٰ عدلیہ مخالف بیان بازی پر مریم نواز کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کرے۔
سابق وزیر اعظم اورچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے ، حکومت نے یہ فیصلہ تسلیم نہ کیا تو یہ توہین عدالت کے زمرے میں لیا جائے گا۔ کبھی نہیں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا راستہ پکڑے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو ویڈیو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ حکومت کو اختلاف کا کوئی حق نہیں، یہ ’سیپریشن آف پاور‘ ہے جہاں حکومت، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا اپنا اپنا کردار ہے۔ اسی سپریم کورٹ نے ایک سال پہلے ہماری حکومت کا الیکشن کا فیصلہ مسترد کرکے شہباز شریف کا اقتداردیا تھا وہ بھی از خود نوٹس تھا اور تب انہوں نے یہ فیصلہ قبول کرلیا تھا۔
مارشل لاء سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ انہیں الیکشن میں اپنی موت نظرآرہی ہے،اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو پوری سپورٹ کے باوجود پی ٹی آئی نے 37 میں سے 30 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اب انہیں شکست کا ڈر ہے اس لیے مارشل لاء کی دھمکیاں غیرآئینی ہیں، مارشل لاء کے دن پاکستان سے چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ سپریم کورٹ کے فیصلے تسلیم نہیں کرتے تو اس کا مطلب پاکستان میں قانون ختم ہوگیا۔ جنگل کے قانون کی طرف جا رہے ہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی جماعت بیچ کا راستہ ڈھونڈتی ہے مگر الیکشن کے ذریعے سیاسی استحکام کے بغیر معیشت سنبھل نہیں سکے گی، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
انتخابی اخراجات کے حوالے سے سوال پرعمران خان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا ہے کہ اگر آپ مجھے دلدل سے نکلنے کا روڈ میپ دے دیں، ہم (اکتوبر میں) الیکشن کا انتظارکرلیں گے۔ اگر یہ وجہ دینی ہے کہ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں تو اکتوبر میں کدھر سے پیسے آئیں گے۔ آپ اکتوبر میں بھی کہیں گے کہ تب بھی پیسے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اگلا الیکشن جیتنا ہے اور یہ بات حکومت کو بھی پتہ ہے۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان میں اسٹیلشمنٹ ایک حقیقت ہے، ہم نے کبھی نہیں کہا کہ 70 ستر سال سے جو ان کا کردار بنا ہوا ہے تو اسٹیبلشمنٹ اپنا راستہ پکڑ لے، ایسے نہیں ہوگا لیکن سول اور ملٹری تعلقات میں ایک توازن ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی انتظامی نظام اس وقت کام نہیں کرسکتا جب تک کہ ذمہ داری منتخب حکوت کی ہو مگر اختیار کہیں اور ہو۔پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے سرجری کرنی پڑے گی اور بڑے فیصلے کرنے ہوں گے جس کیلئے بڑا مینڈیٹ چاہیے جو الیکشن سے ہی آئے گا۔
کیا الیکشن ’فری اینڈ فیئر‘ ہوں گے اور آپ اسے قبول کریں گے ؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ صاف شفاف انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہیں اور پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہی ہے، 1970 کی طرح شفاف الیکشن ہمارے مفاد میں ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہوئی تھی کہ تب جو پارٹی جیتی تھی اسے اقتدار ہی نہیں دیا گیا۔ ہم امید لگا رہے ہیں کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے صاف شفاف انتخابات ہوں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف 121 مقدمات کے اخراج کے لئے درخواست میں مقدمات کی مصدقہ نقول فراہم کرنے سمیت دیگر اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں قائم 2 رکنی بینچ نے اعتراضی درخواست پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ مقدمات کی مصدقہ نقول کی فراہمی بڑا مسئلہ نہیں ہے، عمران خان کے خلاف سیاسی دباؤ پر 121جھوٹے مقدمات درج کر دیے گئے ہیں، عمران خان پردہشت گردی اور قتل کےمقدمات سیاسی جد و جہد سے باز رہنے کے لئے درج کیے گئے، آئین پاکستان ہر شہری کو سیاسی اور جمہوری جدوجہد کی آزادی دیتا ہے۔
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت پنجاب میں بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات درج 13مقدمات کو فوری خارج کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے مصدقہ نقول کی فراہمی کے لئے رجسٹرار آفس کا اعتراض برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراض کو دور کرنے کے لئے مناسب وقت دیا جا رہا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے دفتری اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔
وفاقی وزیرقانون وانصاف اعظم نذیرتارڑ نے کہا ہے کہ قوم کی تقدیر سے جڑے مقدمات کو تحمل سے سب کو اکھٹا بٹھا کر سنا جاتا ہے، قوم کی تقدیر کے فیصلے انا اور ضد کو سامنے رکھ کر نہیں کیے جاتے، اکثریتی فیصلے کو اقلیتی فیصلے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، ازخود نوٹس فیصلہ کو تبدیل کرنے سے انصاف کے اصولوں کی پامالی ہوئی ہے اور اس پر احتجاج ہمارا حق ہے۔
منگل کوقومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیرقانون نے کہا کہ کل اسی ایوان میں قائد ایوان نے عدالت عظمیٰ میں جاری آئینی مقدمہ پربات کی تھی، میں نے ایوان کو مقدمہ کی تفصیلات سے آگاہ کردیا تھا ، پورے ملک نے سماعت دیکھی اور پڑھی ہے۔
وزیرقانون نے کہا کہ جب ایک ضدی شخص کی انا کی تسکین کے لئے 2 صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہوئی تو سنجیدہ حلقوں نے اس کی مخالفت کی اور اس پر تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ اس اس کا بنیادی مقصد سیاسی تقسیم کی داغ بیل ڈالنی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوارمیں عام انتخابات پر انگلیاں اٹھائی گئی، جس کی ہم نے قیمت چکائی ہے، اگر 1977 کے انتخابات کسی نگران سیٹ اپ کے تحت ہوتے تونتائج ملے جلے ہوتے اور 11 سالہ ماشل لانہ لگتا جس کی قیمت ہماری نسلیں دے رہی ہے۔
وزیرقانون نے کہاکہ اسی ایوان نے پچھلے ہفتہ اپنا آئینی فریضہ اداکرتے ہوئے قرارداد منظورکی اورمطالبہ کیا کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیا جائے، ازخودنوٹس کے فیصلے میں مقدمات خارج کردیے گئے تھے، فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ یہ صوبوں کے مسائل ہیں، اس ایوان نے استدعا کی کہ عدل کے ایوان میں تقسیم ہے اس لئے اس معاملہ کوفل کورٹ میں لے جایا جائے ، ہاتھ جوڑ کراستدعا کی کہ اس معاملہ کوانا اورضد کا معاملہ نہ بنایا جائے بلکہ آئینی اورسیاسی بحران کے خاتمہ کیلئے فل کورٹ میں معاملہ سنا جائے مگر افسوس کے ایسا نہ کیا گیا، سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو فریق نہیں بنایاگیا، اٹارنی جنرل نے بھی ساری باتیں بنچ کے سامنے رکھی اوراپیل کی کہ معاملہ فل کورٹ میں بھیجا جائے یا ان ججز کوبھیجا جائے جواب تک کسی بینچ کاحصہ نہیں بنے ہین۔
وزیرقانون نے کہا کہ 3 رکنی بینچ نے ان اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے خود ہی شیڈول جاری کردیا، ہم انتخاب سے بھاگنے والے نہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنایا کہ ازخودنوٹس کے تحت سماعتیں فل کورٹ میٹنگ کے بعد ہی ہوں گی،اس عدالتی فیصلے کو انتظامی سرکلر کے ذریعے ختم کردیا گیا اور 6 رکنی بینچ بنایا گیا جس نے ایک گھنٹے کے بعد تین رکنی بینچ کے فیصلے کوختم کردیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایک طرف کہاگیا کہ اس فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور دوسری طرف اس کے لئے 6 رکنی بینچ بنا دیا گیا، کیا اس طرح کی عجلت سے ملک، آئین اورقانون کو استحکام ملے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے آئین اور قانونی مقدمات جو قوم کی تقدیر سے جڑے ہوتے ہیں انہیں تحمل سے سب کواکھٹا بٹھاکرسناجاتا ہے، انا، ادارہ جاتی تسلط کو نہیں دیکھا جاتا، ہم آئینی اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں،
وزیرقانون کا کہنا تھا کہ ادارے کے اندر سے آواز آئی ہے کہ ون مین شوچل رہاہے، اکثریتی فیصلہ کواقلیتی فیصلہ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، 184 کے حوالہ سے فیصلہ پر جو طرزعمل اپنایا گیا وہ درست نہیں ،فیصلہ سے انصاف کے اصولوں کی پامالی ہوئی ہے اوراس پراحتجاج ہمارا حق ہے۔
برطانیہ میں نشریاتی حقوق رکھنے والے ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف الزامات پر رواں ہفتے ان سے معافی مانگ لی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزیر فرخ حبیب نےستمبر2022 میں الزام عائد کیا تھا کہ اسحٰق ڈار مجرمانہ سرگرمیوں اور جعلی اکاؤنٹس کھولنے میں ملوث ہیں۔
اس پر اسحٰق ڈار نے مذکورہ خبرنشرکرنے والے چینل کیخلاف ہتک عزت کی کارروائی شروع کی تھی جس پر بعد میں چینل نے وزیر خزانہ کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرتے ہوئے معافی معافی مانگنے پررضامندی ظاہرکی تھی۔
چینل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فرخ حبیب کی جانب سے عائد کردہ الزامات جعلی، بے بنیاد اورجھوٹے ہیں جنہیں نشر کرنے پر افسوس ہے۔
اس سے قبل اکتوبر 2021 میں اے آر وائی برطانیہ کے نشریاتی ادارے ’نیو ویژن ٹی وی‘ نے بھی اسحٰق ڈار سے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جانب سے لیگی رہنما پر لگائے گئے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات من گھڑت تھے۔
یہ ہتک آمیز الزامات 8 جولائی 2019 اور 8 اگست 2019 کے دو نیوز شوز میں لگائے گئے تھے۔پروگرام پاور پلے میں وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے اسحٰق ڈار پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اداروں کو نظام تک رسائی نہ دیتے ہوئے پاکستان میں مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ کے کام میں رکاوٹ ڈالی تھی۔
شہزاد اکبرنے الزام عائد کیا تھا کہ اسحٰق ڈار نےیہ اقدامات چوہدری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں ملوث افراد کو بچانے کے لیےاٹھائے تھے۔
بعد ازاں اے آر وائی یو کے پر نشر معافی نامے میں کہا گیا تھا کہ، ’ہم مانتے ہیں کہ اسحٰق ڈار نے مالیاتی یونٹ کے کام میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، نہ ہی انہوں نے مبینہ چوہدری شوگر ملز سمیت کسی مقدمے میں کسی شخص کو بچایا۔اس نشریات کے باعث شدید پریشانی و شرمندگی کا سامنا کرنے پر ہم اسحٰق ڈارسے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں‘.
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے خاتون جج دھمکی کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ناقابل ضمانت کو قابل ضمانت وارنٹ میں تبدیل کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
ایڈیشنل سیشن جج سکندرخان نے 2 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ اس سے قبل بھی 24مارچ کو عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ کو قابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیل کیا گیا، جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے 24 مارچ کا سیشن عدالت کا فیصلہ دستیاب تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے ساتھ ناقابلِ ضمانت وارنٹ کی کوئی کاپی منسلک نہیں۔
مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس : عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ ایک روز کے لئے معطل
فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر نے کہا عمران خان کی رہائشگاہ پر قابلِ ضمانت وارنٹ کی تعمیل بھی نہیں کی گئی۔
فیصلہ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ کو ناقابلِ ضمانت کی جگہ پہلے قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنا چاہیئے تھا، اعتراضات پر مبنی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو قابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے 14 مارچ کو خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے 16 مارچ تک سابق وزیراعظم کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
اس کے بعد 16 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے دلائل سننے کے بعد ایک بار پھر چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری معطل کیے تھے۔
عدالت نے عمران خان کو 20 مارچ تک متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھیں: خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے وارنٹ معطلی میں 24 مارچ تک توسیع
خیال رہے کہ خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں 13 مارچ کو سول جج ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ رانا مجاہد رحیم نے عمران خان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
عدالت نے عدم پیشی پر عمران خان کو 29 مارچ تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
عمران خان نے 20 اگست کو ایف نائن پارک میں احتجاجی جلسے سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر مبینہ تشدد کیخلاف آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد پر کیس کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوران خطاب عمران خان نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری کو نام لے کر دھمکی بھی دی تھی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ، ”آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے، تم پر کیس کریں گے مجسٹریٹ زیبا چوہدری آپ کو بھی ہم نے نہیں چھوڑنا، کیس کرنا ہے تم پر بھی، مجسٹریٹ کو پتہ تھا کہ شہباز پرتشدد ہوا پھر بھی ریمانڈ دے دیا“۔
اس بیان کے بعد پیمرا نے 21 اگست کو عمران خان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ٹی وی چینلزکو ہدایات جاری کی تھیں۔ 6 صفحات پرمشتمل اعلامیے میں کہا گیا تھاکہ عمران کی براہ راست تقاریر سے نقص امن پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ٹی وی چینل ریکارڈڈ تقریر چلا سکتے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں، اداروں اور افسران کے خلاف بیانات آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔
جاری کردہ نوٹیفکیشن میں عمران خان کے ایف نائن پارک میں خطاب کا حوالہ بھی شامل تھا۔
لاہور کی مقامی عدالت نے ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی کی اہلیہ تحریم الہٰی سمیت دیگر کی عبوری درخواست ضمانت میں 28 اپریل تک توسیع کردی۔
ایڈیشنل سیشن لاہور جج غلام رسول نے ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں 7 ملزمان کی عبوری درخواست ضمانتوں پر سماعت کی۔
تفتیشی افسر نے تحقیقات مکمل کرنے کے لئے مزید مہلت کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد اور اکاؤنٹس کی تفصیلات اکھٹی کرنی ہے۔
عدالت نے پولیس افسر کی استدعا منظور کرتے ہوئے آئیندہ سماعت پر تفتیشی کو مکمل رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے تحریم الہٰی سمیت دیگر کی عبوری ضمانت میں 28 اپریل تک توسیع کر دی۔
منی لانڈرنگ کیس میں تحریم الہٰی ، زارا الہٰی ،راسخ الہٰی، شجاع الدین میاں، احمد فرہان، مجاہد اسلام اور صغیم عباس ملزمان میں شامل ہیں۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کے کیس میں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی عبوری ضمانت میں توسیع کردی۔
18 مارچ کو عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ سے متعلق تھانہ گولڑہ میں درج مقدمے میں عبوری ضمانت سے متعلق اعظم سواتی کی درخواست پر سماعت انسدد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی۔
اس سلسلے میں پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی اپنے وکیل بابر اعوان کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل بابر اعوان نے عبوری ضمانت میں توسیع کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں ،عمران خان پیشی پر آئے اور سینکڑوں کی تعداد میں کارکنان کو مقدمہ میں نامزد کر دیا گیا، پی ٹی آئی لیڈر شپ نے ہمیشہ قانون اور عدالتوں کا احترام کیا اور عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
بعدازاں عدالت نے اعظم سواتی کی 17 اپریل تک عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
عیسیٰ خیل میں سابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی رہنما نجیب اللہ خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔
عیسی خیل کے نواحی علاقے ناصری والا میں نامعلوم افراد نے نجیب اللہ کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
فائرنگ سے نجیب اللہ خان سمیت 3 افراد شدید زخمی ہوگئے، زخمیوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال میانوالی منتقل کر دیا گیا۔
واقعے کے بعد تھانہ چاپری پولیس نے موقع پر پہنچ کر قانونی کاروائی کا آغاز کردیا۔
پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ قتل اور جلاو گھیراؤ سمیت 10 مقدمات کی تحقیقات کے لئے قائم جے آئی ٹی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور فواد چوہدری سمیت 11 نامزد پی ٹی آئی رہنماؤں نے پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کو چیلنج کیا۔
عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے اپنے وکیل سکندر ذوالقرنین اور ظفر اقبال منگن کے توسط سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں پنجاب حکومت اور صوبائی وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے عمران خان سمیت 11 رہنماؤں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد 10 مقدمات درج کیے، ان مقدمات کی تحقیقات کے لئے حکومت پنجاب کی ہدایت پر ہوم سیکرٹری پنجاب نے جے آئی ٹی بنادی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی میں کن مقدمات کی تحقیقات ہو رہی ہیں مکمل تفصیلات سے لاعلم ہیں، ظل شاہ سمیت دیگر مقدمات بے بنیاد بنائے گئے، ہمارے پاس ظل شاہ قتل سمیت دیگر مقدمات کے تمام شواہد، ثبوت اور گواہ موجود ہیں۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت جے آئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت حکومتی اتحادیوں کے پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس آج ہوگا۔
وزیراعطم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی صورتحال پرغور ہو گا، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل شرکاء کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بریفنگ دیں گے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
حکومتی اتحادیوں کے پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت حکومتی لیگل ٹیم کا مشاورتی اجلاس ہوا، جس میں آج ہونے والے اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آئینی و قانونی آپشنز پر غور کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی ٹیم کے مشارتی اجلاس میں فیصلے پرعمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں بعد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا، جب کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ کی حکمت عملی پربھی مشاورت ہوئی۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومتی اتحادیوں کے پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔