Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم چاہتی ہے الیکشن اس وقت ہوں جب پارٹی کرش ہوجائے۔
ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں اس لئے تحلیل کیں کیونکہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز میں انتخابات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی، معیشت ٹھیک کرنے کے لئے انتخابات کا انعقاد لازمی ہے، اسی لئے ہم نے دونوں اسمبلیوں کی قربانی دی۔
پی ڈی ایم اجلاس پر عمران خان نے کہا کہ حکمران اتحاد کہتا ہے سپریم کورٹ کا فیسلہ نہیں مانیں گے، سپریم کورٹ کا کام آئین پر عملدرآمد کروانا ہے، یہ لوگ اکھٹے ہوکر بھی الیکشن سے خوف زدہ ہیں۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف بات نہیں کی، رات 12 بجے عدالت کھلنے پر مجھے تکلیف ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی میں نے کچھ نہیں کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے خدشہ ہے یہ اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائیں گے، یہ اس وقت انتخابات کروائیں جب عمران خان جیل میں ہوگا، اکتوبر میں الیکشن سے ایسا کیا ہوگا، پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے اس وقت 3100 ورکرز جیلوں میں ہیں، محسن نقوی ایک نیب زدہ آدمی ہے، 25 مئی واقعے میں ملوث افسران کو الیکشن کمیشن نے چُن کر ہم پر مسلط کیا، جو پارٹی الیکشن چاہتی ہے وہ انتشار نہیں چاہتی، انتخابات سے بھاگنے کے لئے ان لوگوں نے محسن نقوی کے ذریعے ہم پر ظلم کروایا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ پی ڈی ایم چاہتی ہے الیکشن اس وقت ہوں جب پی ٹی آئی کرش ہو جائے، 14 مارچ کو میرے گھر پر حملہ غیر قانونی تھا جس کے خلاف میں عدالت میں جا رہا ہوں، میرے کارکنوں کو خدشہ تھا یہ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک مفرور، سزا یافتہ لندن میں بیٹھ کر فیصلے کر رہا ہے، اس نے ساری زندگی لوگوں کو خریدا ہے، یہ لوگ مافیا ہیں، کبھی جہاز سے تصاویریں پھینکتے ہیں کبھی کتاب لکھوا دیتے ہیں، ان کی کوشش ہے کسی طرح عمران خان کو باہر رکھو تاکہ ان کا این آر او بچ جائے۔
سربراہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہمیں الیکشن التواء کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر کوئی اعتماد نہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، 3 ججز پر مشتمل بینچ پر اعتماد نہیں، اخلاقی طور پر چیف جسٹس اور دیگر دو ججز کو اس کیس سے الگ ہوجانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اداروں میں تقسیم چاہتے ہیں، دھاندلی کے دو بڑے مجرم دھندناتے پھر رہے ہیں، ان کے خلاف ازخود نوٹس نہیں لیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ چند ججز عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، پی ڈی ایم کو ان تین ججز پر مشتمل بینچ پراعتماد نہیں، اس بینچ میں ایسا جج بھی ہے جس نے پہلے سماعت سے معذرت کی پھر واپس آ کر بیٹھ گیا۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ہماری نظر میں سپریم کورٹ کا یہ تین بینچ دو صوبوں کے کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند ججز کی جانبدرانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے، ججز عمران خان کے پارٹی کے مؤقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہیں۔
فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ملک کو ایک رکھنے کے لیے ایک الیکشن ہونا ضروری ہے، چیف جسٹس ہمیں نصیحت کررہے ہیں کہ مل بیٹھ کر طے کریں، ہمیں تو مل بیٹھنے کی تلقین کر رہے ہیں اور خود اپنی کورٹ کو تقسیم کردیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
لاہور میں پی ٹی آئی کور کمیٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ شاہ محمود اور پرویز الہٰی کو دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطے کا ٹاسک دیا ہے، یہ دونوں کل سے ہی رابطے شروع کریں گے، سپریم کورٹ کو انڈرٹیکنگ دی ہے جس میں کہا تمام جماعتوں کو برابر کا موقع دیا جانا چاہئے۔
پولیس کے خلاف لاہور میں 25 ایف آئی آر درج کروارہے ہیں
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پولیس کے خلاف لاہور میں 25 ایف آئی آر درج کروارہے ہیں، کور کمیٹی نے کہا کہ ظل شاہ کے کیس کا آخر تک پیچھا کریں گے اور مرکزی ملزمان کو سزا دلوائیں گے۔
تقسیم کے دوران واقعات پر پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ 10 دنوں میں 20 افراد راشن لیتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، خوراک کے حصول کے لیے ہنگاموں کی ابتدا ہوچکی ہے، یہ واقعات پاکستان کی معیشت کی عکاسی کرتے ہیں، حکومت کو سمجھ نہیں آرہی بحران سے کیسے نکلے، جو کوششیں کی جارہی ہیں ان میں بھی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔
اگلے سال ہماری گندم کی فصل تباہ ہوجائے گی
انہوں نے کہا کہ لوگوں کا راشن کی قطار میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا المیہ ہے، ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے، میڈیا ان معاملات پر اظہار کرے، ہم بحرن کے ایسے دہانے پر ہیں جہاں ایک بھی غلط قدم خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا جب کہ اگلے سال ہماری گندم کی فصل تباہ ہوجائے گی جس سے ہمارے خوراک کےبحران میں اضافہ ہوگا۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے اسمبلیاں اس لیے توڑیں کہ آئین کا آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دن میں الیکشن ہوں گے، پرویزالہی کو 186 لوگوں نے اسمبلی توڑنے کے لیے ووٹ دیا تاہم چیف الیکشن کمشنر ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہیں انتخابات کرا ہی نہیں سکتے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پوری مہم کا آغاز کیا گیا جس میں صحافی اور ریجیکٹڈ سیاستدانوں طبقہ شامل ہے۔
عدلیہ کے خلاف مہم پر فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان قوم کے لیڈر ہیں لیکن ان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی جاتی ہے جب کہ دوسری طرف ججز کے خلاف مہم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، عدلیہ نے ہمارے خلاف بھی فیصلے دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ان جج صاحبان کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں قائم ہوئی، اگر جوڈیشری آرٹیکل 69 پر مداخلت نہ کرتی تو شہبازشریف حکومت میں نہیں آسکتے تھے، یہ سب لوگ جیلوں میں ہوتے اور انہیں چوری کئے پیسے بھی واپس کرنا پڑتے۔
مریم اورنگزیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے
مریم اورنگزیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراطلاعات کو کوئی جانتا بھی نہیں، جنہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بینچ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے، ایک شریف فیملی کے ملازم کی ایسی جرات نہیں ہونی چاہئے، البتہ مریم اورنگزیب کے خلافتوہین عدالت کی درخواست اسی ہفتے دائر کی جائے گی۔
نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ سیاسی بونے عدالتوں اور سسٹم کو للکار رہے ہیں، ایک مفرور چیف جسٹس کو کہتا ہے کہ آپ فل کورٹ بنائیں، میں نے اپنی حکومت کو سمجھایا تھا کہ انہیں باہر نہ جانے دیں، بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے، چیف جسٹس کے وقار کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوں گے۔
سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں
مذاکرات سے متعلق انہوں نے کہا کہ عمران خان پر 143 کیسز درج ہیں، اس طرح معاملات آگے نہیں چل سکتے، ہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہیں، ایک دوسرے کو اسپیس دینے کی ضرورت ہے اور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، البتہ ایک مفرور مجرم کے کہنے پر سپریم کورٹ کو دھمکی دیں گے تو معاملات آگے نہیں بڑھیں گے۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کراچی میں سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا، انتقامی کارروائیوں سے آگے جاکر سوچنا ہوگا، عمران خان تو خود پر حملے کو بھی معاف کرنے کو تیار ہیں، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن این آر او نہیں دے سکتے، ہم الیکشن کے فریم ورک پر بات کرسکتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں نواز شریف واپس آئیں، ہماری طرف سے جیل نہ جائیں لیکن پیسے واپس کردیں اور اگر تین ججز کا فیصلہ نہیں ماننا تو شہبازشریف والے فیصلے کو بھی ماننے سے انکار کردیں۔
رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ جس دن حکومت جائے گی ڈالر کی واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا، 13 اپریل کے بعد پنجاب حکومت کی تمام پاور ختم ہو جائے گی، کے پی حکومت بھی 18 اپریل کے بعد نہیں چل سکتی اور اگر اگر یہ حکومتیں چلیں گی تو آرٹیکل 6 لاگو ہوگا۔
سابق وفاقی وزیر اور رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے بھائی کی حکومت سپریم کورٹ ازخود نوٹس کی بدولت ہی قائم ہوئی۔
ایک بیان میں فواد چوہدری نے نواز شریف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے نواز شریف 1997 سے باہر نکلیں اورحقائق کا بہتر ادراک کر کے لب کشائی کریں، میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ قوم کسی سزا یافتہ مفرور کو باہر بیٹھ کر سپریم کورٹ کو بنچ کی تشکیل و مقدمات کی سماعت پر ڈکٹیشن دینے کی اجازت نہیں دے گی، البتہ نواز شریف کے بھائی کی حکومت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس ہی کی بدولت قائم ہوئی۔
نواز شریف کی نا اہلی پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پانامہ کا انکشاف فوج اور سپریم کورٹ نے نہیں بلکہ عالمی صحافتی کنسورشیم نے کیا تھا، نواز شریف اکیلے نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی قوموں کو لوٹ کر دولت جمع کرنے والوں کو سزائیں ملیں۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ نوازشریف اور ان کے خاندان کو عدالت نے صفائی کا پورا موقع دیا، اپنی صفائی میں دستاویز پیش کرنے کی بجائے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ نے جھوٹے قطری خطوط کا سہارا لیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کواب آئین و قانون کے تحت چلنا ہے، عدلیہ کے خلاف شرمناک مہم کی مذمت کرتے ہیں، نوازشریف قوم کی لوٹی گئی دولت واپس کرکے قانون کا سامنا کریں، ان کے پاس یہ ہی ایک آپشن ہے اور انتخابات آئینی تقاضا ہےجس کے التواء کی کوئی کوشش قوم قبول نہیں کرے گی۔
سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے الیکشن التواء کیس پر کہا کہ فُل کورٹ سے کم کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔
لندن میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف نے کہ میری قوم کے لوگوں اپنی آنکھیں کھولو، آپ کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی تھی، ملک تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، آج دوست ممالک سے درخواست کرنی پڑتی ہے ہمیں ڈالر دے دو۔
ان تین میں سے دو ججز نے میرے خلاف فیصلے دیئے
سابق وزیراعظم نے کہا کہ سب متفق ہیں کہ انتخابات کےمعاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے، فُل کورٹ کیوں نہیں بنایا جا رہا، ان تین میں سے دو ججز نے میرے خلاف فیصلے دیئے اور ہر فیصلہ ہمارے خلاف آتا جا رہا ہے۔
قائد ن لیگ نے کہا کہ قوم کھڑی ہوجائیں، ثاقب نثار اور دیگر ریٹائرڈ جج قوم کو بتائیں کہ نواز شریف کو کیوں نا اہل کیا گیا، یہ قومی مسئلہ ہے، ٹرک یا ریڑھی والے کا معاملہ نہیں، ثاقب نثار کی ایک آڈیو بھی موجود ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف، مریم کو سزا دینی ہے اور عمران خان کو لانا ہے، اس معاملے کی بھی تحقیق ہونی چاہئے۔
احستاب کے حوالے سے جسٹس مظاہر کا ایک فٹ کیس ہے
جسٹس مظاہر نقوی سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں جانا چاہئے، جو انہوں نے کہا اس کے شواہد کی آڈیوز اور ویڈیوز لیکس موجود ہیں، یہ احتساب کے حوالے سے ایک فٹ کیس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پتہ نہیں ملک کو کیا بنانا شروع کردیا، قوم کو مقروض کردیا گیا ہے، ایک بندے کی خاطر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، آج لوگوں کے پاس علاج معالجے کے پیسے نہیں، عمران خان کیلئے قوم پر مرضی کے فیصلے ٹھونسنا چاہتے ہیں، البتہ اس بینچ کا کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کل اتحادیوں کا اہم اجلاس طلب کرلیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور میں شہباز شریف کی زیر صدارت کل اجلاس دوپہر ایک بجے ہوگا جس میں اتحادی رہنما شریک ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کو سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی الیکشن التواء کیس پر بریف کیا جائے گا جب کہ حکمران اتحاد زیر سماعت کیس سے متعلق اہم فیصلہ بھی کرے گا۔
دوسری جانب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر وزیراعظم کی جانب سے اٹارنی جنرل کو مسلسل تیسرے روز بھی مشاورت کے لئے طلب کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز اٹارنی جنرل منصور عثمان کو وزیراعظم شہباز شریف سے انتخابات کے معاملے پر ہدایات لینے کا کہا تھا۔
واضح رہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس بحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس سامنے آگئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس یحی آفریدی نےالیکشن کیس میں تفصیلی نوٹ جاری کردیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا معاملہ لاہور اور پشاورہائیکورٹس میں زیرالتوا ہے، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ہائی کورٹ کے معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتے، دوران سماعت آبزرویشن ہائیکورٹ میں مقدمہ کو متاثر کر سکتی ہے۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ نے لکھا ہے کہ انتخابات کیس میں فریقین سیاسی مؤقف تبدیل کرتے رہے ہیں، سیاسی معاملہ عروج پر ہو تو عدالت کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، از خود نوٹس اور آئینی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔
تحریری نوٹ میں جسٹس یحییٰ نے مزید لکھا کہ خود کو بینچ کا حصہ رکھنے کا معاملہ چیف جسٹس پر چھوڑتا ہوں، اور خود کو بینچ کا حصہ برقرار رکھنا مناسب نہیں سمجھتا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ
سپریم کورٹ میں الیکشن کیس کی آج کی سماعت میں بینچ سے الگ ہونے والے جسٹس جمال مندو خیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ روز جسٹس امین الدین نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کی تھی، ان کے اس فیصلے کے بعد حکم نامہ کا انتظار تھا، لیکن عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہوا جس پر میں نے علیحدہ نوٹ لکھا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ حکمنامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا، جب کہ میں بینچ کا ممبر تھا لیکن حکمنامہ لکھتے وقت مجھ سے مشاورت بھی نہیں کی گئی، 3 ممبران نے مجھے مشاورت میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس مندو خیل کا کہنا تھا کہ چاہتا تھا یکم مارچ کے حکم نامے کے تناسب پر بنا تنازع پہلے حل کیا جائے، لیکن یکم مارچ کا اکثریتی عدالتی حکم جاری نہیں کیا گیا، یکم مارچ کے حکم نامے پرکوئی توجہ نہیں دی گئی، یہ کیس یکم مارچ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے، کورٹ یکم مارچ کے آرڈر آف دی کورٹ کا تنازع حل کرے، ابتک یکم مارچ کے فیصلے کا آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا۔
نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے بھی معاملہ اٹھایا، لیکن بنچ کے ارکان نے جواب نہیں دیا، ان حالات میں بنچ کاحصہ رہنا مناسب نہیں سمجھتا، بنچ کاحصہ رہ کرساتھی ججزکومشکل میں نہیں ڈالناچاہتا، کوئی شک نہیں کہ موجودہ کیس میں اہم آئینی امورزیربحث ہیں، فل کورٹ جب بھی بنا اس کیلئے دستیاب ہوں، دعا اور امید ہے کہ ساتھی ججز جو فیصلہ دیں وہ آئین کی بالادستی قائم کرے گا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا گیا۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ جسٹس امین الدین خان نے اپنے فیصلے کی روشنی میں بنچ سے علیحدہ ہوئے، بنچ کے تین ارکان کا جسٹس امین الدین خان کے موقف سے اختلاف کیا۔
حکمنامے کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے سماعت جاری کا موقف اپنایا۔
حکمنامے میں جسٹس جمال مندوخیل کی سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پر کوئی رائے شامل نہیں کی گئی۔
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے گھر کے اندرکی آوازیں بھی سنے، آئینی بحران پیدا ہو گیا تو صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہئوے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اہم مقدمے کی سماعت چل رہی ہے، سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ 5 رکنی بینچ میں تبدیل ہوا، اور 3 ارکان پر رہ گیا۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ عدالت میں آج جو سماعت ہوئی وہ سب کے سامنے ہے، معاملہ ایک بار فل کورٹ میں جانا چاہئے، اسلام آباد بار کونسل نے بھی فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔
اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے گھر کے اندر کی آوازیں بھی سنے، اقلیتی فیصلوں کے نفاذ کی کوشش کریں گے تو بحران ہوگا، ملک پہلے ہی سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، اگر آئینی بحران بھی پیدا ہو گیا تو صورتحال مزید سنگین ہو جائے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے کل اہم اجلاس طلب کررکھا ہے، اتحادی جماعتیں اپنےلائحہ عمل طے کریں گے، گفت وشنید سے تمام مسائل کا حل ہونا چاہئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری اور سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا ہے کہ پوری قوم چیف جسٹس اورسپریم کورٹ کےساتھ کھڑی ہے، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ امید ہے انتخابات عوامی توقعات کے مطابق ہوں گے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ تین ماہ الیکشن آگے بڑھانے سے کیا ہو جائے گا اس دوران ملکی مسائل میں اضافہ ہی ہوگا، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن نہ کروائے تو عام انتخابات بھی نہیں ہوسکیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پوری قوم چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے، بینچ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، حکومت سپریم کورٹ کے حکم پرعمل کرنے کی پابند ہے، حکم پرعمل نہ کرنے والی حکومت گھرجائےگی، ہم چاہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 224 پرعمل ہو، اس پر عمل نہ ہوا تو نمائندہ حکومت کی بنیاد ختم ہو جائے گی۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ پنجاب اور کے پی الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے قواعد و ضوابط طے کرنے کا کہا ہے، اس ملک نے آئین کے تحت نظام کے اندر ہی رہنا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے حکومتی وزرا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب نے زندگی میں کوئی الیکشن نہیں لڑا ان کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں، گیارہ ماہ میں آپ نے پاکستان کا یہ حال کردیا ہے، اگرآپ سے ملک نہیں چل رہا تو ہماری جان چھوڑیں۔
سابق وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ عمران خان کیسے مائنس ہوسکتے ہیں، وہ ہی تو پلس ہیں، حکومت کے پاس صرف الیکشن کیلئے پیسے نہیں ہیں، انھوں نے اپنے ایم این ایز کو 81 ارب روپے دیے، 10 ارب روپے کے لیپ ٹاپ بانٹے اور اسلام آباد میں اربوں روپے کی اسکیمز منظور کی گئیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب نے فل کورٹ کی بات کی، عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ کی استدعا مسترد کردی۔ کے پی اور پنجاب الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت پیر کی صبح ساڑھے11بجےتک ملتوی ہوگئی، امید ہےانتخابات عوامی توقعات کے مطابق ہوں گے، وکلا برادری کا بڑا حصہ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
رہنما تحریک انصاف اسد عمر نے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف کیس میں صرف الیکشن کی تاریخ کا تعین نہیں ہونا، پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق معاونت کیلئے تیار ہے، حکومت کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا، دوسری طرف حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریوں میں مصروف ہے۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو مزید 72 گھنٹے کی مہلت دے دی ہے، پیسے اور سیکیورٹی کا بندوبست کرنا حکومت کا کام ہے، ورنہ ہم بتائیں گے یہ بندوبست کیسے ہوگا۔
ٹویٹ میں مزید لکھا کہ ججز کے خلاف جو تحریک چل رہی ہے چیف جسٹس نے اس کا بھی سختی سے نوٹس لے لیا ہے، سپریم کورٹ نے کہا ہے آئین مقدس اور مقدم ہے ہر صورت میں آئین کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا۔
سابق وفاقی وزیر نے مزید لکھا کہ ن لیگ نے ہمیشہ عدلیہ پر حملہ اور ججز کو دباؤ میں لاکر اپنے من پسند فیصلے کروانے کی کوشش کی ہے، آج بھی عدلیہ کو آڈیو ویڈو اور جلسوں میں نام لے کر دباؤ میں ڈالا جارہا ہے۔
شیخ رشید کے مطابق چیف جسٹس نے کہا ہے کہ تمام ججز کے تعلقات آپس میں ٹھیک ہیں اور ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، آئین پر عمل نہ ہوا تو سسٹم ختم ہو جائے گا۔
اس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں شیخ رشید نے کہا پوری قوم چیف جسٹس کے فیصلے کے ساتھ کھڑی ہے، چیف جسٹس قانونی اور آئینی فیصلہ دیں گے، ماضی میں بھی ججز میں اختلافات رہے ہیں، آج 1947 کا دور نہیں ہے اگر پرانا دور ہوتا تو خانہ جنگی ہوجاتی۔
شیخ رشید نے کہا کہ میں طاقتور حلقوں سے لڑنے کا حامی نہیں ہوں، آنے والے مہینے بہت زیادہ اہم ہیں، 60 سے 65 دن زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
چارٹرڈ طیاروں پر ممبران کو لایا جارہا ہے، یہ چارٹرڈ طیاروں پر آنے والے ممبران کام نہیں آئیں گے، ہم دنیا میں تنہا ہورہےہیں۔
سربراہ عوامی مسلم لیگ کا مزید کہنا تھا کہ جو ادارہ یا اُس کا افسر چیف جسٹس کا حکم نہیں مانے گا وہ جیل جائے گا، الیکشن ہر صورت ہونے ہیں، وزارت داخلہ، خزانہ، دفاع تینوں ن لیگ کے پاس ہیں، اس لیے سزا شہباز شریف کو بھی ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کی ساری تدبیریں الٹی ہوگئی ہیں، 100 لتر بھی کھائیں گے، 100 پیاز بھی کھائیں گے، الیکشن بھی کروائیں گے اور گھر بھی جائیں گے۔
رہنما پی ٹی آئی فیصل جاوید نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدلیہ میں تقسیم کی سازش کی جارہی ہے، پوری قوم عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، ملک کو آئین اور دستور کے مطابق چلنا ہے
فیصل جاوید نے حکومتی اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلسوں میں ججز کے نام لے کرحملہ آور ہو رہے ہیں، پی ڈی ایم الیکشن سے راہ فرار اختیار کررہی ہے، یہ عمران خان کی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں، ہرسطح پرتقسیم کی کوشش کی جارہی ہے۔
وفاقی وزرا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا دوسرا بینچ بھی ٹوٹ گیا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ اعتماد کا فقدان ہے، پوری قوم کی امیدیں چیف جسٹس سے ہیں۔
دو صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا دوسرا بینچ بھی ٹوٹ گیا ہے، جس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت ہیجانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے، سپریم کورٹ سے پوری قوم کو بہت امیدیں ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایک بات بار بار ثابت ہو رہی ہے کہ اعتماد کا فقدان ہے، آج ایک بار پھر ایک معزز جج کے انکار پر سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا، لڑائیاں سیاست کے کلچر کا حصہ ہیں، لڑائی ان کے کلچر کا حصہ کبھی نہیں تھی، قوم کی نظریں چیف جسٹس پر ہیں۔
وزیردفاع کا مزید کہنا تھا کہ روز اول سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا، ادارے پر اعتماد بحال کرنے کیلئے فل کورٹ بنایا جائے۔
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ
وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج نے سماعت سے معذرت کرلی ہے، جسٹس جمال مندوخیل سینئر جج ہیں اور ان پر سب کو اعتماد ہے، ان کے اختلافی نوٹ میں موجود باتیں انتہائی افسوسناک ہیں، جس میں کہا گیا کہ فیصلہ لکھتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں ہوئی، یہ بات کسی قومی سانحے سے کم نہیں ہے۔
راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ جسٹس مندوخیل کا اختلافی نوٹ سب نے دیکھا، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا سو موٹو سے متعلق فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہے، لیکن ان کے فیصلے کو بھی غیر مؤثر کر دیا گیا، رجسٹرارآفس نے بینچ کے فیصلے کو مسترد کردیا، فیصلہ بڑے بینچ میں چیلنج ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوسکتا۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ سیاسی و انتظامی بحران کے بعد عدلیہ میں بحران کھڑا کر دیا گیا ہے، یہ بحران بھی فتنہ خان کی وجہ سے ہے، جسٹس فائز پر ریفرنس دائر نہ کیا جاتا تو آج ایسا نہ ہوتا، پوری قوم ایک فتنہ کے باعث بحرانی کیفیت میں ہے۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ فتنے نے 10 سال میں ملک کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے، معاشی بحران بھی اس فتنے کا پیدا کردہ ہے، ہر بحران اس فتنے سے جنم لیتا ہے، اور ہر برائی فتنے پر شروع ہوکر فتنے پر ختم ہوتی ہے، اس کا مقصد ملک میں انارکی پھیلانا ہے۔
راناثنااللہ ججز سے اپیل ہے کہ انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے، چیف جسٹس سے پوری قوم کی امیدیں وابستہ ہیں، فتنے کے ایجنڈے کو کسی صورت پورا نہیں ہونا چاہئے۔
وزیراطلاعات مریم اورنگزیب
سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹنے پر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ معاملہ 9 معزز ججز سے شروع ہوا اور 3 ججز پر آپہنچا، اور ان میں سے بھی جسٹس اعجازالاحسن پہلی ہی سماعت سے معذرت کرچکے ہیں، اب یہ عملدرآمد کے فیصلے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تمام تحاریک فیل ہوگئیں، یہ بندہ ملک میں الیکشن نہیں،فساد، افراتفری اور انتشار چاہتا ہے، زمان پارک میں پولیس پرپٹرول بم پھینکے گئے، اب یہ پورے ملک میں آگ لگانا چاہتے ہیں، عمران خان کو اپنی چوریوں کا اعتراف کرنا چاہئے، اس نے توشہ خانہ سے گھڑیاں چوری کیں، اور عدالت کے بلانے پر گالیاں دیتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک کو آئینی بحران سے بچانا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، ہم سماعت کیلئے فل کورٹ کا مطالبہ کررہے ہیں، فل کورٹ کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا کے انتحابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شروع کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔
حسن رضا پاشا نے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کرلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، اس معاملہ پر مجھے چیمبرمیں ملیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا۔ جس پر اتارنی جنرل نے جواب دیا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ہم نے آئین و جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آگئے، 90ء کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
اٹارنی جنرل کی بھی عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پرآپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منیب اخترآئینی ماہرہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہرنقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کوشامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، 2 سال جسٹس فائزعیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس فائزعیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی، کیوں کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو حالات نہیں بتائے تھے، اگر حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردارادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ بااختیار فیصلہ ہے، عدالت 20 ارب روپے کے اخراجات پر پہلے بتائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یاحساس ہیں، صرف یہ کہناکافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے، عدالت کوبتایاگیا افواج بارڈرپرمصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ آج عدالت کا جاری سرکلردیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھاہے، وہ بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی از سرنو تشکیل کیلئے بھیجا گیا تھا، میں چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا ہے تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیربحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کررہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججزکی اندرونی گفتگوعوام میں نہیں کرنی چاہئے، درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کوسلجھا دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججزکو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد ہے کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پرتعینات لوگ کس طرح عدلیہ کونشانہ بنارہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججزہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کرکیا، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا ، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پرکیسے جج کا ٹرائل کریں، جسٹس اقبال حمید الرحمان کواستعفی سے روکا تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ مرحوم باپ کوکیا منہ دکھاؤں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روزمجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے کہ تو آپ کو سنیں گے۔
عرفان قادر نے جواب دیا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصرا بات مکمل کرنےکی کوشش کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، میں ادھر ادھرکی باتوں میں جذباتی ہوگیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے فل کورٹ کی دوبارہ اپیل کی تو عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈزمیں کتنی رقم موجود ہے، اگر20 ارب خرچ ہوتےہیں توخسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہوگیا۔
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کاجائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈزمیں رقم ہونا اور خرچ کیلئے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت پیر ساڑھے11بجے تک ملتوی کردی۔
درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ دو بار ٹوٹا
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔
بینچ ٹوٹنے کے باوجود انتخابات التوا کیس کی سماعت آج بھی ہوگی
گزشتہ روز جمعرات کو 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت آج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کی فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار
آج سماعت کے آغاز سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ حکمنامہ پڑھ کرسنائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین نےبینچ میں بیٹھنےسےمعذرت کی تھی، ان کے اس فیصلے کے بعد حکم نامہ کا انتظارتھا۔ عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہوا جس پر میں نے علیحدہ نوٹ لکھا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں بینچ کا ممبرتھا تاہم میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بینچ میں مس فٹ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آٸین کے پابند ہیں، دُعا ہے اس کیس میں جوبھی بینچ ہو،ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔اللہ ہمارے ادارے پررحم کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ میں اورمیرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں، اسی دوران چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کا ’آپ کا شکریہ‘ کچھ دیرمیں نئے بینچ کا فیصلہ ہوگا۔
بینچ ٹوٹنے اور سماعت معطل ہونے کے بعد عدالتی عملے نے اعلان کیا کہ کیس کی سماعت نماز جمعہ کے بعد 2 بجے ہوگی۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے لئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا، جس میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ درخواست پر سماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی یقین دہانی کرائے، سپریم کورٹ
اس سے قبل سپریم کورٹ نے کازلسٹ جاری کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پرگزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔
کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس عمرعطا بنیادل سربراہی کی میں 4 رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کرنی تھی جس کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز، جسٹس منیب اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کی الیکشن التواء کیس پر فُل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز
حکمنامے میں کہا گیا کہ جسٹس امین الدین خان اپنے فیصلے کی روشنی میں بنچ سے علیحدہ ہوئے، بینچ کے 3 ارکان نے ان کے موقف سے اختلاف کیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب نے سماعت جاری رکھنے کا مؤقف اپنایا۔
اس حکمنامہ میں جسٹس جمال مندوخیل کی سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پرکوئی رائے شامل نہیں ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے پر سرکلر جاری کر دیا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر جاری کر دیا، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں ازخودنوٹس سے متعلق جاری آبزرویشن سے متعلق سرکلر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جاری کیا۔
سپریم کورٹ کے سرکلر کے مطابق جسٹس فائز کے فیصلے میں ازخودنوٹس کا اختیاراستعمال کیا گیا۔
سرکلر میں کہا گیا کہ اس انداز میں بینچ کا سوموٹو لینا 5 رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں ، فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔
سرکلر کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین کے فیصلے کی آبزرویشن از خود نوٹس نہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اٹارنی جنرل منصورعثمان کو آج دوبارہ وزیراعظم ہاؤس طلب کیا، دونوں کی یہ ملاقات مسلسل تیسرے روز ہوئی۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر وزیراعظم کی جانب سے اٹارنی جنرل کو مسلسل تیسرے روز بھی مشاورت کے لئے طلب کیا گیا۔
وزیراعظم کے طلب کیے جانے پر اٹارنی جنرل دوبارہ سپریم کورٹ سے وزہراعظم ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کی۔
ملاقات میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس، آئینی و قانونی معامات پر مشاورت کی گئی۔
وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان دوبارہ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز اٹارنی جنرل منصور عثمان کو وزیراعظم شہباز شریف سے انتخابات کے معاملے پر ہدایات لینے کا کہا تھا۔
دو صوبوں میں الیکشن سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا تاہم سپریم کورٹ نے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور باقی ماندہ چار رکنی بینچ آج (جمعہ کو) دوبارہ بیٹھے گا۔
سپریم کورٹ میں 3 روز سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جاری تھی، تاہم جمعرات کو الیکشن سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا۔
پی ٹی آئی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی یقین دہانی کرائے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے۔
الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا اسمبلی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا
پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا تھا۔
سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کی فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔
جمعرات کو جب سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ گزشتہ روز فیصلے کے بعد بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے، میں اس کیس میں مزید سماعت میں بیٹھ نہیں سکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے بنچ کی سماعت سے انکارکردیا اور ان کے انکار کے بعد بینچ ٹوٹ گیا، جس کے بعد چیف جسٹس کے زیر صدارت سپریم کورٹ کے سینئر ججز کا مشاورتی اجلاس ہوا۔
اجلاس کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی اور عدالت نے انتخابات ملتوی ہونے کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔
عدالت نے مختصر فیصلہ بھی سنایا، عدالتی عملے نے حکم نامے کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے سماعت جمعہ کو ساڑھے11 بجے تک ملتوی کردی ہے، مقدمہ اس بینچ کے سامنے مقرر ہوگا جس میں جسٹس امین الدین نہ ہوں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کیس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نیا بینچ تشکیل دیں گے اور کیس کی سماعت نیا بینچ کرے گا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا ردعمل
سپریم کورٹ کا بینچ بینچ ٹوٹنے پر عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ بینچ ٹوٹنے میں کوئی پریشانی کی بات نہیں، جلد نیا بینچ تشکیل دے دیا جائے گا، اور کیس کی دوبارہ سماعت ہوگی۔
بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں پیش بل پر تحفظات ہیں، پارلیمنٹ میں بل عجلت میں لایا جارہا ہے، ترمیمی بل میں کچھ چیزیں اچھی بھی ہیں، بل میں موجود غلط چیزوں کی نشاندہی کروں گا، جسٹس قاضی فائزکےفیصلہ پرنظرثانی اپیل آسکتی ہے۔
سپریم کورٹ سیاست کے دلدل سے بچے
بینچ ٹوٹنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ خود کوسیاست کی دلدل سےمحفوظ رکھے، عدلیہ اپنے کنڈکٹ اور فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے، انصاف کے پلڑے برابر ہوں گے تو تاریخ یاد رکھے گی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ شدید اختلاف رائے ملک اور جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے، عدالت عظمیٰ کا کردار تاریخ ساز ہوگا، مریم نوازآج پلڑے برابرہونےکی بات کیوں کررہی ہیں؟سوچناہوگا۔
وزیردفاع نے کہا کہ لکی مروت دہشتگردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتےہیں، دہشتگردی کا ان سےپوچھیں جوانہیں ملک میں واپس لے کر آئے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو خود کو سیاست سے محفوظ رکھنا چاہئے، سیاست جس نہج پہ پہنچ چکی ہے سپریم کورٹ کو اس سے محفوظ رکھنا چاہئے، یہ سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے، تمام ادارے اس وقت انتشار کا شکار ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم عدلیہ کا بے شک بہت احترام کرتے ہیں، یہ اختلافات ہمارے ملک کے لیے اچھا شگون نہیں، سیاست کو سیاستدانوں تک محدود رہنے دیں، سیاست کواداروں میں لے کر نہ جائیں۔