الیکشن تاخیر کیس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرنے والا 4 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا کے انتحابات میں تاخیر کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے شروع کی، بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی، ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں، اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی استدعا
پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹیو کونسل حسن رضا پاشا عدالت میں پیش ہوئے، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔
حسن رضا پاشا نے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ بار کا کسی کی حمایت سے کوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بینچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کرلیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، باتوں سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبر میں آئیں آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، اس معاملہ پر مجھے چیمبرمیں ملیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات غلط بات کر دیتے ہیں، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ جو نکتہ اٹھانا چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ پہلے درجہ حرارت کم کریں، ملک میں ہر طرف درجہ حرارت کم کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا۔ جس پر اتارنی جنرل نے جواب دیا کہ وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ہم نے آئین و جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا، معجزہ ہوا کہ ججز واپس دفاتر میں آگئے، 90ء کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی مدت ہوتی ہے، سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
اٹارنی جنرل کی بھی عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے دن فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس نکتے پرآپ دلائل ضرور دیں، فل کورٹ والا معاملہ میرے ذہن میں تھا، بینچ بناتے وقت بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ کراچی اور لاہور میں بھی بینچ تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بینچ تشکیل دیتے وقت تمام ججز کے بارے میں سوچا، جسٹس اطہر من اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منیب اخترآئینی ماہرہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہرنقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کوشامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، 2 سال جسٹس فائزعیسیٰ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، جسٹس فائزعیسیٰ کے لیے بھی مقدمہ سزا ہی تھا۔
حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد کی تاریخ دی، کیوں کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو حالات نہیں بتائے تھے، اگر حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبر کی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردارادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ بااختیار فیصلہ ہے، عدالت 20 ارب روپے کے اخراجات پر پہلے بتائیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے، نصف پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس یاحساس ہیں، صرف یہ کہناکافی نہیں کہ ملک میں دہشتگردی ہے، دہشتگردی تو 90 کی دہائی سے ہے، عدالت کوبتایاگیا افواج بارڈرپرمصروف ہیں، اس معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ آج عدالت کا جاری سرکلردیکھا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھاہے، وہ بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ دو ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے، عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں اس میں کہاں لکھا ہے۔
اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بینچ کی از سرنو تشکیل کیلئے بھیجا گیا تھا، میں چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا ہے تو یہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ آپ نے کہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ میں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیربحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کررہے تھے، ہم تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججزکی اندرونی گفتگوعوام میں نہیں کرنی چاہئے، درجہ حرارت کم کرنے والی آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کوسلجھا دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، تمام ججزکو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد ہے کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پرتعینات لوگ کس طرح عدلیہ کونشانہ بنارہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججزہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کرکیا، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا ، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس معاملے پرکیسے جج کا ٹرائل کریں، جسٹس اقبال حمید الرحمان کواستعفی سے روکا تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ مرحوم باپ کوکیا منہ دکھاؤں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی استدعا
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کا موقف پورا نہیں سنا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنے دلائل جلدی ختم کردوں گا۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرتا ہوں، روزمجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے کہ تو آپ کو سنیں گے۔
عرفان قادر نے جواب دیا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصرا بات مکمل کرنےکی کوشش کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، میں ادھر ادھرکی باتوں میں جذباتی ہوگیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے فل کورٹ کی دوبارہ اپیل کی تو عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کردی۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے، فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈزمیں کتنی رقم موجود ہے، اگر20 ارب خرچ ہوتےہیں توخسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہوگا، الیکشن اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہوگیا۔
جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ فیڈرل کونسلیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فنڈز وزارت خزانہ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2019 کے رولز پڑھ کر بتائیں فنڈ کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے، پبلک فنانشل مینجمنٹ ایکٹ کے تحت رولز کاجائزہ لیں، رولز کے مطابق تو کونسلیڈیٹڈ فنڈز اسٹیٹ بینک میں ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں ان کے پاس کتنا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن حکومت کی جانب دیکھ رہا ہے، کمیشن کہتا ہے کہ فنڈز مل جائیں تو 30 اپریل کو الیکشن کروا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فنڈزمیں رقم ہونا اور خرچ کیلئے دستیاب ہونا الگ چیزیں ہیں، اسٹیٹ بینک کو رقم اور سونا ریزرو رکھنا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت پیر ساڑھے11بجے تک ملتوی کردی۔
درخواست پر سماعت کرنے والا بینچ دو بار ٹوٹا
اس سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ 3 روز سے سماعت کررہا تھا۔
بینچ ٹوٹنے کے باوجود انتخابات التوا کیس کی سماعت آج بھی ہوگی
گزشتہ روز جمعرات کو 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس امین الدین بینچ سے الگ ہو گٸے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت آج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا ن لیگ، پی پی پی، جے یو آئی کی فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار
آج سماعت کے آغاز سے قبل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ حکمنامہ پڑھ کرسنائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس امین الدین نےبینچ میں بیٹھنےسےمعذرت کی تھی، ان کے اس فیصلے کے بعد حکم نامہ کا انتظارتھا۔ عدالتی حکم نامہ کل گھر پر موصول ہوا جس پر میں نے علیحدہ نوٹ لکھا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں بینچ کا ممبرتھا تاہم میرے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں اس بینچ میں مس فٹ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آٸین کے پابند ہیں، دُعا ہے اس کیس میں جوبھی بینچ ہو،ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔اللہ ہمارے ادارے پررحم کرے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ میں اورمیرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں، اسی دوران چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کا ’آپ کا شکریہ‘ کچھ دیرمیں نئے بینچ کا فیصلہ ہوگا۔
بینچ ٹوٹنے اور سماعت معطل ہونے کے بعد عدالتی عملے نے اعلان کیا کہ کیس کی سماعت نماز جمعہ کے بعد 2 بجے ہوگی۔
پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے لئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا، جس میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ درخواست پر سماعت کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی یقین دہانی کرائے، سپریم کورٹ
اس سے قبل سپریم کورٹ نے کازلسٹ جاری کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پرگزشتہ روز کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔
کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس عمرعطا بنیادل سربراہی کی میں 4 رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کرنی تھی جس کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز، جسٹس منیب اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کی الیکشن التواء کیس پر فُل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز
حکمنامے میں کہا گیا کہ جسٹس امین الدین خان اپنے فیصلے کی روشنی میں بنچ سے علیحدہ ہوئے، بینچ کے 3 ارکان نے ان کے موقف سے اختلاف کیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب نے سماعت جاری رکھنے کا مؤقف اپنایا۔
اس حکمنامہ میں جسٹس جمال مندوخیل کی سماعت جاری رکھنے یا نہ رکھنے پرکوئی رائے شامل نہیں ہے۔
Comments are closed on this story.