Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

عمران خان کو اسلام آباد میں درج 7 مقدمات میں ضمانت مل گئی

دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور دیگر مقدمات میں 38 افراد کو گرفتار کیا، اسلام آباد پولیس
اپ ڈیٹ 27 مارچ 2023 07:53pm

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات میں ضمانت دے دی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج 7 مقدمات میں 6 اپریل تک ضمانت منظور کرلی، اور پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔

عمران خان نے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا۔ اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے فریقین کو درخواست گزار کی گرفتاری سے روکا جائے۔

عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست پراعتراض دور ہو گئے ہیں، آپ کو پہلے بھی بتایا کہ بائیو میٹرک تو کہیں سے بھی ہو سکتی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں معزرت خواہ ہوں اگلی بار دیکھ لیں گے، 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی بائیو میٹرک کا ایشو ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا 60 سال والوں کے انگھوٹے کا نشان نہیں ہوتا، ابھی تو ہم نے بائیو میٹرک بہت آسان کردیا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے17 مارچ حفاظتی ضمانت لاہورہائیکورٹ سےکرائی تھی، 18 مارچ یہاں آئے لیکن انسداد دہشت گردی عدالت سے ضمانت نہیں لے سکے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیوں ٹرائل کورٹ نہیں گئے؟ پہلے اس پرعدالت کی معاونت کریں، آخری سماعت پر کہا کہ ہم درخواست کے قابل سماعت ہونے کو دیکھ لیں گے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وہ ضمانت آج بھی گروانڈ پرموجود ہیں، درخواست گزار کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے، ان پر ایک بار قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو لاء آرڈر کے حالات بناتے ہیں وہ آپ خود بنا رہے ہیں، اگر آپ عدالت پیشی پر 10 ہزار لوگوں کو لائیں گے تو لاء آرڈر کے حالات تو ہوں گے۔

دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کورٹ کو خود مخاطب کرنے کے لیے روسٹرم پر آ گئے، تاہم چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کو بات کرنے سے روک دیا اور ان کو واپس اپنی نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے، ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہوچکا ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا، اور جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف ایٹ کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا، عمران خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرامن ماحول کو یقینی بنائیں، یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور ان کے لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سیکورٹی فراہم نہیں کرتے تو پھر وہ کیا کریں، ہمارے پاس آج ہی ایک پٹیشن آئی کل سنیں گے، جب انتظامیہ غیر ذمہ دارانہ ہو گی تو پھرکیا ہوگا، کسی شہری سے متعلق کیا انتظامیہ ایسا کوئی بیان دے سکتی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں دو سابق وزرائے اعظم قتل ہو چکے ہیں، ایک وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، آج میں نے 7 ضمانت کی درخواستیں دائر کی ہیں، اور ہمیں جوڈیشل کمپلیکس داخلے کی اجازت نہیں ملی۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ عمران خان بطور سابق وزیراعظم کس سیکیورٹی کےحقدار ہیں، وہ سیکیورٹی تو ساتھ ہی ہوتی ہوگی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پٹیشنر اب اسلام آباد میں ہیں تو یہاں سیکیورٹی کس نے دینی ہے۔

فواد چوہدری نے جواب دیا کہ یہاں سیکیورٹی وزارت داخلہ نے دینی ہے، اور وزیر داخلہ کا بیان تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے سلمان تاثیر کا واقعہ بھی ادھر ہوا ہے۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور فواد چودھری کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے۔ فواد چوہدری نے جواب دیا کہ نہیں، آپ نے یہ بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے فواد چودھری کو جواب دیا کہ آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔

عدالت نے فواد چوہدری اورایڈووکیٹ جنرل کو کراس ٹاک سے منع کردیا، اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی 7 مقدمات میں ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے پولیس کو عمران خان کو 7 مقدمات میں گرفتار کرنے سے بھی روک دیا، اور سماعت 6 اپریل تک ملتوی کردی۔

عمران خان کی درخواست پر اعتراضات

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 7 عبوری ضمانتوں کی درخواست دائر کیں، جن پر دو ، دو اعتراض عائد کردیئے گئے۔

رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض عائد کیے گئے کہ عمران خان نے بائیو میٹرک نہیں کرایا، جب کہ ٹرائل کورٹ سے پہلے ہائیکورٹ میں درخواست کیسے دائر ہو سکتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اپنے خلاف درج مقدمات میں ضمانت کے لئے عدالت پہنچے اور بائیومیٹرک تصدیق کروائی، جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی درخواست کو سماعت کیلئے مقررکر دیا۔عمران خان کی درخواستوں کورجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ مقررکیا گیا۔

اسلام اباد پولیس نے 38 افراد کو گرفتار کرلیا

دوسری جانب ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا بذریعہ ٹویٹ کہنا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور دیگر مقدمات میں 38 افراد کو گرفتارکیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے، عمران خان کی عدالتی اجازت کی حامل دونوں گاڑیاں حفاظتی حصار میں تھیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

pti

imran khan

FIR

Islamabad High Court

Politics March 27 2023