Aaj News

ہفتہ, نومبر 02, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

جب تک بڑے آدمیوں کو سزا نہیں ملتی حالات ٹھیک نہیں ہوں گے، صدر عارف علوی

الیکشن کے ساتھ کھیلیں گے تو پھر 11 سال لگیں گے، صدر مملکت کی پروگرام "اسپاٹ لائٹ" میں خصوصی گفتگو
اپ ڈیٹ 06 مارچ 2023 11:17pm
Exclusive interview of President Arif Alvi - Spot Light with Munizae Jahangir

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات ہوجائیں گے۔

آج نیوز کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان اور سینئیر صحافی منیزے جہانگیر کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کیلئے صرف 8 مارچ کو بات ہوتی ہے، ان کے حقوق کیلئے سارا سال بات کیوں نہیں ہوتی؟

منیزے جہانگیر نے صدر عارف علوی سے سوال کیا کہ ’جب آٹھ مارچ آرہا ہے اور عورتوں نے اپنے جلسے جلوس کرنے ہیں تو اُن کو این او سی ہی نہیں مل رہا، نہ اسلام آباد میں مل رہا ہے نہ لاہور میں مل رہا ہے، تو مجھے یہ بتائیے کہ عورتوں کو انٹرنیشنل ویمن ڈے پر اپنے حق کے لیے نکلنے کی آزادی ہونی چاہیے، اجازت ہونی چاہیے؟

جس پر صدر مملکت نے جواب دیا کہ میں عورتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ کیا آٹھ مارچ کو ہی بحث ہو گی آکر، سارا سال کیوں نہیں ہوتی؟

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تھیوری بہت ہے، قانون بہت ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کرنے والے بہت کم ہیں، یہی عورتوں کے حوالے سے ہوتا ہے، کیونکہ یہ کنزرویٹیو (قدامت پسند) ملک ہے تو میں اپنی بحث کو اسلامی تاریخ سے بھی ملاتا ہوں کہ قرآن نے، اللہ سبحانہُ وتعالیٰ اور نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو جائیداد کے حقوق دئے جو اس زمانے میں نہیں تھے۔ بی بی خدیجہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا ایک بزنس ویمن تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام نے پورے اختیارات عورت کو دئے، جس میں وراثت، کاروبار کرنے کی اہلیت، رائے لینا شامل ہے۔ رکاوٹ یہ ہے کہ ثقافتی طور پر ہم نے ان حقوق کو دینے سے انکار کیا ہے۔

صدر ملکت نے کہا کہ پاکستان میں قانون موجود ہے ، اس کو مزید مستحکم کیا گیا ہے، رکاوٹ یہ ہے کہ عورت یہ سارے کام کرے تو مرد اسے ہراساں کرے، اب کام یہ کرنا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بھی جھانک کر دیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عورت کو معیشت میں شامل کرنے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن ایک اچھا زمانہ ہے، وہ گھر بیٹھ کر کام کر سکتی ہے اسے باہر جانے کی ضرورت بھی نہیں۔

صدر عارف علوی نے کہا کہ صرف ایک طبقہ ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ یہ مغربی ثقافت کو شامل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ باقی سب اسے عورتوں کے حقوق کے حق میں سمجھتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سڑکوں پر دو سوچوں کے تصادم سے تبدیلی نہیں آئے گی۔

منیزے نے کہا کہ یہ سب باتیں ہوتی ہیں جب وہ آکر احتجاج کرتی ہیں، ان کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ سڑکوں پر آکر اپنی بات کر سکیں؟

جواباً صدر علوی نے کہا کہ ’آپ کا خیال ہے، میرا خیال ہے کہ بغیر احتجاج کے میں نے عورتوں کے حوالے سے سارا علم حاصل کیا ہے۔‘

ملک میں بڑھی آبادی کے سوال پر صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان میں ایک سال میں نوے لاکھ حمل ٹہرتے ہیں، جن میں سے پچاس فیصد ان وانٹڈ (خواہش کے بنا) ہوتی ہیں کیونکہ انہیں مانع حمل نہیں ملا، وہ خود جاکر بازار سے مانع حمل مصنوعات لے لے سکتے ہیں لیکن شرماتے ہیں، مارکیٹ اور گاہک موجود ہے لیکن ہم انہیں سہولیات فراہم نہیں کر پارہے۔

انہوں نے کہا کہ مولویوں نے اس حوالے سے کبھی نہیں روکا وہ ہمارے ساتھ ہیں، بس ریاستی پالیسیاں عوام تک نہیں پہنچ پارہیں۔

30 اپریل کو انتخابات پر الیکشن کمیشن کے صدر مملکت سے رابطہ کرنے اور مشکلات بیان کرنے کے سوال پر عارف علوی نے کہا کہ ’مجھ سے تو ایسا کوئی ڈسکشن (بات چیت) نہیں ہوا‘، میں نے اپنے پہلے خط میں اس کی مثالیں بھی دی تھیں۔ امریکا میں سول وار کے باوجود الیکشنز ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس الیکشنز کے لیے پیسے ’بالکل ہیں‘۔

اس سوال پر کہ کیا پنجاب میں تیس اپریل کو الیکشن ہوجائیں گے؟

صدر مملکت نے کہا کہ ’مجھے تو بالکل یقین ہے‘۔

اس دوران رکاوٹ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’مجھے رکاوٹ تو اُس وقت بھی نظر نہیں آئی جو 1977 میں بھٹو صاحب کی حکومت ہٹائی گئی تھی، جو آمر آیا ہے اس نے کہا میں نوے دن میں انتخابات کراؤں گا ، اگر آپ الیکشن کے ساتھ کھیل کریں گے تو پھر گیارہ سال لگیں گے، الیکشن کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر معیشت کمزور ہے تو الیکشن اور ضروری ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے کا اختیار اس حکومت کو دیا جائے جس کے پاس مینڈیٹ ہے۔

منیزے نے سوال کیا کہ میرا خیال ہے ایک مشاورت آپ کے ساتھ بھی ہو رہی تھی کہ موجودہ حکومت چاہتی تھی کوئی ایسی انڈرسٹینڈگ قائم ہو جائے تحریک انصاف کے ساتھ، کہ جو صوبائی انتخابات ہونے ہیں اُن کو تھوڑا آگے کر لیا جائے ، اور جو عام انتخابات ہیں ان کو تھوڑا پیچھے کر لیا جائے ، یعنی ستمبر میں تمام انتخابات ہو جائیں؟

جس پر صدر پاکستان نے کہا کہ ’میرے ساتھ تو ایسی کوئی مشاورت نہیں ہوئی ، میں تو ایک سال سے کہہ رہا ہوں کہ انتخابات کرلو، دو چار مہینے پہلے کر لو، بیٹھ کر بات کر لو، یہاں تو کوئی بات کرنے کا روادار ہی نہیں۔‘

منیزے نے پھر پوچھا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ کوئی بات کرنے کو روادار نہیں ہے، آپ دونوں طرف دیکھ رہے ہیں؟ ن لیگ اور تحریک انصاف کی طرف سے؟

تو صدر علوی نے کہا کہ ’میں تو پچھلے دو مہینے سے کہہ رہا ہوں کہ حکومت اس وقت بات کرنے کی رودار نہیں ہے، کیونکہ تحریک انصاف کی طرف سے ایک لچک کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں میرا ہاتھ ضرور تھا، ایک لچک کا مظاہرہ کیا گیا کہ بات تو کرو ، یہ جو رواداری والی بات میں کہہ رہا ہوں یہ تین چار مہینے سے حکومت کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔‘

سوال: حکومتی نمائندے باربار ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ ہم شرائط کے بغیر بات کرنے کے لیے تیار ہیں ، اگر یہ شرط لگادی کہ ہم انتخابات کے لیے یہ تاریخ سیٹ کرتے ہیں ، تو پھر ہم بات کرنے کے لیے تیار نہیں؟

جواباً صدر مملکت نے کہا کہ ’بات نہ کرنے کے بہت سارے بہانے ہو سکتے ہیں ، کتنا شرمناک ہے ، ملکی تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ اس نے یہ شرط لگائی لہذا ہم نے بات نہیں کی ، شرم کی بات ہے ، میں نے کونسا کہا تھا کہ خان صاحب اور نواز شریف صاحب بات کریں، میں تو کہہ رہا تھا کسی لیول پر تو بات کرو۔‘

منیزے نے کہا کہ اس کی کچھ شروعات آپ نے کرائی تھی؟ جس پر صدر پاکستان نے کہا کہمیں صرف کہتا رہا تحریر تک کوئی نوبت نہیں آئی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی بھی بات کرنے کو نہیں بیٹھا دیکھو کتنی بد قسمتی ہے ، قوم توقع کرتی ہے کہ معاملات درست کرو، بات چیت کرو، ہر چیز کے لیے سپریم کورٹ جانا ، یہ بدقسمتی ہے، جو ترقی یافتہ قومیں ہوتی ہیں وہ اپنے تنازعات کو حل کرتی ہیں ،طول نہیں دیتی، اتنا تصادم نہیں ہوتا ،لیڈرشپ میں پولرائزیشن کی وجہ سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، جب ضرورت تھی تو بات بھی نہیں کی گئی ، آپس میں سازشیں کرنا میں اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔

منیزے: آپ نے بات بڑی دلچسپ کی ہے کہ بار بار سپریم کورٹ جاتے ہیں ، جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جاتا ہے تو آپ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب صدر صاحب نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں جو تاریخ دی تھی شاید وہ غلط دی تھی ، وہ ٹھیک نہیں تھی ، پنجاب میں جوتاریخ دی تھی وہ درست دی تھی۔

صدر نے جواب دیا کہ ’میری پریشانی یہ نہیں تھی کہ میں اس باریکی میں جاؤں، میری پریشانی یہ تھی کہ اگر انتخابات آئین کے مطابق نہ ہوئے تو آئین کا مس کیرج ہو جائے گا، ورنہ بہت سارے ممالک کی میں آپ کو مثال دے دوں کہ الیکشن ٹالے اور ٹلنے کے بعد ابھی تک الیکشن نہیں ہوئے ، یہ میرا خوف تھا ، اگر مجھے الیکشن اور جمہوریت کے لیے سڑک پر آکر بھی جدو جہد کرنی پڑے تو میں ابھی بھی تیار ہوں ، میرے آئین کا انحصار جمہوریت پر ہے ، آپ حکومت کے ہاتھ میں ڈنڈا دیجیے تو دیکھیے حکومت کا فوکس کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے افسوس ہوتا ہے وہ یہاں جائے گا اس کو پکڑو، قانون ہے اس پر فٹ نہیں ہوتا تو اس پر کھینچ کر لگادو، یہ آپس کی گفتگو کسی کی بھی، کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ میری آڈیو ریکارڈ کرے ، کیوں کرے بھائی، چاہے حکومت کرے یا ایجنسی کرے مجھے اس کو سننا ہی نہیں چاہیے، ٹی وی کو نہیں چلانا چاہیے، میں عوام سے اپیل کروں گا کہ ان آڈیو اور ویڈیو لیکس کو بالکل نہ دیکھیں۔‘

پولرائزیشن کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی اچھی ریلیشن شپ نہیں تھی ، دیکھو ملک لٹتا رہے اور مروتوں کے ساتھ باتیں چلتی رہیں، یہ میرے لیے بھی تکلیف دہ ہے ، سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرپشن اس ملک کو گھن کی طرح کھا گیا ، آپ آئی ایم ایف کا قرضہ اس لیے لے رہی ہیں کہ ملک میں کرپشن نہیں اور سب کچھ ٹھیک ہے، نہیں ہمارے ملک میں کرپشن رہی ہے، یہ ملک اس وقت ہل رہا ہے ، یہ ہل اس وجہ سے رہا ہے سب کہتے ہیں کہ کرپشن ہے لیکن مجال ہے کسی کو سزا مل جائے۔ کسی کا نام یاد آتا ہے جس کو سزا ملی ہو؟ ایک ایڈمرل صاحب کو ملی تھی اُن کو بھی امریکہ میں ملی تھی، پاکستان میں نہیں ملی۔ پاکستان میں بڑے آدمیوں کو سزائیں نہیں ملتی ہیں، جب تک گھر کو درست نہیں کریں گے۔ میری اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ ’آپ کیا تجویز کرتے ہیں کہ موجودہ اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ کیسے معاملات آگے لے کر بڑھا جائے؟‘

صدر مملکت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ الیکشن ہوں، ایک اچھی جمہوریت ہی اس معاملے کو ہینڈل کر سکتی ہے۔

منیزے نے سوال کیا کہ ’جب آپ کہتے ہیں جمہوریت کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور الیکشن پر آپ نے زور ڈالا کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہیے ، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صرف حکومت انتخابات ملتوی کرنا چاہتی ہے یا پھر اسٹبلیشمنٹ بھی چاہتی ہے؟‘

صدر عارف علوی نے کہا کہ میں تو سمجھتا ہوں پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل صرف پندرہ سال ہی رہا، دوہزار آٹھ سے لے کر ابھی تک پندرہ سالوں میں بھی الزامات یہ ہیں کہ ہم کسی کو پروموٹ کر کے لائے، پھر الزامات ہیں کہ کسی نے ان کو سازش کرکے ہٹایا، یہ سب کچھ پندرہ سال کی جمہوریت میں ہوا اور کہاں ہم پچھتر سال کی جمہوریت کے مستحق تھے ، جب جمہوریت کا ٹرانزیشن ہوا تو ہم نے خوشیاں منائیں کہ ٹرانزیشن 2013 میں ہوا ، دوسرا پُرامن ٹرانزیشن 2018 میں ہوا، یہ بہت ضروری ہے کہ اس تسلسل کو برقرار عارف علوی کی ذمہ داری تو ہے ہی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سے مجھے دو تین مہینے سے خوف تھا تو میں نے کھل کر عمران خان صاحب سے کہا کہ مجھے صوبائی انتخابات کی نہیں بلکہ اکتوبر کے انتخابات کی فکر ہونے لگی ہے، جب سیاستدانوں نے ٹی وی پر آکر بحث کی مجھے بڑی پریشانی ہوئی۔

سوال ہوا کہ ’اب آپ کو پریشانی ہے کہ اکتوبر میں عام انتخابات ہو جائیں گے۔‘ تو جواب ملا کہ نہیں میرے پریشانی کم ہوتی گئی کہ سپریم کورٹ نے بڑی واضح ہدایت دی ہے۔

منیزے نے کہا کہ ’میاں صاحب آپ کے مخالف تو ہوں گے لیکن جس بات پر اُن کو سزا دی گئی وہ باسٹھ تریسٹھ کا قانون ہے‘، صدر مملکت نے کہا کہ میں تو باسٹھ تریسٹھ سے اتفاق کرتا ہوں۔

منیزے: انہوں (عمران خان) نے آپ کو خط لکھا ہے بطور سپریم کمانڈر آف آرمڈ فورسز۔

صدر: بڑا اچھا لیبل لگتا ہے یہ ایسے ایک مسکراہٹ آتی ہے۔

منیزے جہانگیر نے کہا کہ تحریک انصاف نے حال ہی میں استعفے دئیے ہیں، 2014 میں بھی استعفے دئیے تھے، اب عدالتوں میں جا رہے ہیں کہ ہمارے استعفے واپس لئے جائیں، میں نے آپ کا انٹرویو پڑھا کہ اگر میرے ساتھ مشاورت کرتے تو میں کہتا کہ استعفے مت دو۔

جس پر صدر علوی نے کہا کہ میں یہی کہتا اور اگر مشاورت کرتے تو میں اور واضح طور پر کہہ دیتا ، یہ سیاسی فیصلے ہوتے ہیں۔

اس سوال پر کہ ’آگے بڑھتے ہوئے صدر پاکستان کچھ ایسا کریں گے کہ یہ حکومت ،تحریک انصاف اور اسٹبلیشمنٹ ایک ہی پیج پر آجائیں ملک کے مفاد کے لیے؟‘

صدر پاکستان نے کہا کہ ’ہونا چاہیے‘۔

منیزے نے پھر پوچھا کہ آپ کی طرف سے کوئی کوششیں ہو رہی ہیں؟

جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، میں کھل کر پیغام دے رہا ہوں کہ ایک پیج پر آؤ، سب لوگ بیٹھو، ملک کے مفاد میں ہونا چاہیے۔

منیزے نے پوچھا کہ ’آپ نے کہا ناں کہ ابھی بات چیت نہیں ہو رہی ، بیک چینلز میں کوئی بات نہیں ہو رہی ، مکمل خاموشی ہے؟

تو صدر علوی نے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے‘۔

منیزے نے سوال کیا ’اسٹبلیشمنٹ کی طرف سے؟‘

جواباً صدر نے کہا کہ ’میں اسٹبلیمشنٹ کے ساتھ یہ باتیں نہیں کر رہا ، جب سے اسٹبلیشمنٹ نے کہا ہے کہ ہم سیاست میں نہیں ہیں ، تو میں نے اسٹبلیشمنٹ سے کوئی بات نہیں کی۔‘

President Arif Alvi

Establishment

Elections

Aurat March 2023