لاہور ہائیکورٹ نے دو فوجی افسران کی برطرفی کالعدم قرار دے دی
لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے دو فوجی افسران کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا۔
ڈان ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مرزا وقاص رؤف نے دونوں فوجی افسران کی برطرفیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔
ہائیکورٹ نے برطرفی کالعدم قرار دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ برطرفی کے احکامات سپریم کورٹ کی جانب سے مصطفیٰ امپیکس کیس میں عائد کردہ قانون کے مطابق جاری نہیں کیے گئے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے قرار دیا تھا کہ فوجی افسران کو صرف وفاقی حکومت کی منظوری سے برطرف کیا جاسکتا ہے، ساتھ ہی لفظ حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ اس سے مراد وزیراعظم اور کابینہ ہے۔
ایک افسر کے وکلا نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا کہ ان کے مؤکل نے 1987 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 28 نومبر 2017 کو ملٹری انجینئرنگ سروسز میں ڈائریکٹر ورکس کا منصب سنبھالا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈائریکٹر آف ورکس فوج، بحریہ اور فضائیہ تینوں میں انتہائی سینیئر پوزیشن ہے اور مذکورہ افسر کو اکتوبر 2018 میں ریٹائر ہونا تھا لیکن چونکہ وہ 3 سال کے ڈیپوٹیشن پر تھے اس لیے ان کی مدت ملازمت کو ڈیپوٹیشن ختم ہونے کی مدت تک توسیع دے دی گئی تھی۔
درخواست میں مزید بتایا گیا کہ 2018 کے مالی سال کے اختتام پر ایک ارب 63 کروڑ روپے کی رقم ایسی بچی تھی جو استعمال نہیں کی گئی تھی اور مذکورہ افسر اس رقم کو قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند تھے۔
تاہم اس وقت پاک بحریہ کے سربراہ نے انہیں 2 ارب سے زائد رقم نیوی کے ریٹائرڈ افسران کے لیے ایک رہائشی منصوبے کے لیے منتقل کرنے کی ہدایت کی۔
درخواست کے مطابق فوجی افسر کو کہا گیا کہ بچ جانے والی رقم قومی خزانے میں جمع نہ کرائیں اور اگر انہوں نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی تو انہیں نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار نے بتایا کہ رقم کو رہائشی منصوبے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کے لیے اراکین کے تعاون سے فنڈ اکٹھے کیے جانے تھے۔
تاہم درخواست گزار کے انکار پر نیوی انٹیلی جنس نے انہیں حراست میں لے لیا، جس کے بعد انہیں جی ایچ کیو ٹرانسفر کردیا گیا جہاں سے بعدازاں انہیں ملازمت سے نکال دیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اور مصطفیٰ امپیکس کیس میں ایک افسر کو صرف وفاقی حکومت ملازمت سے برطرف کرسکتی ہے۔
عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل خالد پرویز نے بتایا کہ افسر کی برطرفی کے لیے وزیراعظم سے منظوری لی گئی تھی۔
تاہم عدالت نے کہا کہ برطرفی کے لیے وفاقی کابینہ سے کوئی منظوری نہیں لی گئی اور افسر کی برطرفی کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے فوجی حکام کو ہدایت کی تمام قانونی کارروائیاں مکمل کر کے ان کی برطرفی کا عمل شروع کیا جائے۔
دوسری جانب فوجی حکام نے مبینہ مس کنڈکٹ پر ایک اور افسر کو برطرف کیا تھا۔
ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ افسر کو پاک آرمی ایکٹ اور سپریم کورٹ کے مقرر کردہ طریقہ کار کے تحت نہیں ہٹایا گیا۔
جس کے بعد عدالت نے ان افسر کی برطرفی بھی کالعدم قرار دے دی۔
Comments are closed on this story.