شرح سود اور افراطِ زر کیا بلا ہے، پیسہ خرچ کرنے سے پہلے جان لیں
پاکستان کے مرکزی بینک نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے بعد شرح سود 17 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوگئی ہے۔ جو کہ اکتوبر 1996 کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ شرح سود ہے۔
درج بالا جملے نے جہاں پڑھے لکھوں کو دیوار میں سر مارنے مجبور کیا ہے وہیں، ایک عام شخص کو سر کھجانے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا یہ شرح سود کیا بلا ہے اور اس سے انہیں کیا فرق پڑنے والا ہے۔
ظاہر ہے، ہر کسی کے پاس میکرو اکنامکس میں ڈگری تو نہیں ہوتی، (ہے تو ہمارے پاس بھی نہیں) اس لیے ان بڑے اور اہم حکومتی فیصلوں کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن، خوش قسمتی سے، ہمارے پاس بزنس ریکارڈر ہے اور بزنس ریکارڈر میں ہمارے وہ چیتے ساتھی، جو ان چیزوں میں مہارت رکھتے ہیں، اور ہمیں بھی انہوں نے ہی ہمیں سر کھجانے سے بچا کر سر دیوار میں مارنے پر مجبور کیا۔
بھئی، بھلا یہ تسلیم کرنے میں شرم کیسی کہ ہمیں بھی اس معاملے کو سمجھنے میں مشکل پیش آئی۔
تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان جو پاکستان کا مرکزی بینک ہے، تجارتی بینکوں کو پالیسی بینچ مارک فراہم کرتا ہے، یعنی پالیسی دیتا ہے کہ ایسے اور ان اقدامات کے تحت چلنا ہے۔
آج اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 3 فیصد یا 300 بیسس پوائنٹس (bps) کا اضافہ کیا ہے۔
اس کے تین مطلب ہوں گے اور تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔
اوّل، مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافے کا جواز یہ پیش کیا کہ افراط زر بڑھ رہا ہے۔ فروری میں افراط زر کی شرح 31.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
یعنی ہر وہ چیز جو آپ نے فروری 2022 میں 100 روپے کے گلابی نوٹ سے خریدی تھی، اب فروری 2023 میں اس کی قیمت 131.5 روپے ہے۔
یہ افراطِ زر کو سمجھنے کا ایک آسان طریقہ ہے، اس تناظر میں، افراطِ زر کا مطلب قیمتوں میں اضافہ لے لیں۔
دوم، افراط زر کے بارے میں سمجھنے کا دوسرا طریقہ رقم کی فراہمی کے لحاظ سے ہے، یعنی لوگوں کے پاس موجود رقم کی مقدار۔
اگر زیادہ لوگوں کے پاس پیسہ موجود ہے اور وہ کسی پروڈکٹ کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں، تو بیچنے والا لامحالہ زیادہ قیمت کا مطالبہ کرے گا۔
لیکن اگر حکومت لوگوں کو اپنے پاس موجود رقم خرچ نہ کرنے کے لیے کچھ ترغیبات پیش کرتی ہے، تو خریدار کم ہوں گے اور گردش میں موجود رقم کم ہو جائے گی۔ اس طرح بیچنے والے کو مصنوعات کی قیمت کم کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
آسان الفاظ میں اگر حکومت لالچ دے کر لوگوں کو پیسہ خرچ کرنے سے روک دے تو لوگ کچھ خریدیں گے نہیں، جب کچھ منہ مانگے داموں پر بکے گا ہی نہیں تو دکاندار چیزیں بیچنے کیلئے پیسے کم کردے گا۔
اب یہ حکومتی ترغیب یا لالچ ایک بھاری شرح سود کی شکل میں آتی ہے۔
شرح سود میں اضافے کا سیدھا مطلب ہے کہ حکومت آپ سے کہہ رہی ہے کہ اپنا پیسہ خرچ نہ کریں اور اسے بینکوں میں رکھیں اور اس کے بدلے میں بینک آپ کو زیادہ سود یا منافع ادا کریں گے۔
اس طرح حکومت قیمتوں یا مہنگائی کو کم رکھتی ہے۔
سوئم، چونکہ ہر کوئی اسٹیٹ کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، اس لیے اب تمام بینک لوگوں کو دیے گئے قرضوں پر کم از کم 3 فیصد اضافہ کریں گے۔ لہٰذا، بینکوں سے قرض لینے والے اب مساوی ماہانہ قسطوں (EMIs) کی مد میں زیادہ ادائیگی کریں گے۔
مثال کے طور پر، اگر آپ کے پپّا نے پانچ سال کے لیے بینک سے 10 لاکھ روپے کا قرض لیا ہے، تو سود کی شرح بڑھنے کے بعد اس کی ماہانہ ادائیگی 32,353 روپے سے بڑھ کر کم از کم 34,220 روپے ہو جائے گی۔
انہیں اب اپنے کچھ خرچے کم کرکے 1,867 روپے کا اضافی جگاڑ کرنا ہوگا جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے درمیان ایک مشکل کام ہو سکتا ہے۔
ہم نے یہاں اسی مسئلہ کی تھوڑی وضاحت کی ہے۔
سود کی شرح کریڈٹ کارڈز کو بھی متاثر کرتی ہے، اس لیے لوگ اب کسی چیز کی ادائیگی کے لیے اسے نکالنے سے پہلے تھوڑی دیر سوچیں گے۔
یہ کار اور ہاؤس فنانسنگ کے اختیارات جیسی چیزوں کو بھی متاثر کرتی ہے، اس لئے کار لون (گاڑی لینے کیلئے لیا گیا قرضہ) کی زیادہ رقم ادائیگی لوگوں کو گاڑی خریدنے سے روک سکتی ہے۔
اگر لوگ گاڑیاں خریدنے میں ہچکچاہٹ دکھائیں تو قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔
شرح سود اپنے ساتھ جو خطرہ لاتی ہے وہ معیشت کو سست کر رہا ہے۔
خریداروں کی تعداد اس حد تک کم ہو سکتی ہے کہ کوئی اقتصادی سرگرمی (خرید و فروخت) نہیں ہوتی۔ اب بینکوں کو لوگوں کو کم رقم خرچ کرنے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ کوئی حل بھی تلاش کرنا ہوگا کہ عوام بالکل ہی خرچ کرنا بند نہ کردیں، ایسا نہ ہو کہ تمام معاشی سرگرمیاں ہی رک جائیں۔
اب جب کہ لوگ پہلے سے ہی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کم تنخواہوں سے خرچہ کم کرنے کے درپے ہیں، دیکھنا یہ باقی ہے کہ کیا جمعرات کو کئے گئے اسٹیٹ بینک کے اعلان سے مہنگائی پر کوئی اثر پڑے گا۔
Comments are closed on this story.