Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

پاکستانی پولیس دہشتگردوں کا خصوصی نشانہ، وجہ کیا ہے؟

’پروپیگنڈا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہے اور ٹی ٹی پی اس میں کامیاب ہو رہی ہے‘
شائع 27 فروری 2023 06:30pm
9 فروری 2023، ایک پولیس آفیسر پولیس لائنز ایریا پشاور میں گاڑی کے ہڈ کو چیک کر رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
9 فروری 2023، ایک پولیس آفیسر پولیس لائنز ایریا پشاور میں گاڑی کے ہڈ کو چیک کر رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

فیضان اللہ خان اپنی قابلِ بھروسہ ساتھی ”طیارہ شکن بندوق“ کے ساتھ ایک پولیس چوکی پر ریت کی بوریوں کے ڈھیر کے پیچھے کھڑے ہیں، جو شمال مغربی پاکستان کی غیر سرکاری سرحد کے ساتھ بنائی گئی ہے، یہ علاقہ ملک کے شورش زدہ سابقہ قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے اور فیضان اللہ خان چوکی پر کھڑے علاقے کو بغور دیکھ رہے ہیں۔

فروری کی اس سرد اور بارش والی صبح، ان کی آنکھیں کسی ہوائی جہاز کو نہیں بلکہ اپنی فورس، خیبر پختونخواہ پولیس پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔

 9 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان کے مضافات میں، سربند پولیس اسٹیشن کی چھت پر 12.7mm کی انفنٹری مشین گن کے ساتھ ایک پولیس افسر پوزیشن لیے ہوئے  (روئٹرز/فیاض عزیز)
9 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان کے مضافات میں، سربند پولیس اسٹیشن کی چھت پر 12.7mm کی انفنٹری مشین گن کے ساتھ ایک پولیس افسر پوزیشن لیے ہوئے (روئٹرز/فیاض عزیز)

وہ اپنے روایتی بستر پر بیٹھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر خان نے روئٹرز کو بتایا کہ دن کا وقت تھا، اس لیے وہ تھوڑا آرام کر سکتے تھے۔

انہوں نے منظور شہید نامی اس چوکی پر برسائی گئی گولیوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’لیکن رات اپنے ساتھ ایک مختلف کہانی لے کر آئی۔‘

منظور برسوں پہلے باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے ان کے ایک ساتھی کا نام تھا۔

یہ چوکی ان درجنوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے میں موجود خفیہ ٹھکانوں سے پاکستانی پولیس پر تازہ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف دفاع فراہم کرتی ہے۔

یہ علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ ہے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں بڑھتی شورش کی انتہا گزشتہ ماہ پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں دکھائی دی، جس میں 80 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے ذمہ داری قبول کی۔

 پولیس لائنز ایریا، پشاور، پاکستان، 9 فروری 2023 کو ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تصاویر والا ایک بل بورڈ۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
پولیس لائنز ایریا، پشاور، پاکستان، 9 فروری 2023 کو ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تصاویر والا ایک بل بورڈ۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

رواں ماہ شمال مغربی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے، رائٹرز نے پولیس چوکیوں تک رسائی حاصل کی اور ایک درجن سے زائد لوگوں سے بات کی، جن میں اعلیٰ پولیس حکام بھی شامل ہیں۔

 ایک پولیس افسر 9 فروری 2023 کو، پشاور، پاکستان کے مضافات میں، اچینی کی چوکی پر ایک گیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
ایک پولیس افسر 9 فروری 2023 کو، پشاور، پاکستان کے مضافات میں، اچینی کی چوکی پر ایک گیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

ان میں سے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ کس طرح پولیس فورس کو دہشتگرد حملوں اور وسائل کی کمی کے باعث نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پاکستانی حکام ان چیلنجز کو تسلیم کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ دگرگوں معاشی حالات کے باوجود فورس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’دہشتگردوں کے سامنے رکاوٹ‘

یہاں کی پولیس برسوں سے کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں سے نبرآزما ہے، اور اسی لڑائی میں 2001 سے اب تک 2100 سے زیادہ اہلکار شہید اور 7 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔

لیکن پولیس کبھی بھی دہشتگردوں کی کارروائیوں کا مرکز اس طرح نہیں بنی جیسا کہ آج ہے۔

منظور شہید چوکی کو کنٹرول کرنے والے سربند اسٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جمیل شاہ ان دہشتگدروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ، ’ہم نے ان کا پشاور جانے کا راستہ روک دیا ہے۔‘

 سربند پولیس اسٹیشن میں 40 سالہ جمیل شاہ دو پولیس افسران کے درمیان کھڑے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
سربند پولیس اسٹیشن میں 40 سالہ جمیل شاہ دو پولیس افسران کے درمیان کھڑے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

مقامی پولیس کے مطابق، سربند اور اس کی آٹھ چوکیوں کو حالیہ مہینوں میں چار بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے ساتھ ہی چوکیوں کو بھاری فائرنگ اور اسنائپر فائر کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

خیبرپختونخوا میں پولیس ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے بڑھ کر 119 ہو چکی ہے، جو 2021 میں 54 اور 2020 میں 21 تھی۔

رواں سال اب تک تقریباً 102 افراد مارے جا چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں مارے گئے جبکہ کچھ دوسرے حملوں میں جان گنوا بیٹھے۔

اس کے علاوہ دہشتگردوں نے 17 فروری کو کراچی میں ایک پولیس دفتر پر دھاوا بولا، سیکیورٹی فورسز نے عمارت پر قبضہ واپس حاصل کرنے کے بعد تین حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔

ٹی ٹی پی گروہ، جسے ”پاکستانی طالبان“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افغان طالبان سے وفاداری کا عہد تو کرتا ہے لیکن وہ براہ راست اس گروپ کا حصہ نہیں ہے جو کابل میں حکومت کرتا ہے۔ اس کا بیان کردہ مقصد پاکستان میں اسلامی مذہبی قانون نافذ کرنا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان محمد خراسانی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج تھی، لیکن پولیس اس کے مقصد کے راستے میں کھڑی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو کئی بار کہا گیا ہے کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالیں، پولیس نے اس پر دھیان دینے کے بجائے ہمارے ساتھیوں کو شہید کرنا شروع کر دیا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

فوج کے تعلقات عامہ کے ونگ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فوج نے خیبرپختونخوا پولیس کے ساتھ مل کر آپریشنز کئے ہیں اور ٹی ٹی پی کے حملوں کا سامنا کیا ہے، اس سال صوبے میں ایک فوجی کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔

 جمیل شاہ سربند پولیس سٹیشن کی دیوار پر ایک گولی کے سوراخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
جمیل شاہ سربند پولیس سٹیشن کی دیوار پر ایک گولی کے سوراخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

دسمبر میں، ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو جاری کی جسے مبینہ طور پر اس کے ایک دہشتگرد نے دارالحکومت اسلام آباد کے آس پاس کے پہاڑوں سے ریکارڈ کیا، جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت دکھائی گئی۔

اس نامعلوم دہشتگرد کے پاس موجود ایک نوٹ میں درج تھا ”ہم آرہے ہیں“۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اس کے جنگجو اپنے اثر و رسوخ والے موجودہ علاقوں سے باہر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ’پروپیگنڈا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہے اور ٹی ٹی پی اس میں کامیاب ہو رہی ہے‘۔

آسان ہدف

خیبرپختونخوا پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں، لیکن وسائل کی کمی کی طرف اشارہ بھی کیا۔

سربند اسٹیشن کے شاہ نے کہا، ’سب سے بڑا مسئلہ اہلکاروں کی تعداد ہے، جو کافی کم ہے۔‘ اسٹیشن اور آٹھ منسلک چوکیوں میں ڈرائیور اور کلرک سمیت 55 افراد ہیں۔

’یہ ایک ٹارگیٹ علاقہ ہے، اور ہم (عسکریت پسندوں) کے ساتھ بالکل منہ در منہ ہیں۔‘

روئٹرز کے سربند دورے سے چند دن پہلے، دہشتگردوں نے اسٹیشن کے باہر گھات لگا کر ایک پولیس افسر پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے پولیس افسر شہید ہوگیا۔

اس حملے سے دہشتگردوں کے جدید فائر پاور کا اندازہ بھی ہوا، جنہوں نے شاہ کے مطابق، اندھیرے میں افسر کو نشانہ بنانے کے لیے تھرمل چشموں کا استعمال کیا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، تقریباً ایک سال قبل ٹی ٹی پی نے اپنے اسنائپرز کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جو تھرمل امیجنگ کا استعمال کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے شورش کے بارے میں روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب تو نہیں دیا، لیکن رواں ماہ مقامی ٹی وی کو بتایا کہ دہشتگرد پولیس کو ”سافٹ ٹارگٹ“ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پولیس کے عوامی کردار نے پولیس تنصیبات میں گُھسنا آسان بنا دیا تھا۔

ایک صحافی اور دہشتگردوں پر کتابوں کے مصنف زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے وسائل اور تربیت کے پیش نظر فوج سے زیادہ کمزور ہے۔

’میرا مطلب ہے، وہ وہاں آسان ہدف ہیں۔‘

’مہلک ہتھیار‘

خیبر پختونخواہ پولیس کے سابق سربراہ معظم جاہ انصاری نے رواں ماہ روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ عسکریت پسندوں کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ آپریشن کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے اور زیادہ مہلک ہتھیار تلاش کرتے ہیں۔‘

 56 سالہ معظم جاہ انصاری، جو خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ تھے، 8 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان میں اپنے دفتر میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
56 سالہ معظم جاہ انصاری، جو خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ تھے، 8 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان میں اپنے دفتر میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

پولیس حکام کے مطابق دہشتگردوں نے امریکی ساختہ ایم 4 رائفلیں اور دیگر جدید ترین ہتھیار مغربی افواج کے ذخیرہ سے حاصل کیے ہیں جو 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے وقت پیچھے چھوڑ دئے گئے تھے۔

کچھ پولیس گارڈز نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنی چوکیوں پر چھوٹے جاسوس ڈرون اڑتے ہوئے دیکھے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان خراسانی نے تصدیق کی ہے کہ گروپ نگرانی کے لیے ڈرون استعمال کر رہا ہے۔

سربند اسٹیشن کے متعدد پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور فوج نے جنگ میں مدد کے لیے جنوری کے آخر میں انہیں اور دیگر چوکیوں کو تھرمل چشمے فراہم کیے تھے۔ لیکن انہیں ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

شاہ نے سربند میں روئٹرز کو بتایا، ’ہمارے پاس دن کے تقریباً 22 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، چشموں کو چارج کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔‘

اسٹیشن کے سربراہ قیوم خان کے مطابق، اسٹیشن کی چھت پر ایک سولر پینل ہے، جسے نصب کرنے کے لیے افسران نے اپنی جیب سے ادائیگی کی۔

ایک پولیس اہلکار، جس نے تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا کہ پولیس اپنی گاڑیاں استعمال کرتی ہے یا اپنے چشموں کو چارج کرنے کے لیے بیک اپ جنریٹر سے لیس پٹرول اسٹیشن پر جاتی ہے۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے دیگر حفاظتی اقدامات کیے ہیں، جن میں اسنائپر فائر سے بچاؤ کے لیے دیواریں کھڑی کرنا، اور امریکی زیرقیادت فورسز کے پیچھے چھوڑے گئے سامان کو فروخت کرنے والے بازار سے بلٹ پروف شیشے کی خریداری شامل ہے۔

معاشی حالات

روئٹرز نے چار دیگر اعلیٰ حکام اور ایک درجن سے زیادہ نچلے درجے کے افسران سے بات کی، جن میں سے سبھی نے کہا کہ صوبائی فورس کو اس کے کلیدی کردار کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔

انہوں نے بھی تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہی بات کرنے آمادگی ظاہر کی۔

ان اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ مطلوبہ وسائل آنے والے نہیں تھے، اور ان کی تنخواہیں اور مراعات پاکستان میں دیگر جگہوں کے ہم منصبوں سے کمتر تھیں، فوج کو تو چھوڑ دیں۔

کیا پولیس کو مزید وسائل کی ضرورت ہے؟

نگراں حکومت کے انتظام سنبھالنے سے پہلے جنوری تک صوبائی وزیر خزانہ رہنے والے تیمور سلیم جھگڑا نے کہا، ’بالکل ہے‘۔

تیمور جھگڑا نے کہا کہ ان کی حکومت نے مالی رکاوٹوں کے باوجود تنخواہوں میں اضافے اور چشموں جیسے آلات کی خریداری میں پولیس کی جتنی مدد کی جا سکتی تھی کی۔

پاکستان کی قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ایک سال سے زبوں حالی کا شکار ہے، اور ملک ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کو اس کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے‘۔

سابق پولیس چیف معظم جاہ انصاری نے کہا کہ وسائل میں بہتری آئی ہے لیکن جب کوئی خطرہ سامنے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ مستقل حمایت حاصل ہو وقتی رد عمل ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے بھی اس کی وجہ معاشی حالات کو قرار دیا، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنا کہ کچھ لوگوں نے بتایا۔

’غصے کی شدت‘

اگست 2021 میں مغربی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد، پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں افغان طالبان کی ثالثی میں ایک ماہ کی جنگ بندی اور مذاکرات ہوئے۔

اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر افغانستان سے بہت سے دہشتگردوں کو پاکستان میں دوبارہ آباد کیا گیا۔

ٹی ٹی پی نے نومبر 2022 میں جنگ بندی ختم کر دی، اور اس کے فوراً بعد دوبارہ منظم ہونے والے دہشتگردوں نے پاکستان میں دوبارہ حملے شروع کر دیے۔

پشاور بم دھماکے کے بعد، پولیس اہلکاروں نے عوامی احتجاج کیا جہاں کچھ نے اپنی قیادت، صوبائی اور قومی حکومتوں اور یہاں تک کہ فوج کے خلاف غصے کا اظہار کیا، دہشتگردوں سے لڑنے کی پالیسی کے بارے میں مزید وسائل اور وضاحت کا مطالبہ کیا۔

معظم جاہ انصاری نے حملے کے بعد فورس میں ”گہرے نقصان کے احساس“ اور ”غصے کی شدت“ کا اعتراف کیا۔

پشاور دھماکے میں تباہ مسجد کے پیچھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر دولت خان اور آٹھ رشتہ دار تنگ پولیس کوارٹرز میں رہتے ہیں جس میں 25 مربع میٹر کی جگہ صرف ایک کمرہ ہے۔ اس کے ارد گرد گرتی ہوئی، دھماکے سے تباہ شدہ دیواریں ہیں۔

 لوگ جنوری میں پشاور پولیس لائنزمیں  ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
لوگ جنوری میں پشاور پولیس لائنزمیں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

انہوں نے صدیوں پرانے، برطانوی نوآبادیاتی دور کے کوارٹرز کی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’ہر کوئی پولیس کی قربانیوں کو دیکھ سکتا ہے، لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، آپ حالات اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔‘

مختلف لڑائی

پاکستان کی افواج نے مؤثر طریقے سے ٹی ٹی پی کو ختم کیا اور 2014 کے بعد سے اس کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو ایک سلسلہ وار کارروائیوں میں ہلاک کیا، جس سے زیادہ تر جنگجو افغانستان چلے گئے، جہاں وہ دوبارہ منظم ہوگئے۔

لیکن حالیہ مہینوں میں لڑائی کی نوعیت بدل گئی ہے، جس سے جزوی طور پر پتہ چلتا کہ فوج کے بجائے پولیس نشانے پر کیوں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد اب سابق قبائلی علاقوں میں اپنے اڈوں سے کام کرنے کے بجائے ملک بھر میں چھوٹے گروپوں میں اور شہری آبادی میں پھیل چکے ہیں۔

فوج کو جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی ایک اور شورش کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں علیحدگی پسند ریاستی انفراسٹرکچر اور چینی سرمایہ کاری کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزارت دفاع نے خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف مزاحمت میں مسلح افواج کے کردار کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

اس دوران، فلیش پوائنٹس سے میلوں دور پولیس گریجویٹس نوشہرہ کے وسیع ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں چھ ماہ کے کریش کورسز حاصل کرتے ہیں۔

 نوشہرہ، پاکستان، 10 فروری 2023 کو ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں ایک تربیتی سیشن کے دوران پولیس افسران راکٹ سے چلنے والے دستی بموں کو فائر کرنے کی مشق کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
نوشہرہ، پاکستان، 10 فروری 2023 کو ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں ایک تربیتی سیشن کے دوران پولیس افسران راکٹ سے چلنے والے دستی بموں کو فائر کرنے کی مشق کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

اہلکار بشمول خواتین، چھاپے مارنا، عمارتوں سے ریپل کرنا اور راکٹ سے چلنے والے دستی بموں اور طیارہ شکن بندوقوں کا استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔

لیکن ٹریننگ اسکول کی دیواروں سے پرے، وہاں کوئی دہشتگرد کیمپ نہیں ہے، حملے رات کو ہوتے ہیں، اور پولیس کی مدد کیلئے کوئی نہیں ہوتا۔

فیضان اللہ خان کہتے ہیں کہ، کچھ راتوں کو ان کی چوکی پر عسکریت پسند انہیں یا ان کے ساتھی محافظوں کو پکارتے ہیں۔ ’وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں، اپنے ہتھیار ڈال دو۔‘

انہوں نے کہا کہ گارڈز کبھی کبھار اندھیرے میں اپنی بندوقیں چلا کر جواب دے دیتے ہیں۔

TTP

KPK Police

Peshawar police lines blast Jan 2023

Peshawar Attack