بلوچستان: مقتول قراردی گئی خاتون گراں ناز اوربچوں کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا
بلوچستان میں بازیاب ہونے والی خاتون گراں ناز، اس کی بیٹی اور بیٹے کو آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
گزشتہ روز اغواء ہونے والی خاتون گراں ناز اور اس کے بچوں کو لیویز نے کوہلو اور دکی کے سرحدی پہاڑی علاقے سے بازیاب کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بارکھان واقعے میں نیا موڑ : مقتول قرار دی گئی گراں ناز تمام بچوں سمیت بازیاب
کوئٹہ میں ریڈ زون کے باہر مظاہرین کا دھرنا آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔
شرکاء کا کہنا ہے کہ بازیاب ہونے والی خاتون اور بچوں کو دھرنے میں لایا جائے۔
دوسری جانب کوئٹہ کی عدالت میں گزشتہ روز بارکھان واقعہ کیس کی سماعت ہوئی۔
مزید پڑھیں: بلوچستان کے وزیرعبدالرحمان کھیتران کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
عدالت نے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر کرائم برانچ کے حوالے کر دیا۔
بارکھان سے ملنے والی لاشیں کس کی ہیں؟ اس کی تفتیش جاری ہے۔
##واقعے کا پس منظر
21 فروری کو بلوچستان کے شہر بارکھان میں کنویں سے 3 لاشیں ملیں، جن میں ایک خاتون اور دو نوجوان تھے، تینوں افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا، اور خاتون کے چہرے کو مسخ بھی کیا گیا تھا۔
بارکھان واقعہ میں ابتدائی طور پر یہ بات سامنے اۤئی تھی کہ تینوں لاشیں کوہلو کے رہائشی خان محمد مری کی بیوی اور دو بیٹوں کی ہیں، اور یہ وہی خاتون ہے جس کی کچھ ہفتے قبل سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی تھی، اور وہ خاتون ہاتھ میں قرآن لئے بیان دے رہی تھی کہ وہ اور اس کی ایک بیٹی اور بیٹے صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں، جہاں اس کی بیٹی اور اس کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی۔
صوبائی وزیر عبدالرحمان کیتھران کی تردید
صوبائی وزیرعبدالرحمان کیتھران نے خود پر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میری کوئی نجی جیل ہے تو تحقیقات کریں، میں نے خود وزیراعلٰی بلوچستان سے کہا ہے کہ جے آئی ٹی بنائیں، جو بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اس کے سامنے پیش ہوں گا، لیکن تحقیقات کیلئے میں کیوں استعفیٰ دوں۔
عبدالرحمان کیتھران کا کہنا تھا کہ میری ساکھ کو جو نقصان پہنچا اس پرہرفورم پر جاؤں گا، کیا میں خود جاکر کہوں گا کہ میرے خلاف ایف آئی آر درج کرو، عجیب بات ہے، میرا نام ایک منظم سازش کے تحت لیا جارہا ہے۔
بارکھان واقعہ کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیےگئےتھے۔
واقعہ کی گونج بلوچستان اسمبلی میں بھی سنی گئی تھی، صوبائی وزرا اور سیاسی رہنماؤں نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سیاسی و سماجی حلقوں کی تنقید اور مظاہروں کے بعد پولیس نے بلوچستان کے وزیر مواصلات عبدالرحمان کھیتران کو گرفتار کرکے معاملے کی تفتیش شروع کی۔ گرفتاری سے قبل عبدالرحمان کھیتران کی رہائش گاہ پر چھاپے بھی مارے گئے تھے۔
Comments are closed on this story.