نواز لیگ نے سپریم کورٹ کے دو ججوں پر بڑا اعتراض کر دیا، بینچ سے الگ ہونے کا مطالبہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے دو ججز کو پارٹی کے خلاف کیسز سے علیحدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کردیا۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ن لیگ کا اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کو پارٹی کے خلاف مقدمات سےعلیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔
ن لیگ کے مشاورتی اجلاس میں قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو بریفنگ مؤقف اپنایا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نواز شریف کے خلاف مقدمے میں نگران جج رہے، جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف آڈیو لیک کا ناقابل تردید ثبوت سامنے آچکا ہے۔
قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے نواز اور شہباز شریف سے متعلق درجنوں مقدمات میں مخالفانہ فیصلے دئیے ہیں۔ پانامہ، پارٹی لیڈرشپ، پاک پتن الاٹمنٹ کیس، رمضان شوگر ملز کے مقدمات اس فہرست میں شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق قانونی ٹیم نے کہا کہ دونوں جج مسلم لیگ ن کے بارے میں متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں کہا گیا قانون اور عدالتی روایت ہے کہ متنازعہ جج متعلقہ مقدمے کی سماعت سے خود کو رضاکارانہ طور پر الگ (ریکیوز) کر لیتے ہیں۔ متاثرہ فریق کی درخواست پر بھی متنازعہ جج بینچ سے الگ کر دئیے جانے کی روایت ہے۔
ذرائع کے مطابق ن لیگ کی قانونی ٹیم دونوں ججوں کو نواز شریف اورپارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں سے الگ ہونے کا کہے گی۔ دونوں ججوں سے کہا جائے گا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مقدمات نہ سنیں۔
اجلاس میں قانونی ٹیم کی مشاورت سے حکمت عملی تیار کر لی گئی۔
دوسری جانب وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایک بیان میں کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کو انصاف کی روایات پر چلنا چاہیے، فیصلوں سے ظاہر ہے کہ وہ متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں۔
خرم دستگیر نے کہا کہ آڈیو لیکس کا ٹھوس ثبوت بھی سامنےآچکا ہے، لہٰذا دونوں ججز کو ن لیگ کے مقدمات سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔
Comments are closed on this story.