Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

بارکھان کنویں کی لاشیں، بااثر باپ بیٹے کا تنازعہ غریب کو نگل گیا

سردار عبدالرحمان کھیتران پر جنوری 2014 میں بھی نجی جیل میں لوگوں کو قید رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اپ ڈیٹ 22 فروری 2023 11:35am
علامتی تصویر
علامتی تصویر

گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے ایک کنویں سے دو مردوں اور خاتون کی لاشیں برآمد ہوئیں، جنہیں سر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ تینوں مقتولین کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی، جبکہ خاتون کا چہرہ مسخ کیا ہوا تھا۔

مقتولین کی شناخت خان محمد مری کے اہلِ خانہ کے طور پر ہوئی جن کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کے سابق ملازم ہیں۔

خان محمد مری اور لواحقین کا الزام ہے کہ مقتولین 2019 سے سردارعبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔

خان محمد مری کا کہنا ہے کہ کنویں سے ملنے والی لاشیں ان کے دو بیٹوں محمد نواز، عبدالقادر اور اہلیہ گرا ناز کی ہیں۔

گرا ناز وہی خاتون ہیں جن کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں ان کا ہاتھ میں قرآن پاک اٹھائے کہنا تھا کہ ’سردار عبدالرحمان کھیتران نے ہمیں قید کیا ہوا ہے۔ میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے، ہمیں آزاد کرایا جائے۔‘

خان محمد مری کا دعویٰ ہے کہ ان کے گھر کے مزید پانچ افراد اب بھی سردارعبدالرحمان کھیتران کی جیل میں قید ہیں۔

قتل کے اس لرزہ خیز واقعے کے خلاف کوہلو میں مرکزی چوک پر مری قبائل کے افراد کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے، دھرنے کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے کوئٹہ تک پہنچ گیا، جہاں ریڈ زون کے قریب فیاض سنبل چوک پر عوام کی بڑی تعداد جمع ہے اور متاثرین کو انصاف دینے کی اپیل کی جارہی ہے۔ جب کہ لواحقین صوبائی عبدالرحمان کھیتران کی گرفتاری اور معاملے کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں بھی سانحہ بارکھان پر حکومت کے خلاف احتجاج جاری ہے، جس میں قبائلی عمائدین، تاجر برادری اور نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہے، مظاہرین عبدالرحمان کھیتران کے خلاف شدید نعرے بازی اور سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کررہے ہیں۔

دوسری جانب سانحہ بارکھان کے خلاف بلوچستان بار کونسل نے آج عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کررکھا ہے، اور وکلاء آج عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے، رہنماء بارکونسل راحب بلیدی نے کوئٹہ میں بھی احتجاج کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔

خان محمد بتاتے ہیں کہ 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران کے آدمی ان کے گھر کے آٹھ افراد، جن میں اہلیہ گرا ناز، بیٹی فرزانہ، بیٹے عبدالستار، عبدالغفار، محمد عمران، محمد نواز، عبدالمجید اور عبدالقادر کو اغوا کرکے لے گئے۔ اور انہیں حاجی گوٹھ بارکھان کی نجی جیل میں قید کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جاتے جاتے وہ لوگ گھر کا سارا سامان بھی ساتھ لے گئے۔

خان محمد مری کا الزام ہے کہ صوبائی وزیر اور ان کے اہلکار نجی جیل میں ان کے اہلِ خانہ سے ناصرف جبری مشقت کروا رہے ہیں، بلکہ ان پر جنسی و جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔

خان محمد کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے سردار عبدالرحمان کھیتران کے ملازم ہیں۔

اُن کے بقول ’2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے بیٹے انعام شاہ کے خلاف عدالت میں گواہی دینے اور قتل کرنے کاحکم دیا، لیکن میں نے انکار کردیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔‘

اس کے بعد سے صوبائی وزیر نے ان کی اہلیہ اور بچوں کو مکمل قیدی بنا رکھا ہے۔

سردار عبدالرحمان کے بیٹے انعام شاہ نے نجی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ لاشیں ان کے سابق ملازم خان محمد مری کی اہلیہ اور بیٹوں کی ہیں۔

انعام شاہ نے بتایا کہ ان کے والد نے تین شادیاں کی ہیں اور وہ تینوں بیویوں کی اولادوں کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔

انعام شاہ کے مطابق وہ اپنے ہی بیٹوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’والد سے 2018 میں گاڑیوں کی ملکیت تبدیل کرانے پر تنازع پیدا ہوا تو انہوں نے میرے خلاف 2019 میں اپنے ہی گھر سے چوری کرنے کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا اور خان محمد مری کو گواہ بنایا۔ جب خان محمد مری نے گواہی دینے سے انکار کیا تو ان کے بیوی بچوں کو قید کر لیا۔‘

دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

آج نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا ہے کہ اگر میری کوئی نجی جیل ہے تو تحقیقات کریں، میں نے خود وزیر اعلیٰ بلوچستان سے کہا ہے کہ جے آئی ٹی بنائیں، جو بھی تحقیقاتی کمیٹی بنی اس کے سامنے پیش ہوں گا، لیکن تحقیقات کیلئے میں کیوں استعفا دوں۔

عبدالرحمان کیتھران کا کہنا تھا کہ میری ساکھ کو جو نقصان پہنچا اس پر ہر فورم پر جاؤں گا، کیا میں خود جاکر کہوں گا کہ میرے خلاف ایف آئی آر درج کرو، عجیب بات ہے، میرا نام ایک منظم سازش کے تحت لیا جارہا ہے۔

بیٹے کے الزامات پر بات کرتے ہوئے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے بیٹے کو بلدیاتی الیکشن میں چیئرمین نہیں بنایا تو اس لیے وہ میرے خلاف ہو گیا۔‘

علاقہ پولیس کا اصرار ہے کہ انہیں نجی جیل کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

سردار عبدالرحمان کھیتران پر جنوری 2014 میں بھی نجی جیل میں لوگوں کو قید رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

سردار عبدالرحمان کھیتران اس وقت بھی رکن بلوچستان اسمبلی تھے۔

تب پولیس اور انسداد دہشتگردی فورس (اے ٹی ایف) نے بارکھان میں نجی جیل سے خواتین اور بچوں سمیت 10 افراد کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ نجی جیل عبدالرحمان کھیتران کی ہے۔

چھاپے کے دوران پولیس اہلکاروں کا اسلحہ چھیننے، انہیں یرغمال بنانے اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے پر بھی ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عبدالرحمان کھیتران تقریباً پانچ سال تک ان مقدمات میں جیل اور سب جیل قرار دی گئی اپنی رہائش گاہ میں قید رہے، بعد ازاں ان تمام مقدمات میں عدالت نے انہیں بری کر دیا۔

عبدالرحمان کھیتران کے دو محافظوں پر جولائی 2020 میں سماجی کارکن اور صحافی انور کھیتران کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

رواں سال مقتول گرا ناز کے نجی جیل میں قید کا مدعا پاکستانی سینیٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے جنوری میں کہا تھا کہ دُکی کےعلاقے میں خان محمد مری کے بیوی بچے نجی جیل میں ہیں، انہیں بازیاب کروا کر معاملہ انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ غریب آدمی کی آواز بنے، ظلم ختم ہونا چاہیے، بلوچستان میں وسائل پر ظلم ہو رہا ہے۔

بلوچستان

Barkhan Murder

Sardar Abdul Rehman Khetran