کسٹم حکام کس قانون کے تحت شہروں میں آپریشن کرتے ہیں؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے کسٹمز سے اندرون ملک کارروائیوں سے متعلق قانونی جواز طلب کرلیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کسٹم حکام کس قانون کے تحت شہروں میں آپریشن کرتے ہیں؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کسٹم حکام کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے کسٹم حکام سے اندرون ملک کاروائیوں کا قانونی جواز طلب کرلیا ۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت کسٹم حکام شہروں میں آپریشن کرتے ہیں ؟ملتان کے قریب موٹروے پر سامان کا پکڑا جانا اسمگلنگ ہوگی یا کسٹم ڈیوٹی کا معاملہ؟کیا یہ کسٹم حکام کا اندرون شہر میں روک کر دستاویزات طلب کرنا درست ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کسٹم حکام اسمگلنگ کو روکنے کی بجائے انفرادی طور پر کارروائی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، کسٹم حکام کی ساری توجہ لوگوں کی گاڑیاں اور چیزیں پکڑنے میں ہے، مختلف اشیاء کہاں سے اسمگل ہوتی ہیں اس طرف کسٹم والوں کی توجہ نہیں؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ کون سا قانون مارکیٹوں میں چھاپے مارنے یا چوکیاں لگانے کی اجازت دیتا ہے،اصل سوال کسٹم افسران کے اختیارات اور دائرہ اختیار کا ہے، بارڈر سے دور شہروں میں کسٹم والے ہر روز کارروائی کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسٹم حکام عدالتی سوالات کے بارے میں بتا نہیں پا رہے اس لئے تیاری کی ضرورت ہے، شہر میں چیز پکڑے جانے پر کیا اسمگلنگ کا قانون لاگو ہوگا؟۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے کسٹم حکام کو تیاری کی مہلت دیتے ہوئے مزید سماعت 2ہفتوں کے لئے ملتوی کردی۔
گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی، وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کونوٹس جاری
سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی کے خلاف وزیر اعلیٰ کی درخواست پر وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم مارچ تک جواب طلب کرلیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے گلگت بلتستان میں ججوں کی تقرری میں وزیر اعظم اور گورنر کی کی جانب سے وزیر اعلیٰ اور کابینہ سے مشاورت نہ کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے گلگت بلتستان کی منتخب حکومت کی مشاورت کے بغیر ججوں کی تعیناتی کی ایسے غیر قانونی اقدامات سے روکا جائے۔
جس پرسپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم مارچ تک جواب طلب کر لیا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف گلگت بلتستان میں چیف جج اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری میں منتخب حکومت کو بائی پاس کررہے ہیں، گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے مطابق ججز کی کسی بھی تقرری کے لئے گلگت بلتستان کی منتخب حکومت سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں مقدمے زیر سماعت ہونے کے باوجود وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں مزید ججوں کی تعیناتی کی اور مزید کررہی ہے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے تفسار کیا کہ گلگت بلتستان میں ججوں کی تقرری پر چیف جسٹس پاکستان سے کوئی مشاورت نہیں ہوتی ہے؟ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے مطابق ججوں کی تقرری وزیر اعلیٰ کی سفارش پر گورنر وزیر اعظم کو بھیجنے کے پابند ہیں۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.