ترامیم کیس: پارلیمنٹ نیب ختم کر دے تو اس کی بحالی چیلنج نہیں کی جا سکتی، وکیل
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں ہو نے والی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اب تک نہیں بتایا گیا نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم کیس اب تک تو بنیادی حقوق کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا۔ جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت خود حکومت کے اختیارات استعمال نہیں کرنا چاہتی، احتساب عدالتوں سے واپس ہونے والے سینکڑوں مقدمات کا کچھ پتہ نہیں کہاں جائیں گے۔
جس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت جہاں حکم جاری کرے گی وہاں بھیج دیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ عدالت کیوں حکم جاری کرے؟
وفاقی وکیل نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ نیب کا مکمل قانون بھی ختم کرسکتی ہے۔ پاکستان پچاس سال نیب قانون کے بغیر بھی چلتا رہا، اگر نیب ترامیم اسلامی اصولوں کے منافی ہیں تو اس کا تعین وفاقی شرعی عدالت نے کرنا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ اگر وفاقی شرعی عدالت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے تو پھر کیا ہوگا؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طاقت اور اختیار میں واضح فرق ہے، عدالت قانون کو غلط قرار دے کر واپس بھیج سکتی ہے ختم نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئے کہ کرپشن کا تعلق قانون کے نفاذ، صاف شفاف حکومت اور سماجی نظام سے ہے، بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے گڈ گورننس ضروری ہے، گڈ گورننس کا مطلب ہے کہ ملکی قوانین ہر شخص پر واضح ہونے چاہئیں، اگر حکومت ٹھیک ہو گی تو رات کو باہر نکلتے وقت کوئی خوفزدہ نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اگر گڈ گورننس ہوگی تو کسی کو اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار ساتھ لے کر نہیں گھومنے پڑیں گے، آئین پاکستان کے تحت زندہ رہنے کے حق کی تعمیل لازم ہے۔
وکیل وفاقی حکومت کا سماعت دوران کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو پہلے دیکھنا ہوگا نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے وسیع تر اختیار موجود ہیں۔
جسٹس منصسور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 184/3 کے استعمال سے قبل درخواست گزار کو ہائیکورٹ میں جانا چاہیے تھا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب کیس کو سنتے ہوئے کافی وقت گزر چکا، اب تک نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا، اگر بنیادی حقوق پر عدالت کو مطمئن نہیں کیا گیا تو مفاد عامہ کا سوال تو بہت بعد میں آئے گا۔
جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حکومت ایسے کوئی قوانین نہیں بنا سکتی جو بنیادی حقوق سے منافی ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ختم کر دے تو درخواست گزار اس کی بحالی کے لیے آسکتا ہے؟
جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نیب کو ختم کر دے تو اس کی بحالی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.