Aaj News

منگل, اکتوبر 01, 2024  
26 Rabi ul Awal 1446  

گلالئی اسماعیل کے والدین کو غداری کیس میں بری کر دیا گیا

انہیں غداری اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا تھا
شائع 15 فروری 2023 11:46am
تصویر: خوشحال خان/ ٹوئٹر
تصویر: خوشحال خان/ ٹوئٹر

پشاور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والدین کوغداری، دہشتگردی کی مالی معاونت اورسہولت کاری کے الزامات میں بری کردیا۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج فضل ستارنے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پروفیسر محمد اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما محسن داوڑ نے اس فیصلے پرکہا کہ گلالئی کے والدین کو طویل عرصے سے ہراساں کیا جا رہا تھا لیکن۔ محسن نے والدین کی رہائی پر گلالئی کو مبارکباد دی۔

فیصلے سے قبل گلالئی نے ٹویٹ کیا تھا کہ ان کے والدین کو ’اذیت ناک ٹرائل‘ کا سامنا ہے۔

سی ٹی ڈی نے 6 جولائی 2019 کو درج ایف آئی آرمیں گلالئی اوران کے والدین پر رد جرم عائد کی تھی۔ گزشتہ سال جولائی میں انسداد دہشتگردی عدالت نے گلالئی اور ان کے والدین پرعبوری چالان (چارج شیٹ) کی بنیاد پرفرد جرم عائد کرنے سے انکار کردیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ استغاثہ کی طرف سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا لہذا ملزمان کے خلاف الزام طے نہیں کیا جاسکتا اور انہیں ضابطہ فوجداری کے تحت بری کردیا گیا ۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے مکمل چارج شیٹ جمع کراتے ہوئے مزید دستاویزات پیش کی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ملزمان نے دہشت گردوں کو اسلحہ اور کار فراہم کی تھی جو 2013 میں پشاور کے آل سینٹس چرچ اور 2015 میں حیات آباد کی امامیہ مسجد پرحملوں میں استعمال ہوئے۔

اس کے بعد عدالت نے گلالئی کے والدین پرغداری، ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے اور 30 ستمبر 2020 کو آل سینٹس چرچ اور امامیہ مسجد پر حملوں میں سہولت کاری سمیت متعدد الزامات میں فرد جرم عائد کی تھی تاہم دونوں الزامات سے انکارکرتے ہوئے مقدمے کا سامنا کررہے تھے۔

ابتدائی طور پر سی ٹی ڈی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 این کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی جس میں گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین پر پشتون تحفظ موومنٹ کے ہمدرد ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایف آئی آرمیں پاکستان پینل کوڈ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی کئی دیگر دفعات کو بھی شامل کیا گیا۔

شکایت کنندہ سی ٹی ڈی انسپکٹر محمد الیاس نے الزام عائد کیا کہ گلالئی اسماعیل ایک تنظیم اویئرگرلز (Aware Girls) کی چیئرپرسن تھیں اور اس کی آڑ میں وہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کے علاوہ ریاست مخالف عناصر کے لیے کام کر رہی تھیں۔

واضح رہے کہ گلالئی اسماعیل مئی 2019 میں اس وقت روپوش ہوگئی تھیں جب ان کے خلاف مبینہ طور پر ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور ایک نابالغ لڑکی کے قتل اور جنسی استحصال کے خلاف مظاہرے میں تقریرکے ذریعے تشدد بھڑکانے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بعد ازاں وہ ستمبر 2019 میں امریکہ میں سامنے آئی تھیں اور فی الحال وہیں مقیم ہیں۔

peshawar

Gulalai Ismail

sedition case

Gulalai's parents