’پاکستان کو بیچی جانے والی روسی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مارکیٹ بیسڈ ہوں گی‘
پاکستان میں روس کے سفیر ڈینیلا گانش کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بیچی جانے والی ہماری پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا انحصار مارکیٹ پر ہوگا۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں میزبان منیزے جہانگیر کو دئے گئے خصوصی انٹرویو میں روسی سفیر نے پاکستان کے ساتھ مختلف معاہدوں ، روس یوکرین جنگ اور دیگر مضوعات پر گفتگو کی۔
پاکستان اور روس کے درمیان نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن اور پاکستان اسٹریم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ حالیہ اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم یہ منصوبے بہت تیزی سے شروع کر سکتے ہیں یہ کچھ تجارتی معاہدوں پر منحصر ہے۔ ہم ان کمرشل پیپرز پر کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ سرکاری اور کچھ نجی کمپنیاں ہیں جو براہ راست رابطے میں ہیں۔
پاکستان کو ممکنہ طور پر بیچی جانے والی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہماری پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعلق ہے، یقینی طور پر ان کا انحصار مارکیٹ پر ہوگا، کیونکہ ہم کسی بھی پرائس کیپ کو قبول نہیں کریں گے۔
روس کے تیل کی پیداوار کم کرنے کے اعلان پر پاکستان اور دیگر کمپنیوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوال پر ڈینیلا گانیش کا کہنا تھا کہ میں اس کا براہ راست تعلق نہیں دیکھتا، کیونکہ ہم دراصل پاکستان کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت نہیں کرتے، بنیادی طور پر روس نے تیل کی پیداوار میں کمی کا اقدام اس وقت اس لئے اٹھایا تاکہ پوری دنیا میں تیل کی قیمتوں کو بڑھایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے ساتھ قیمتوں کا تعلق ہے تو اس کا انحصار مقدار پر ہے کہ سپلائی کتنی کرنی ہے، لیکن قیمت مارکیٹ بیسڈ ہوگی۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھنے سے پاکستان بھی روس سے مہنگا تیل خریدنے پر مجبور ہوگا؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا انحصار مذاکرات پر ہوگا، ہوسکتا ہے پاکستان کو کوئی فائدہ یا رعایت دی جائے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ اس سے ہمیں کتنا فائدہ ہوگا۔ تجارت مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ایسے منصوبے پر بات چیت کیلئے تیار ہیں جو ہمارے لئے قابل عمل اور فائدہ مند ہو۔
انہوں نے منیزے کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی بات کی، آپ مجھے سے زیادہ جانتی ہیں کہ معاملات امریکی پابندیوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پارہے، وہ پابندیاں جو امریکہ نے ایران پر لگائی ہوئی ہیں۔
ڈینیلا گانش نے کہا کہ جہاں تک افغان ٹرانس پائپ لائن کی بات ہے تو ہم پر بالکل واضح ہونا چاہئیے کہ حالات اور سیکیورٹی کے معاملات کیسے ہیں۔
روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتی قربتوں پر امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے کے امکان اور اس سے تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کھل کر اور براہ راست امریکا کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لئے یہ کوئی ڈر نہیں، ہمیں کسی کا ڈر نہیں، امریکا کا بھی نہیں۔ ہم اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ امریکا سپر پاور ہے اور عالمی اثرو رسوخ رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ اثر و رسوخ پاک روس تعلقات میں رکاوٹ بنے۔
پاکستان کے یوکرین کو ہتھیار بیچنے پر موجودہ ڈیلز میں مشکلات کے امکانات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے ردعمل میں محتاط رہنا ہوگا، اس بارے میں روس کی حکومت فیصلہ کرے گی، یہ بڑا حساس معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مانیٹرنگ کر رہے ہیں ، اگر ثابت ہوگیا کہ کسی ملک نے ایسا کیا ہے تو ہم ضرور ردعمل دیں گے، میں یہ نہیں بتا سکتا کہ ردعمل کیا ہوگا یہ میرے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
روسی سفیر نے کہا کہ اگر پاکستان اپنے نیوٹرل مؤقف میں تبدیلی لاتا ہے تو جیسا کہ ہم روس میں کہتے ہیں ”جب ہوگا تب دیکھیں گے“، تو ابھی تک ایسا ہوا نہیں ہے اور امید ہے ایسا ہوگا بھی نہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان ہونے والی گندم تجارت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پہلے ہی پاکستان کو گندم فروخت کرچکے ہیں، پچھلے سال ہم نے سات ہزار ٹن سے زائد گندم پاکستان کو بیچی، میرے حساب سے گندم بیچنا ایم او یو سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
روس اور پاکستان کے درمیان روبلز میں تجارت پر ان کا کہنا تھا کہ امریکا ڈالرز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، تاکہ لین دین کے معاملات میں اپنا تسلط قائم رکھ سکے۔ اگر ہم واشنگٹن کے تسلط سے آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی مقامی یا علاقائی کرنسی میں تجارت کرنی ہوگی۔
بیک وقت ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے روسی سفیر نے کہا کہ ہم ملٹی ٹاسک کرسکتے ہیں، اگر ہمارے ہندوستان کے ساتھ گرم جوشی پر مبنی اور قریبی تعلقات ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات نہیں رکھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو اپنا دوست اور پارٹنر سمجھتے ہیں۔
کیا ماسکو افغانستان سے نکل رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی نہیں، ہمارے خصوصی نمائندے پاکستان، بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں، اور یہ خبریں درست نہیں ہیں۔
طالبان کو روس مدعو نہ کرنے کے سوال پر ڈینیلا گانش نے کہا کہ ہم طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، اگر طالبان کو اس مرتبہ مدعو نہیں کیا گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں پہلے کبھی بلایا نہیں گیا یا انہیں اگلے سیشن میں نہیں بلایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مختلف میٹنگز میں شرکاء کی مختلف تعداد ہوتی ہے، ہم طالبان کے ساتھ کام کر رہے ہیں، ہم اپنے دوست پاکستان کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔
آپ طالبان کو کیسے معقول سجھ سکتے ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ بحران کی وجہ افغان مرکزی بینک کے سات بلیب ڈالرز کے منجمد فنڈز ہیں۔ امریکہ اس رقم کو روک رہا ہے اور پھر پابندیاں لگا رہا ہے، تاجروں کے افغان اداروں کے ساتھ معاملات کرنے کا خوف اور امریکہ کی طرف سے مناسب انفراسٹرکچر کی کمی، یہ بنیادی مسائل ہیں۔ ہم یقینی طور پر برابری اور حقوق کے لیے کھڑے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور یورپی یونین کی طرح ہم بھی صنفی مساوات کے قائل ہیں، طالبان کا اقتدار میں آنا ایک انقلاب تھا، طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں، انہیں دھمکی دینے کی بجائے اُن کو قائل کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کابل میں طالبان کی حکومت مضبوط ہو گی تو وہ ٹی ٹی پی سے بہتر طریقے سے نمٹ لیں گے، ہمیں دہشگردی سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کیلئے طالبان کی مدد کرنی ہوگی۔
ان کا کہناتھا کہ داعش اور اس کا گروپ خراسان طالبان کے بدترین دمشن ہیں، داعش آپ سمیت ہم سب کے لیے خطرہ ہے۔
امریکا کی جانب سے افغانستان میں داعش کی مالی امداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ٹھوس حقائق موجود نہیں لیکن میں محرکات دیکھ رہا ہوں، ہوسکتا ہے امریکا افغانستان میں دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہا ہو، امریکا کا جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو مختلف طاقتوں کا استعمال کرتا ہے، اگر دہشتگردوں کو امریکی سپورٹ کے شواہد ہیں بھی تو ہم عوام کے سامنے نہیں لا سکتے۔
عمران خان کی حکومت گرانے میں امریکی سازش ہونے کے امکانات کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر جب امریکا کو بطور سپر پاور آپ مایوس کریں گے تو وہ آپ کے لیے مسائل پیدا کرے گا اور جب عمران خان کو کہا گیا کہ وہ اپنے دورے کو ختم کریں، وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کسی کی ڈکٹیشن پر عمل کرکے خود کو بے عزت نہیں کرایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یقینی طور پر عمران خان نے وائٹ ہاؤس کا جھلاہٹ میں مبتلا کیا، میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک محرک ہوسکتا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہی وجہ ہے۔
ڈینیلا گانش کا کہنا تھا کہ اگر عمران خانکو اندرونی مسائل کا سامنا نہ ہوتا تو وہ حکومت میں رہ سکتے تھے۔
Comments are closed on this story.