ٹم ہورٹنزکے سامنے لمبی قطاروں کی ’اصل وجہ‘ سامنے آگئی
وطن عزیز کے معاشی حالات پر روشنی ڈالنے والے محبان ومخالفین اسے دیوالیہ قراردینے کے درپے ہیں تودوسری جانب ’غیرملکی‘ کافی کے لیے گھنٹوں انتظار اور لمبی قطار کچھ اور ہی کہانی سُنارہے ہیں۔
ذکرہےٖ ڈی ایچ اے لاہور میں کھلنے والی کینیڈین کافی شاپ ’ٹم ہورٹنز ’ کا جس نے افتتاح والے دن ہی دیکھنے والوں کو انگلیاں دانتوں تلے دینے پر مجبورکردیا کہ یا الٰہی یہ ماجراکیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کے سب سے بڑے شہرلاہورمیں اس نئی کافی شاپ/کیفے کے سامنے ایک کپ کے حصول کے لیے طویل لائنیں لگی رہیں، تصاویرسوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں اور یہ دعویٰ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان قطاروں کے طفیل ’ٹم ہورٹنز‘ نے پہلے ہی روزریکارڈ سیل کی۔
اب قصہ سوشل میڈیا کی زینت بنے اور تبصرے نہ کیے جائیں، ایسا تو ممکن نہیں۔ صارفین نے اپنے تبصروں میں ’دیارغیر‘ کی ایک کپ کافی کے حصول کے لئے کی گئی جدوجہد اور غربت سے نبردآزما سستے آٹے چینی اور دیگر اشیاء کے حصول کے لیے گھنٹوں انتظارکرنے والوں کا موازنہ کیا۔
ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ عارف اجاکیہ نے اسے ’اصل دو قومی نظریہ‘ قراردیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ معاشی بحران کس لیے ہے۔
ایک صارف نے برانڈ کے 61 سال میں سب سے زیادہ اوپننگ ڈے فروخت کا عالمی ریکارڈ پاکستان میں ٹوٹنے کا دعویٰ کرت ہوئے لکھا کہ ، ’دنیا ہم پر ہنس رہی ہوگی، ہم ڈیفالٹ کے دہانے پرہیں، ہمارے لوگ بھوک سے مررہے ہیں لیکن آئیے ایک کپ کافی کا لطف اٹھائیں‘۔
یور پھپھو نامی اکاؤنٹ سے طنز کیا گیا کہ ، ’لاہور میں ضرورت مند خاندانوں کو مفت راشن بیگ دینے پر ٹم ہارٹنز کیلئے عزت واحترام‘۔
لگے ہاتھوں آئی ایم ایف ٹیم کے تاثرات بھی دیکھ لیجئے۔
علی معین نوازش نے لکھا کہ ان کے کینیڈین دوست نے یہ لائنیں دیکھ کرتبصرہ کیا ، ’وہ دنیا کے سب سے بے وقوف امیر لوگ ہوں گے جو ٹمس کے لئے اتنی دیرقطار میں کھڑے رہے، اور ٹم ہورٹنز جانے کیلئے اتنی تیاری کون کرتا ہے‘۔
گلوکار فرحان سعید نے بھی اس ’جنون‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہاں دو پاکستان ہیں۔ ایک آٹے،گھی کیلئے یوٹیلیٹی اسٹورزکے باہرلائنوں میں اوردوسرا ٹم ہارٹنز پر اوردونوں کے درمیان ’کچھ نہ ہونا؛ مجھے خوفزدہ کرتا ہے۔
صحافی نجم ولی خان نے سوال اٹھایا کہ کیا واقعی ہم ڈیفالٹ ہوتا ہوا ملک ہیں؟۔
کئی زندہ دل ایسے بھی تھے جنہوں نے زندہ دل صحافی امین حفیظ کی ویڈیو شیئرکرتے ہوئے ٹم ہورٹنزکو بھول کر کراچی کی ’موٹی ملائی والی دودھ پتی‘ چائے پینے کا مشورہ دیا۔
یہ الگ بات کہ خود کراچی والے بھی تبصروں میں پوچھتے رہے کہ یہ ملتی کہاں ہے؟۔
کافی کے لیے لائنوں میں لگنے والوں پر’سُپرٹیکس’ عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی تا کہ غریبوں کا کچھ بھلا ہوسکے۔
صارفین نے طبقاتی فرق کی وجوہات بھی خوب بیان کیں۔
ایک صارف نے تو ایسی پزیرائی دیکھ کر پیشگوئی بھی کردی کہ ٹم ہورٹنزپر یہ حال ہے اگرسٹاربکس پاکستان میں آگیا تو ’ نیشنل ہالی ڈے’ کا اعلان ہوجانا ہے۔
کیفے کے نادر لگے ہورڈنگ نے ساری کنفیوژن ہی ختم کردی، جہاں 11 سے 18 فروری تک 150 خریداروں کے لیے ایک ماہ تک مفت کافی، 20 کیلئے ایک سال تک مفت کافی اور 2 خوش نصیبوں کے لیے مفت دبئی کے ریٹرن ٹکٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔
صارف نے واضح کردیا کہ یہ ہے ’اصل وجہ‘ کیونکہ پاکستانی میں لوئر، مڈل، یا اپر کوئی بھی کلاس ہو، یہ عوام مفت کی چیز حاصل کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتی۔
Comments are closed on this story.