ترکیہ اور شام میں زلزلے پرفرانسیسی جریدے ’چارلی ایبڈو‘ کا شرمناک کارٹون
متنازع خاکے شائع کرنے والے فرانسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے تمام حدیں پارکردیں، جریدے نے یک طنزیہ کارٹون میں ترکیہ اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد متاثرین کا مذاق اڑایا ہے۔
قدرتی آفات سے ہزاروں اموات جیسے معاملے پراتنی بےحسی دکھانے کے خلاف جریدے کو عاکمی سطح پرکڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس انتہائی اقدام کی مذمت کی جارہی ہے۔
نسل پرستانہ خاکوں کے لیے بدنام زمانہ جریدے نے ترکیہ اورشام میں آنے والے ہولناک زلزلے کے چند گھنٹے کے بعد ٹوئٹراکاؤنٹ پر’کارٹون آف دی ڈے’ شیئرکیا تھا جس میں تباہ شدہ عمارتیں ، الٹی ہوئی کاراورملبہ دکھاتے ہوئے کیپشن میں لکھا گیا تھا، “ ترکیہ میں زلزلے،اب ٹینک بھیجنے کی ضرورت نہیں “۔
اس غیرحساس کارٹون کی اشاعت پرسوشل میڈیا پرشدید ردعمل دیکھنے میں آیا، عام صارفین سمیت معروف شخصیات نے بھی فرانسیسی جریدے کے اس مذموم فعل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’اسلاموفوبیا‘ کا شاخسانہ قراردیا۔
یونانی خاکہ نویس نے طنزومزاح کی آڑ میں دنیا میں نفرت پھیلانے والے اس کارٹون پر منہ توڑ جواب دیا۔
یونانی روزنامہ کیتھی میرینی میں دیمتری ہاندزوپولوس کے بنائے خاکہ کے کیپشن میں لکھا گیا، ”ہم سب ترک ہیں“۔
ترک صدرکے ترجمان ابراہیم کالین نے بھی ٹوئٹرپراپنی مذمت کا اظہارکرتے ہوئے لکھا، ”جدید وحشی! اپنے غصے اورنفرت میں ڈوب جاؤ“۔
ترک سیاستدان اورحکمران آق پارٹی کے لندن میں نمائندے عبدالرحیم بوینوکالین نے کہا کہ تنازعات پیدا کرنے کیلئے چارلی ایبڈو کی کوئی حد نہیں ہے۔
پاکستان کی سابق وفاقی وزیرشیریں مزاری نے لکھا کہ، ”نفرت اوراسلاموفوبیا اپنے عروج پر ہے ۔ قدرتی آفت پرچارلی ایبڈوکی طرف سے اس طرح کا ردعمل ظاہرہوتاہے، ہمیں بیماریورپ سے مذمت کی آوازیں سننے کا انتظارہے“۔۔
عرب نیوزکے مطابق چارلی ایبڈوکے ٹوئٹراکاؤنٹ پرشیئرکیے جانے والے “ کارٹونزمیں اسلاموفوبیا کا جائزہ“ کے عنوان سے 2018 میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں 13 اگست 2009 سے 15 اکتوبر2018 تک شائع شدہ خاکوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جس کے مطابق 6123 میں سے 38 ٹویٹس مسلم مخالف نوعیت کی تھیں جن میں اوراسلام کو ایک ایسے مذہب کے طورپرپیش کیا گیا جو انحراف اوردہشتگردی سے وابستہ ہے۔
فرانسیسی جریدہ متنازع کارٹونوں اور مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ہمیشہ تنازعات کا مرکزرہا ہے۔اس کے مواد کوبہت سے لوگ خاص طورپرمذہبی گروہوں کے خلاف قابلِ اعتراض اورتوہین آمیز سمجھتے ہیں۔
Comments are closed on this story.