Aaj News

ہفتہ, دسمبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Akhirah 1446  

پاکستان، بھارت سمیت چار ممالک کے کروڑوں لوگوں کو ”زمینی سونامی“ کا خطرہ

جھیلوں کے نیچے کی سمت رہنا ناقابل یقین حد تک خطرناک ہو سکتا ہے۔
شائع 08 فروری 2023 06:42pm
16 اکتوبر 2019:  ہندوکش پہاڑی سلسلے میں موجود پاکستان کا چیاٹیبو گلیشیر( تصویر: نیل ہال/ روئٹرز)
16 اکتوبر 2019: ہندوکش پہاڑی سلسلے میں موجود پاکستان کا چیاٹیبو گلیشیر( تصویر: نیل ہال/ روئٹرز)

برفانی جھیلوں کے 30 میل کے دائرے میں رہنے والے 15 ملین افراد خطرے میں ہیں، اور ان میں سے آدھے سے زیادہ صرف چار ممالک ہندوستان، پاکستان، پیرو اور چین میں رہتے ہیں۔

دنیا بھر کے گلیشیئرز خطرناک حد تک تیز رفتار سے پگھل رہے ہیں، اور ان گلیشئیرز سے پگھلنے والا پانی پیچھے چھوٹے گڑھوں کو بھرتا ہے، جو برفانی جھیل کہلاتے ہیں۔

جیسے جیسے درجہ حرارت گرم ہوتا جاتا ہے اور گلیشیئر کے مزید ٹکڑے پگھلتے جاتے ہیں، یہ جھیل بڑھتی جاتی ہے۔

ایسی جھیلوں کے نیچے کی سمت رہنا ناقابل یقین حد تک خطرناک ہو سکتا ہے۔

اگر جھیل کا پانی بہت اوپر اٹھتا ہے اور آس پاس کی زمین یا برف اس پانی کو راستہ دیتی ہے تو جھیل پھٹ سکتی ہے، جس سے پانی اور ملبہ پہاڑوں پر بہہ سکتا ہے۔

اس عمل کو ”برفانی جھیل کا اخراج“ یا Glacial Lake Outburt کہا جاتا ہے۔

منگل کو نیچر کمیونیکیشنز جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 15 ملین افراد جو برفانی جھیلوں کے 30 میل کے دائرے میں رہتے ہیں، خطرے میں ہیں۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ صرف چار ممالک ہندوستان، پاکستان، پیرو اور چین میں مرکوز ہیں۔

یہ پہلا مطالعہ ہے جو خاص طور پر برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے ممکنہ اثرات پر کیا گیا ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

مطالعہ کے شریک مصنف اور نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف کینٹربری کے سینئر لیکچرر ٹام رابنسن کا کہنا ہے کہ برفانی جھیل کا پھٹنا ”زمینی سونامی“ جیسا ہے۔

انہوں نے اس کے اثرات کا موازنہ ڈیم کے اچانک ٹوٹنے سے کیا۔

رابنسن نے امریکی خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا، ”یہ برفانی ڈیم، تعمیر شدہ ڈیموں سے مختلف نہیں ہیں۔“

”اگر آپ مثال کے طور پر ہوور ڈیم کو لیں، تو اس کے پیچھے ایک بہت بڑی جھیل ہے، لیکن اگر آپ اچانک ہوور ڈیم کو ہٹا دیتے ہیں تو یہ پانی کہیں تو جائے گا، یہ پانی سیلاب کی بڑی لہروں کی صورت میں کسی وادی میں بہتا ہوا آئے گا۔“

ایسے سیلاب بہت کم یا بغیر کسی وارننگ کے آتے ہیں۔

برفانی جھیل کے پھٹنے کے گزشتہ واقعات میں ہزاروں افراد ہلاک، جبکہ لاکھوں ڈالر مالیت کی املاک اور اہم انفراسٹرکچر تباہ ہو چکے ہیں۔

پیرو میں کورڈیلیرا بلانکا اس حادثے کی زد میں آنے کیلئے کے لیے تیار ایک خطرناک جگہ ہے۔

محققین نے پایا کہ 1941 کے بعد سے اس پہاڑی سلسلے نے برفانی تودے سے لے کر برفانی جھیلیں پھٹنے تک 30 سے زیادہ گلیشیئر آفات کا سامنا کیا ہے، جس میں 15,000 سے زیادہ جانیں گئیں۔

اگرچہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں آنے والے سیلاب کا کتنا حصہ برف پگھلنے سے منسلک تھا، لیکن یہ ملک قطبی خطوں سے باہر کی دنیا میں موجود گلیشیئرز کا گھر ہے، یعنی یہاں دنیا میں دوسری جگہوں کی نسبت بڑی تعداد میں گلیشئیرز موجود ہیں۔

سائنسدانوں کا کہا ہے کہ صرف 2022 میں ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں برفانی جھیل پھٹنے کے کم از کم 16 واقعات پیش آئے، جو کہ گزشتہ سالوں میں دیکھے گئے پانچ یا چھ واقعات سے نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔

اس تحقیق میں پتا چلا ہے کہ ان حادثات کا سب سے زیادہ خطرہ ایشیا کا بلند پہاڑی علاقہ ہے، جس میں نیپال، پاکستان اور قازقستان شامل ہیں۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ اس خطے کا ہر فرد برفانی جھیل کے تقریباً چھ میل کے اندر رہتا ہے۔

لیکن رابنسن کہتے ہیں کہ پیرو اور بولیویا سمیت اینڈیس کا علاقہ سب سے زیادہ تشویش ناک ہے، اس علاقے میں بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، اینڈیز کے گلیشیئرز آب و ہوا کے بحران کے نتیجے میں تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بڑی بڑی برفانی جھیلیں بن رہی ہیں اور سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

رابنسن نے نوٹ کیا کہ شمالی امریکہ اور یورپی الپس بھی خطرے سے باہر نہیں، یہاں کے بہت کم لوگ برفانی کیچمنٹ کے آس پاس رہتے ہیں۔

کارنیگی میلن یونیورسٹی کے ایک گلیشیالوجسٹ ڈیوڈ روونس جو اس تحقیق میں شامل تو نہیں تھے، لیکن کہتے ہیں کہ منگل کا مطالعہ عالمی موازنہ کو دیکھنے کے حوالے سے ”طاقتور“ ہے۔

رونس نے سی این این کو بتایا، ”مصنفین نے جو طریقہ استعمال کیا ہے اسے مستقبل کے تخمینوں پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔“

پگھلتے ہوئے گلیشیئرز موسمیاتی بحران کی سب سے واضح، سب سے زیادہ نظر آنے والی علامات میں سے ایک ہیں۔

ایک حالیہ مطالعہ، جس میں رونس بھی سرکردہ مصنف تھے، میں پایا گیا کہ کرہ ارض کے نصف گلیشیئرز صدی کے آخر تک ختم ہو سکتے ہیں۔“

رابنسن کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے ان کی تحقیق عالمی رہنماؤں کو یہ تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ برف پگھلنے کی وجہ سے آنے والے شدید سیلاب کے لیے کن ممالک کو ابتدائی انتباہی نظام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

”ایک عالمی برادری کے طور پر ہمارے پاس محدود وسائل ہیں، اور ہم میں سے کچھ کو دوسروں کے مقابلے زیادہ وسائل تک رسائی حاصل ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ان وسائل کو ان علاقوں میں اچھے سے استعمال کیا جائے جہاں اثرات ممکنہ طور پر کافی شدید ہو سکتے ہیں۔“

رابنسن نے مزید کہا کہ ایک بار جب بھارت، پاکستان، پیرو اور چین جیسے سب سے زیادہ کمزور ممالک میں سرمایہ کاری ہو جائے تو ہم اس فہرست میں مزید ممالک کو شامل کرسکتے ہیں اور کام جاری رکھ سکتے ہیں، تاکہ ان پھٹتی ہوئی برفانی جھیلوں سے مزید جانیں بچائی جا سکیں۔

india

پاکستان

glacial lake outbursts

Glaciers

inland tsunami