Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہونے سے پاکستان کو کیسے نقصان پہنچا

پاکستان سے ڈالرز کا یہ اخراج ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کو بڑھا رہا ہے.
شائع 07 فروری 2023 06:38pm

پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں سمگل کئے جا رہے ہیں، جس سے افغانستان کی معیشت کو تو سہارا مل رہا ہے، لیکن پاکستان بربادی کے دہانے پر کھڑا ہوچکا ہے۔

امریکہ اور یورپ نے طالبان حکومت کی اربوں ڈالرز کے غیر ملکی ذخائر تک رسائی روکی ہوئی ہے۔ اس کے باجود پاکستان سے جانے والے ڈالر نے ان کی معیشت بحال رکھی ہوئی ہے۔

دوسری جانب پاکستان سے ڈالرز کا یہ اخراج ملک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کو بڑھا رہا ہے۔

کرنسی ڈیلرز کی 26 رکنی تنظیم، ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای کیپ) کے جنرل سیکرٹری محمد ظفر پراچہ کے مطابق، تاجر اور اسمگلر روزانہ 5 ملین ڈالر سرحد پار بھیج رہے ہیں۔

ڈالرز کے اس غیر قانونی بہاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کس طرح 2021 میں ملک پر قبضے کے بعد پابندیوں سے بچتے آرہے ہیں۔

لیکن پاکستان کے لیے غیر قانونی بہاؤ غیر ملکی ذخائر میں کمی اور روپے پر پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے، ملکی کرنسی ریکارڈ کم ترین سطح پر گر رہی ہے اور معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔

ظفر پراچہ نے امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کو بتایا کہ، ”بلا شبہ کرنسی اسمگل کی جا رہی ہے، یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔“

اگست 2021 میں جب طالبان نے دو دہائیوں بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر اس خوف سے منجمد کردیے کہ یہ فنڈ عسکریت پسند گروپ دہشت گردی کے لیے استعمال کرے گا۔

اقوام متحدہ کے دباؤ پر امریکہ نے افغان معیشت کی مدد کے لیے اس کا نصف حصہ چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن طالبان کی جانب سے افغان خواتین کو اسکول جانے یا کام کرنے سے منع کرنے کے بعد اسے بھی روک دیا گیا۔

سترہ ماہ گزرنے کے بعد بھی افغانستان بدستور تشویش ناک حالت میں ہے اور انسانی حقوق کی صورتِ حال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی کو سخت سردیوں میں شدید بھوک کا سامنا ہے۔

لیکن پڑوسی ملک پاکستان سے آنے والا پیسہ افغان حکومت کو رینگنے میں مدد کر رہا ہے۔

پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی میں ایک مالیاتی کنسلٹنسی الفا بیٹا کور سلوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خرم شہزاد کہتے ہیں کہ ”افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 10 سے 15 ملین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔“

بلوم برگ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اندازہ ہے کہ اس میں سے نصف پاکستان سے آتے ہیں۔

”دا افغانستان بینک“ کے ترجمان حسیب نوری نے کہا کہ طالبان کے زیر انتظام مرکزی بینک کے پاس معیشت کو سہارا دینے کے لیے کافی ڈالر کے ذخائر ہیں۔

اس میں سے کچھ اقوام متحدہ سے آتے ہیں، جو پچھلے سال سے ہر ہفتے تقریباً 40 ملین ڈالر کی انسانی امداد فراہم کر رہا ہے۔

چونکہ افغانستان عالمی بینکنگ سسٹم سے منقطع ہے، اس لیے نقد رقم کابل منتقل کی جاتی ہے، اور بعد میں اسے افغانی، مقامی کرنسی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا اگرچہ اس امداد سے طالبان کو براہِ راست فائدہ نہیں پہنچتا، لیکن بالآخر ڈالر مرکزی بینک کے خزانے میں پہنچتے ہیں۔

کسٹم ٹیرف، جن میں سے کچھ ڈالر میں جمع کیے جاتے ہیں، حکومت کے لیے فنڈز کا ایک اور ذریعہ ہیں۔

واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابق مشیر توریک فرہادی کہتے ہیں کہ، ”اقوام متحدہ دراصل مارکیٹوں میں ڈالر کی فراہمی اور اس کے بدلے میں افغانی (افغان روپیہ) خرید کر افغان کرنسی کی حمایت کرتا ہے۔“

”افغانی کی طلب درحقیقت اقوام متحدہ اور ڈالر کے اسمگلروں سمیت دیگر ذرائع نے پیدا کی ہے۔“

افغانی کی قدر میں گزشتہ سال ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 5.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو دنیا کی کسی بھی کرنسی کی مضبوط ترین کارکردگی میں سے ایک ہے۔

طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے چند ماہ بعد، دسمبر 2021 میں افغان کرنسی 124.18 کی ہمہ وقتی کم ترین سطح کو چھونے کے بعد تقریباً 89.96 فی ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔

اس عرصے کے دوران پاکستانی روپے کی قدر امریکی کرنسی کے مقابلے میں تقریباً 37 فیصد کمی ہوئی ہے، جو کہ سب سے بدترین صورتِ حال ہے۔

جنوری کے آخر میں پاکستانی روپیہ ایک دن میں تقریباً 10 فیصد تک گرا ہے، جو کم از کم دو دہائیوں میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔

اس کی وجہ بحران زدہ حکومت کے آئی ایم ایف سے انتہائی ضروری قرضے حاصل کرنے کے لیے شرح مبادلہ پر اپنی گرفت میں نرمی ہے۔

پاکستان جان لیوا سیلاب، بڑھتی ہوئی مہنگائی، سیاسی بحران اور ختم ہوتے غیر ملکی ذخائر کے سے نبرآزما ہے۔

دوسری جانب افغانستان کی کرنسی گزشتہ 12 ماہ کے دوران دنیا کی بہترین کارکردگی کرنے والوں میں شامل ہے جبکہ پاکستان کی کرنسی بدترین کارکردگی دکھانے والوں کی فہرست میں آگئی ہے۔

افغان وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق، گزشتہ سال کے وسط میں افغانستان کی طرف سے توانائی کے بھوکے پاکستان کو کوئلے کی برآمدات میں اضافے کے بعد اسمگلنگ کا آغاز ہوا۔

حکام نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بلوم برگ کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے پاکستانی روپے کو افغانستان میں قانونی ٹینڈر کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی سے بھی اسمگلنگ کو تقویت ملی ہے، جس سے برآمد کنندگان ڈالر میں تجارت کرنے اور امریکی کرنسی کو ملک میں واپس لانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے 23 جنوری کو سود کی شرح کے فیصلے پر ایک پریس کانفرنس سے پہلے ایک مختصر انٹرویو میں کہا، ”ہماری مارکیٹ اس وقت متاثر ہوتی ہے جب وہ مقامی مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں۔“

حاجی محمد رسول ایسے ہی ایک افغان تاجر ہیں، جو پاکستان کو کوئلہ برآمد کرتے ہیں۔

کوئلہ افغانستان کی بنیادی برآمدات ہے اور پاکستان اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

پاکستان کوئلہ افغانی میں خریدتا ہے، اسے مارک اپ کے عوض روپے میں فروخت کرتا ہے، روپے کو ڈالر میں تبدیل کرتا ہے اور رقوم کی منتقلی کے لیے روایتی حوالہ نظام کے ذریعے افغانستان واپس بھیجتا ہے۔

حاجی رسول کا کہنا ہے کہ نقدی کے بحران سے دوچار پاکستان میں ڈالر تلاش کرنا مشکل ہے، اس لیے وہ پشاور جیسی جگہوں پر سرحد کے قریب گرے مارکیٹس کا استعمال کرتے ہیں، جہاں وہ سرکاری شرح سے 10 فیصد زیادہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے افغانستان میں ڈالر لانے کے بارے میں کہا کہ “تقریباً تمام تاجر ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہمیں ”طالبان نے روپیہ ملک میں واپس لانے سے منع کیا ہے۔“

وزارت خزانہ کے ایک ترجمان احمد ولی حقمل نے کہا کہ طالبان ہر کسی کو ملک میں نقد دالر لانے کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن ملک سے زیادہ سے زیادہ ڈالر کی منتقلی کی اجازت نصف سے کم کر کے 5,000 ڈالر کر دی ہے۔

پاکستان کرنسی ڈیلرز گروپ کے ظفر پراچہ کے لیے مسئلہ پاکستان کی ”ناقص“ امیگریشن، تجارتی پالیسیاں اور بارڈر کنٹرولز کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روزانہ ہزاروں لوگ بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہیں اور ان میں سے کئی ڈالر لے کر جا رہے ہیں۔

afghanistan

پاکستان

Dollar Smuggling