کالعدم ٹی ٹی پی اور خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے خلاف امن مظاہرہ، ہزاروں افراد کی شرکت
خیبرپختونخوا کے عوام نے صوبے میں بڑھتی دہشتگردی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں کو مسترد کردیا ہے۔ عوام پختونخوا پولیس کے شہید جوانوں اور ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہمدردی میں سڑکوں پر نکل آئے۔
صوبے میں دہشت گردی کی اس لہر کے خلاف پشاور پریس کلب کے سامنے کئے گئے امن مظاہرے یا ”امن مارچ“ میں سیاسی جماعتوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، مزدور کسان پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے شرکت کی اور ہزاروں کی تعداد میں شریک کارکنوں سے خطاب کیا۔
مظاہرین نے سفید جھنڈے اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر ان کے مطالبات کے حق میں نعرے درج تھے۔
سوات اولسی پاسون
اس مظاہرے کا اہتمام مقامی نوجوانوں کی ایک تنظیم ”سوات اولسی پاسون“ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے ساتھ مل کر کیا۔
نوجوانوں کی یہ تنظیم کالعدم دہشتگرد گروہ ٹی ٹی پی کی جانب سے خیبرپختونخوا میں دوبارہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے بعد وجود میں آئی۔
گذشتہ سال اولسی پاسون نے خیبر پختونخواہ کے کئی شہروں میں ایک ہی مطالبے کے ساتھ امن مارچ کی قیادت کی، اور وہ تھا ”امن“۔
حالیہ امن مارچ میں نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شریک ہوئیں۔
’ہم اپنی زمین پر نئی جنگ مسلط نہیں ہونے دیں گے‘
قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ ”ہم ’پروجیکٹ طالبان‘ کی اس نئی تکرار کی مزاحمت کرنے والے اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر نئی جنگ مسلط نہیں ہونے دیں گے۔“
ہفتہ کو کیا جانے والا احتجاج قلعہ بند پشاور پولیس لائن مسجد میں ہونے والے ایک خودکش حملے کے خلاف کیا گیا، جس میں 102 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔
یہ ایک ایسا حملہ تھا جس نے 31 جنوری کو 255ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں چیف آف آرمی سٹاف کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ”کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے لیے زیرو ٹالرنس“ (عدم برداشت) ہوگی۔
قومی اسمبلی کے فلور پر بھی اس خود کش حملے کی مذمت کی گئی، جہاں وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوال اٹھایا کہ طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت کیسے دی گئی؟
صوبائی دارالحکومت کو ہلا کر رکھ دینے والا دھماکہ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ایک واضح یاد دلاتا ہے، جب بھاری ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں نے اسکول پر دھاوا بولا اور تقریباً 150 افراد کو شہید کیا جن میں زیادہ تر اسکول کے بچے تھے۔
پشاور پولیس لائن مسجد میں ہونے والے حملے میں شہداء کی زیادہ تر تعداد پولیس اہلکاروں اور افسران پر مشتمل تھی۔
’مسئلہ پشتون ماؤں، بہنوں اور بچوں کے بہائے گئے آنسوؤں کا ہے‘
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ یہ پشاور یا وزیرستان کی بات نہیں، یہ اقوام، قبیلوں، کسی علاقے کا یا تنظیم کی بات نہیں۔ جہاں پاسون نہیں وہاں بھی مظاہرے کئے جائیں گے۔ صوبے کے کونے کونے میں جائیں گے، سب کو اپنا پیغام پہنچائیں گے، پاسون کے زیرِ اہتمام ہر جگہ مظاہرے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”ہم انہیں خون کا ایک قطرہ، ایک آنسو بھی نہیں دیں گے۔ ہم اپنی سرزمین واپس حاصل کریں گے۔“
اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کریں گے۔ پشتونوں کو ہر جگہ باہر نکلنا ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں سے ہیں، پشاور سے ہیں یا وزیرستان سے۔ ہم پشتون ہیں اور پختون خوا سے ہیں۔ ہم اپنی قوم، اپنے ملک کی بات کریں گے۔ یہ مسئلہ ہمارے ملک اور ہماری سرزمین سے متعلق ہے۔ مسئلہ اس سرزمین پر دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی خونریزی کا ہے۔ وہ خون جو بے گناہ پشتونوں کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ، “یہ مسئلہ پشتون ماؤں، بہنوں اور بچوں کے بہائے گئے آنسوؤں کا ہے جو آج تک رو رہے ہیں۔ ہم وہ دن نہیں بھولے جب پشاور شہر کے مینا بازار میں دھماکہ ہوا۔ سڑکیں ہماری عورتوں اور بچوں کے اعضاء سے بھری پڑی تھیں۔ ہم وہ دن نہیں بھولے جب انہوں نے تیراہ میں ہمارے بچوں کو ذبح کیا اور اے پی ایس میں ہمارے بچوں کو قتل کیا۔ سوات اور دیر کے لوگوں کی چیخ و پکار آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتی ہے۔ ان کی پشتونوں کے خون کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی۔ چند روز قبل پولیس لائنز پشاور میں انہوں نے ہمارے 100 سے زائد لوگوں کو شہید کیا۔ ہم پولیس لائنز کے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں اور شہداء کے اہل خانہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ آپ کا غم ہر پشتون کا غم ہے۔
’کسی صورت اپنے گھروں کو نہیں چھوڑیں گے‘
اولسی پاسون یا ”اولسی پاڅون“ اور احتجاج میں شریک سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پشاور پولیس لائنز مسجد پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی شفاف تحقیقات کرکے ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
امن مارچ کے شرکاء کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں، ہمیں امن چاہیے۔ جب بھی مصیبت آتی ہے تو وہ اس خطے کے عوام پر آتی ہے۔ پہلے ہم نے قربانی دی، ہمارے گھر تباہ ہوئے، ہم بے گھر ہوگئے۔ لیکن اس بار ہم نے مقابلہ کرنا ہے، ہم کسی صورت اپنے گھروں کو نہیں چھوڑیں گے، حکومت کو چاہئیے کہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کریں۔
’عوامی آگاہی سے امن کی واپسی‘
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی سرزمین پر دہشت گردی نہیں امن چاہئے۔
افتخار حسین اپنے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو 2010 میں ایک دہشتگرد حملے میں کھو چکے ہیں۔ ان کی جماعت بھی دہشت گردی کے خلاف مؤقف کی وجہ سے کالعدم تحریک طالبان کی بندوقوں کے نشانے پر رہی ہے۔
اب بھی اسی راستے پر گامزن اے این پی رہنما نے کہتے ہیں کہ وہ امن کے لیے قربانیاں دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کے دشمن ہمارا راستہ کبھی نہیں روک سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرپسندوں کا خیال ہے ہمارے گھروں پر حملے کریں گے تو ہم خاموش ہوجائیں گے۔ بدامنی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ٹارگٹ کلنگ سے بھی خاموش نہیں کرایا جاسکتا۔ پختون قوم امن کے دشمنوں کو جان چکے ہیں اور مزید کسی صورت اپنی سرزمین پر جنگ کے کاروبار کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
انہوں نے خیبرپختونخوا پولیس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس پر حملوں مقصد ڈر اور خوف کی فضا قائم کرنا اور پولیس کا مورال ڈاؤن کرنا ہے۔ پولیس ہیڈکوارٹر پر حملہ ہمارے جوانوں کے حوصلے پست نہیں کرسکتا۔ پختونخوا پولیس ماضی میں بھی قیام امن کیلئے قربانیاں دے چکی ہیں۔ پختونخوا پولیس ہمارا فخر ہے اور قیام امن کیلئے ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوات، باجوڑ، وزیرستان اور دیگر علاقوں میں عوامی آگاہی کی وجہ سے امن لوٹ آیا ہے۔
افتخار حسین نے کہا کہ قوم متحد ہے، پورا پختون خواہ امن کے دشمنوں کی غنڈہ گردی کا خاتمہ کرے گا۔
اولسی پاسون کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن کے قیام کیلئے بلا امتیاز تمام سیاسی پارٹیوں کو جمع کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
مسلسل تپش جھیلتا پختونخوا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا نے اٹھایا ہے۔
1980 کی دہائی میں سوویت حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف شروع ہونے والی جنگ میں اور 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اٹھنے والی آگ کی تپش شمال مشرقی صوبے نے محسوس کی۔
اب، پڑوسی ملک افغانستان میں عبوری حکومت کی آمد کے بعد سے صوبہ پھر ویسی ہی صورتِ حال کا سامنا کر رہا ہے، کیونکہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ارکان، جنہوں نے امریکی فوجیوں کے خلاف جنگ میں اپنے نظریاتی جڑواں افغان طالبان کی مدد کی تھی، اب پاکستان میں دوبارہ نمودار ہوئے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے میں بھتہ خوری کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، جبکہ حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق بھی کی ہے۔
ڈاکٹروں، منتخب نمائندوں اور تاجروں کو سرحد پار بیٹھے عسکریت پسندوں کی کالیں موصول ہوئی ہیں۔
ان میں سے کچھ نے تو ادائیگی بھی کی ہے اور خیبرپختونخوا سے پاکستان میں دیگر محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی ہے۔
پاکستان نے کئی بار عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو ممالک کے خلاف دہشت گرد حملوں کے لیے ’’لانچ پیڈ‘‘ نہ بننے دیں۔
Comments are closed on this story.