ہم نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہوگا، محسن داوڑ
پشاور کے علاقے ملک سعد پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری آرگیومنٹ رہی ہے کہ جس طرح سے ہم افغان طالبان، حقانی نیٹورک کوئٹہ شوریٰ کو سپورٹ کرتے آرہے تھے، وہ یہاں سے افغانستان میں اپنے حملے کرتے تھے۔ ان کی سروائیول (بقا) ہی ہماری وجہ سے تھی، ورنہ وہ بیس سال کے طویل عرصہ سروائیو نہ کرتے۔
امریکا کا ارادہ بھی ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کا نہیں تھا اور نہ ہی اس مسئلے سے نمٹنا ان کا مقصد تھا۔ ان کے اپنے اسٹریٹجک مفادات تھے، یہ الگ بحث ہے۔
لیکن ہم نے بھی انہیں جگہ دی اور اس لیے انہوں نے جا کر ہمارے مقامی گروپوں کی حمایت کی۔ مقامی طالبان بھی ان کی حمایت کی۔ اور اس تمام سپورٹ سے افغانستان میں ایک منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا اور طالبان نے قبضہ کر لیا۔
ہم تنبیہہ کر رہے تھے کہ یہ اسپل اوور اب یہاں (پاکستان) کی طرف ہوگا، پہلے ان کی توجہ اُسی طرف تھی، لیکن اب وہ ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔
میں نے ایک مضمون میں لکھا بھی تھا کہ افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی کی تلاش میں ہم نے پاکستان میں اپنی اسٹریٹجک گہرائی کھو دی ہے۔ اب یہ بائی ڈیزائن تھا یا کچھ اور، بہرحال جب ہم نے یہ سمجھ سکتے تھے تو انہیں بھی اس کی سمجھ تھی۔ لیکن ہم پھر بھی ان کا ساتھ دیتے رہے۔
پھر جب افغانستان کا یہ واقعہ ہوا اور انہوں (طالبان) نے ملک پر قبضہ کرلیا تو یہاں سے وفود اور جرگے جانے شروع ہوگئے اور انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے ذریعے ٹی ٹی پی سے بات چیت شروع کر دی۔
ہم تک اندرونی کہانیاں پہنچتی تھیں، ان کے مطالبات بہت زیادہ تھے۔ ٹی ٹی پی ہمارے علاقوں میں مکمل اقتدار اور اختیار چاہتی تھی، اور چاہتی تھی کہ اسلحہ سمیت وہ واپس آئیں۔
یہاں پر جنرل فیض جرگے اور بیوروکریٹس وغیرہ کو بھیجتے تھے۔ وہاں جو باتیں ہوتی تھیں وہ الگ تھیَ ان کو ایک طریقے سے یقین دہانی کرادی گئی تھیکہ فاٹا اںضمام کو بھی ہم ختم کردیں گے، آپ لوگ واپس آجائیں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ فاٹا کے انضمام سے متعلق ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں پڑی ہے۔
یہاں کا بیانیہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور قانون کی پاسداری کریں گے، حالانکہ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم اس آئین و قانون کو نہیں مانیں گے، یہ قانون اسلامی ہی نہیں ہے۔
ہم نے پھر کہا کہ ان لوگوں کو مذاکرات کے نام پر جگہ دی جا رہی ہے، ان کو جان بوجھ کر آباد کیا جا رہا ہے۔
قومی سلامتی کے تمام اجلاسوں میں ہم نے بریفنگ سنی اور ہم نے اس کا جواب دیا اور کہا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں لیکن اگر آپ انہیں جگہ دیں گے تو حالات بدترین ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بھی انہیں جگہ دی گئی اور جو کچھ اب ہو رہا ہے ہم نے انہیں لفظ بہ لفظ بتا دیا تھا کہ ایسا ہو گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی وجہ سے انہیں کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت راستہ دیا جا رہا ہے اور دوبارہ بسایا جا رہا ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ نکلے ہیں اور مزاحمت کی وجہ عسکریت پسند کسی حد تک بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ یہ مکمل قبضے جیسی صورتِ حال نہیں ہے۔ ورنہ یہ سوات میں آگئے تھے، باجوڑ میں حملے کر رہے تھے۔ وزیرستان، مہمند، سوات، بنوں، باجوڑ، خیبر، اور ہر جگہ عوامی بغاوتوں کی وجہ سے کچھ حکومتی کنٹرول باقی تھا۔
ورنہ ان کی موجودگی اتنی مضبوط ہے کہ پشاور میں بھی وہ ہر دوسرے دن پولیس پر حملے کر رہے ہیں۔ آج انہوں نے پولیس لائنز پشاور کی مسجد پر بھی خودکش حملہ آور کے ذریعے حملہ کیا ہے۔ چند روز قبل سربند تھانے پر حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دوسرے پولیس افسران کو شہید کر دیا اور وہ بغیر کسی روک توک کے چلے جاتے ہیں۔
اس سے پہلے بنوں سی ٹی ڈی کے ایک تھانے کو قابو کرلیا تھا، اس سے پہلے تھانہ براگی جو لکی مروت اور بنوں کے درمیان باؤنڈری پر آتا ہے، اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے پہلے وانا سٹی تھانے پر قبضہ کر کے وہ تمام اسلحہ اندر لے گئے تھے۔
میں اس کو افغانستان کا ایکشن ری پلے دیکھ رہا ہوں۔ افغانستان میں بھی یہی صورت حال تھی، حکومت گرنے سے پہلے افغان طالبان نے یہاں سے مختلف علاقوں کے گورنر مقرر کردئیے تھے اور اب ٹی ٹی پی نے بھی مختلف علاقوں میں گورنر اور انٹیلی جنس چیفس مقرر کردئیے ہیں۔ اور وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں حملہ بھی کر سکتے ہیں لوگوں کو اٹھا بھی سکتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح کے ملے جلے اشارے سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو دئیے گئے تو وہ بھی کنفیوز ہیں اور قوم بھی کنفیوز ہے کہ کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
ملک کی مرکزی سیاسی قیادت اب بھی پرانی ناقص افغان پالیسی پر گامزن ہے کیونکہ عسکری قیادت ایسا ہی چاہتی ہے، جو کچھ بظاہر کہا گیا ہے وہ زمین پر کیے گئے اقدامات سے مختلف ہے۔
اب اس ساری الجھن کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہو رہا ہے، ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے اور شاید مغرب چاہتا ہو کہ کسی طرح افراتفری پیدا ہو ، عسکریت پسندی ہو تاکہ چین کی اقتصادی ترقی اور سی پیک کا راستہ روکا جائے، اور شاید اسی لیے طالبان سے مذاکرات کو جگہ ملی۔ شاید اسی وجہ سے امریکہ اچانک پیچھے ہٹ گیا اور افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دیا۔
نتیجتاً عوام مشکلات کا شکار ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ کوئی سرمایہ کاری کرنے نہیں آرہا، ہماری معیشت بری حالت میں ہے، امنِ عامہ کی حالت بدتر ہوگئی ہے۔
پہلے کے طالبان اور اب کے طالبان میں کافی فرق ہے۔ اب ان کی پشت پر پوری ریاست ہے اور وہ آسانی سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے وہ پیادے جنہیں افغانستان میں ریاستی ڈھانچے کا کوئی حصہ نہیں ملا وہ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد تو ابھی بھی جاری ہے، انہیں لڑنا ہے، آگے بڑھنا ہے اور مزید فتوحات حاصل کرنی ہیں۔ ہم انہیں اپنے علاقوں میں آتے دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان میں لڑے، وہ یہاں ٹی ٹی پی اور مقامی گروپوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے اس گریٹ گیم کے اجزاء اور جزیات تیار کرلی ہیں، انہیں خام مال ملا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید اب کوئی نئی بھرتیاں نہ ہوں، لیکن نئی بھرتیاں بھی جاری ہیں، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اور جتنا یہ خطرناک ہوتا ہے اتنی ہی اس کیلئے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ سنجیدگی سے اس سے نمٹا جارہا ہے، جو بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیا یہ کسی وجہ سے جان بوجھ کر ہورہا ہے؟ کیا ہم پھر مہرے بن رہے ہیں؟
وجہ کچھ بھی ہو، لوگوں کی حالت خراب ہے اور دہشت گردی دن بدن بڑھ رہی ہے اور شاید اگر مہم جوئی جاری رکھی گئی تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
Comments are closed on this story.