مردم شماری، ایمرجنسی یا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ، کیا عام انتخابات ملتوی ہوں گے
پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور عام انتخابات دروازے پر دست دے دے رہے ہیں، ایسے میں متعدد قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ ان انتخابات میں تاخیر کیسے ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے انتخابات چھ ماہ مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن کیا انتخابات میں آئین میں دی گئی مدت سے زیادہ تاخیر واقعی ممکن ہے؟
اگلے عام انتخابات تازہ مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جانے تھے جو ایک بار پھر سے ریشیڈول کردی گئی ہے۔ مردم شماری کی تاریخیں فروری مارچ سے مارچ اپریل میں منتقل کر دی گئی ہیں۔
آئین کیا کہتا ہے؟
آئین میں واضح ہے کہ عام انتخابات کب اور کیسے کرائے جائیں۔
آئین کا آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے تو عام انتخابات 60 دن کے اندر اور اگر مقررہ وقت سے پہلے تحلیل ہو جائیں تو 90 دن کے اندر کرائے جائیں۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ کمیشن کے پاس ملک میں انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ یا اختیار نہیں ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو کمیشن 90 دنوں کے اندر الیکشن کرانے کا پابند ہے۔
سابق سکریٹری ای سی پی نے کہا کہ اگر کوئی تاخیر ہوتی ہے تو وہ کہیں اور سے آئے گی۔
کنور دلشاد کہتے ہیں، ”مردم شماری میں تاخیر (انتخابات میں تاخیر کی) ایک علامت ہو سکتی ہے، اسے (مردم شماری کو) 31 دسمبر کو مکمل ہونا تھا۔“
انہوں نے مزید کہا کہ مردم شماری میں تاخیر اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہے کہ چیزوں کی منصوبہ بندی کیسے کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پھر بھی اگر آج انتخابات کا اعلان ہوجاتا ہے تو ای سی پی کا راستہ صاف ہے۔ انتخابات پھر پرانی مردم شماری کے مطابق ہی کرائے جائیں گے۔
کیا مردم شماری میں تاخیر سے کوئی فرق پڑے گا؟
اس حقیقت کے پیش نظر کہ اسلام آباد اور سندھ میں متعدد بار بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہوئی ہے، عام انتخابات کی حلقہ بندیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔
ملک میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے دسمبر 2021 سے کام ہورہا ہے، جسے 31 دسمبر 2022 کے بعد مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
تاہم، منگل کو پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (ادارہ شماریات) نے اعلان کیا کہ مردم شماری مارچ میں شروع ہوگی اور نتائج اپریل کے آخر تک شائع کیے جائیں گے، اور اس طرح اس منصوبے کو ایک اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔
ممکنہ تاخیر کو محسوس کرتے ہوئے، ای سی پی نے دسمبر کے وسط میں وزارت منصوبہ بندی کو خط لکھ کر اس عمل کو تیز کرنے کے لیے کہا تھا۔
کمیشن نے کہا کہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے نئی حد بندیاں ’ضروری‘ ہیں اور یہ نئی مردم شماری کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر مردم شماری مکمل کرکے گزٹ میں اس کا اعلان کر دیا جائے تو قانون کے مطابق نئی حد بندیوں کی ضرورت ہوگی۔
تاہم، انتخابات پر نظر رکھنے والوں کے ساتھ کام کرنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات ”ابھی سے شروع ہونے والی مردم شماری“ کے مطابق ہونے کا امکان نہیں ہے۔
ان کے مطابق ”حد بندی کے عمل میں وقت لگے گا اور پھر اس کی تکمیل اور عام انتخابات کے درمیان تین کا وقفہ ہونا چاہیے۔“
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل میں تیزی لائی جائے تو بھی اس کے حتمی اعلان کا امکان نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے کی مردم شماری کو باضابطہ ہونے میں چار سال لگے تھے۔
اسمبلی کی مدت میں توسیع؟
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آئین میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر ایک مقررہ وقت کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
تو کیا ہوگا اگر اسمبلی اپنی مدت سے زیادہ کام کرنے لگے؟
آئین میں اسمبلی کی مدت سے زیادہ کام کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 232(6) کہتا ہے، ”ایمرجنسی کا نفاذ ہو تو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) قانون کے ذریعے قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال سے زیادہ کی توسیع نہیں کر سکتی۔“
”اور ایمرجنسی کا نفاذ ختم ہونے کی صورت میں کسی بھی طور پر چھ ماہ سے زیادہ توسیع نہیں کی جائے گی۔“
لہٰذا، اسمبلی کو ڈیڑھ سال تک ”ہنگامی“ صورت حال کے نام پر روکا جاسکتا ہے۔
یہ تو واضح نہیں کہ توسیع سے ایسا کیا حاصل کیا جاسکتا ہے جو موجودہ حکومت نہیں کر سکتی، خاص طور پر موجودہ وزیر خزانہ کا یہ اصرار کہ وہ ہر لحاظ سے اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔
اس کے علاوہ نگراں سیٹ اپ میں توسیع کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
لیکن آرٹیکل 224 کی دفعات یہ واضح کرتی ہیں کہ نگراں سیٹ اپ کا 90 دنوں سے آگے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایک نیا گروپ
دوسری جانب، مختلف جماعتوں سے الگ الگ سیاست دانوں کا ایک گروپ اکٹھا ہوا ہے، جس نے پاکستان کے عدم استحکام کے حل پر ’دوبارہ سوچنے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
گروپ کے سرکردہ ارکان میں حال ہی میں پیپلز پارٹی چھوڑنے والے مصطفیٰ نواز کھوکھر، مسلم لیگ ن کی جانب سے تادیبی کارروائی کا سامنا کرنے والے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور حال ہی میں ایک نئی سیاسی جماعت کی قیاس آرائیوں سے وابستہ شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔
کوئٹہ میں بطور ایک گروپ اپنی پہلی عوامی پیشی کے دوران، مقررین نے جبری گمشدگیوں سے لے کر انتخابی دھاندلی تک ہر چیز پر تبادلہ خیال کیا۔
تاہم، ان کی بحث گھوم پھر کر اسی ایک نقطہ پر پہنچی کہ وہ سمجھتے ہیں موجودہ سیاسی نظام ملک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ناقص ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو آگے بڑاھنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز، سیاست دانوں، عدلیہ اور فوج کو اپنے طریقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ مایوس اراکین کا یہ گروپ فی الحال ملک بھر میں ہونے والے سیمیناروں تک محدود ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک کے مسائل کے مزید ’تخلیقی‘ حل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
انتخابی سال میں اس گروپ کا ظہور، اس بات کی علامت ہے آنے مزید بہت کچھ نیا دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
دوسرے ملک کی مثال
حالانکہ چیزیں ہمیشہ قواعد کے حساب سے نہیں ہوتیں۔
خالدہ ضیا کی بی این پی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک مختصر سیاسی غیر یقینی صورتحال کے بعد جنوری 2007 میں بنگلہ دیش میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
عالمی بینک کے سابق ملازم اور مرکزی بینک کے گورنر فخرالدین احمد کو نگراں حکومت کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔
حکومت نے انتخابی شیڈول کے ساتھ ساتھ بنیادی آزادیوں کو بھی معطل کر دیا۔
اس دوران انہوں نے اعلیٰ سطحی بدعنوانی کے مقدمات پر کارروائی کی۔
بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو قید یا جلاوطن کر دیا گیا اور انہیں صرف انتخابات کے لیے واپس آنے کی اجازت دی گئی۔ جو تقریباً دو سال بعد دسمبر 2008 میں ہوئے تھے۔
Comments are closed on this story.