Subscribing is the best way to get our best stories immediately.
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے خلاف کیس میں پولیس نے تاحال چالان پیش نہیں کیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ 14روز گزرنے کے باوجود چالان کیوں جمع نہیں ہوسکا؟
اسلام آبادڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان دینے کے کیس کی سماعت کی۔
فواد چوہدری اپنے وکیل علی بخاری اور فیصل چوہدری کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
فواد چوہدری نے عدالت میں جج سے کہا کہ حاضر ہیں جناب۔
عدالت نے وکلاء سے سوال کیا کہ مقدمے کا چالان جمع ہوا؟
مزید پڑھیں: فواد چوہدری کو مشروط ضمانت پر رہا کردیا گیا
وکیل نے جواب دیا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے اب تک مقدمے کا چالان جمع نہیں کروایا جا سکا۔
جج نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کو بلا لیتے ہیں، 14 روز بعد بھی چالان جمع کیوں نہیں ہوا؟
وکیل علی بخاری نے استدعا کی کہ ہمیں 3 مارچ کے بعد کی تاریخ دے دیں تاکہ استثنیٰ کی درخواست دائر نہ کرنی پڑے۔
مزید پڑھیں: فواد چوہدری کیس: الیکشن کمیشن کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد
جج نے جواب دیا کہ تفتیشی افسر سے معلوم کر لیتے ہیں، پھر تاریخ دیں گے، فواد چوہدری چاہیں تو چلے جائیں، اگلی تاریخ تفتیشی افسر کے پیش ہونے پر دیں گے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں بدھ 25 جنوری کو علی الصبح لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں، پولیس انہیں ماتحت عدالت سے راہداری ریمانڈ لے کر اسلام آباد لے آئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کی ہدایت کی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔
پی ٹی آئی رہنما کے خلاف تھانہ کہسار اسلام آباد میں الیکشن کمیشن حکام کو دھمکانے کا مقدمہ درج ہے۔
بعدازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آج غداری کے کیس میں پیشی تھی، ابھی تک پولیس کوئی چالان پیش نہ کرسکی، ہمیں بھی پتہ لگے کہ ہم نے غداری کیا کی ہے، سیاسی مخالفین پر غداری کے پرچے درج ہورہے ہیں، اگر میں غدار ہوں تو میرے سارے ووٹر غدار ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں کچھ نہ سمجھ لوگ جن کو تاریخ کا نہیں پتہ، ہمارے اوورسیز پاکستانی ان سے کیوں نفرت کرتے ہیں، اس حکومت نے گرین پاسپورٹ کی عزت ختم کردی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کے لیے یہ لوگ تیار نہیں ہیں، موجودہ حکومت عمران خان کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں، ،الیکشن وقت پرنہ ہونا آئین کی خلافی ورزی ہوگی۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے خلاف تویین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ نے دونوں آئی جیز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا-
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چوہدری کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کے خلاف تویین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
فواد چوہدری کے عزیز نبیل شہزاد کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ فواد چوہدری کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف عدالت نے پولیس کو فواد چوہدری کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا، عدالتی حکم کے باوجود پولیس نےانہیں لاہور ہائیکورٹ پیش نہیں کیا،عدالتی حکم کی اطلاع بروقت پولیس افسروں کو موصول ہوئی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: فواد چوبدری کیخلاف درج مقدمات کا ریکارڈ طلب
وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم نظر انداز کرتے ہوئے فواد چوہدری کو لاہور شہر میں گھما کر بذریعہ موٹروے اسلام آباد لے جایا گیا، پولیس افسروں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جو قابل اعتراض بات ہے، آئی جی سمیت کوئی افسر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عدالتی حکم سے آگاہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسروں نے جان بوجھ کر عدالتی حکم کو نظر انداز کیا اور توہین عدالت کے مرتکب ہوئے، پولیس افسروں نے عدالتی حکم پر عمل کی بجائے عدالتی نظام کا مذاق اڑایا۔
استدعا کی گئی کہ عدالت ذمہ افسروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرتے ہوئے توہین عدالت کی سزا سنائے۔
جس پر عدالت نے آئی جی پنجاب اورآئی جی اسلام آباد کے خلاف تویین عدالت کی درخواست میں نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا-
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد حسین چوہدری کو مشروط ضمانت ملنے کے بعد پر رہا کردیا گیا۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیسشن کورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء فواد چوہدری کی ضمانت آئندہ ایسی گفتگو سے پرہیز کی شرط پر منظور کرلی گئی۔
سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے درخواست ضمانت پر سماعت کی، جس میں تفتیشی افسر نے کیس کا ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا۔
فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن مدعی مقدمہ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکرٹری انفرادی طور پر خود ریاست نہیں، بغاوت کی دفعہ انفرادی طور پر کچھ نہیں، بغاوت کی دفعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ فواد چوہدری کو جھوٹے کیس میں نامزد کیا گیا، ان پر لگی دفعات پر عدالتوں کے کم فیصلے موجود ہیں، الیکشن کمیشن نہ گورنمنٹ ہے نہ ہی ریاست، بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ اتھارٹی ہے، جس طرح کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں زیادہ سے زیادہ صرف دفعہ 501 (1) لگا سکتے تھے، ان دفعات میں زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال یا عمر قید اور کم سے کم تین سال قید ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ فوادچوہدری کا کہنا ہے گھروں تک چھوڑ کر آئیں گے اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ کو پاکستان میں لٹریسی ریٹ کا پتہ ہے؟
پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ منشی کے لفظ کو غلط کیوں سمجھا جارہا ہے؟
پراسیکیوٹرنے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ اپنے بیان سے تو فواد چوہدری انکاری نہیں۔
پراسیکیوٹر نے درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری نے پروگرام میں کہا اس ملک میں بغاوت فرض ہے، بیان سے عوام میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کا فوٹوگرامیٹک اور وائس میچ ٹیسٹ ہوچکا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر فواد چوہدری اپنا بیان مان رہے ہیں تو ٹیسٹ کیوں کروائے گئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ فواد چوہدری ٹرائل کے دوران اپنے بیان سے مُکرسکتے ہیں، جس کے لیے فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کرایا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون کولونیل دور پر مبنی ہے، کچھ دفعات واپس کولونیل دور میں لے جاتی ہیں، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اُن دفعات میں سے ایک ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بھی درخواست ضمانت مسترد کرنے کی استدعا کی۔
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فواد چوہدری کی مشروط ضمانت منظور کرلی۔
ضمانت منظور ہونے کے بعد فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تاریخی جدوجہد پر بابر اعوان کا مشکور ہوں، بابراعوان نے بہادری سے مقدمہ لڑا۔
فیصل چوہدری نے پارٹی قیادت اور کارکنان کا بھی شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو لندن سے آنے والی ہدایت پر گرفتار کیا گیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو میں فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پہلی مرتبہ آئین اور انسانی حقوق کی بے توقیری دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی بالادستی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، ملک کے ایک طرف ایک کھائی اور دوسرا بحالی کا راستہ ہے، پورا پاکستان عمران خان کےبیانیہ کے پیچھے کھڑا ہے۔
بابراعوان نے مزید کہا کہ ظالم نظام سےعوام کی جان چھوٹنے والی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے کہا کہ ملک میں قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، اب برائے راست قانون کو چیلنج کیا جارہا ہے، بابراعوان نے بہادری سے فواد چوہدری کا مقدمہ لڑا۔
اس موقع پر فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں عدالتوں سے ہی انصاف ملا ہے، اپنے وکلاء کی بہت بہت شکر گزار ہوں، اپنی بیٹیوں کے ساتھ اڈیالہ جارہی ہوں، فواد چوہدری کو آج گھر لے جانے کا کہا تھا، آج ہی لے جارہی ہوں۔
حماد اظہر نے کہا کہ بے بنیاد کیس کو آگے بڑھایا گیا ہے، پورا پاکستان انصاف مانگ رہا ہے، انصاف نہیں ہوگا تو معاشرہ تباہ ہی ہوگا۔
اور اب فواد چوہدری کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا ہے، اس موقع پر کارکنان کی بڑی تعداد جیل کے باہر موجود رہی اور نعروں میں فواد چوہدری کا استقبال کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کو دھمکی دینے کے کیس میں پی ٹی آئی گرفتار رہنما فواد چوہدری سے ان کی اہلیہ حبا چوہدری اور دونوں بیٹیوں نے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی ہے۔
الیکشن کمیشن کو دھمکی دینے اور بغاورت کے کیس میں فواد چوہدری کو گزشتہ روز عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا۔
فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری اور دونوں بیٹیاں ملنے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچیں، جہاں انہوں نے بیٹیوں کے ہمراہ فواد چوہدری سے ملاقات کی۔
فواد چوہدری کی اہلیہ نے شوہر سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد اپنی بیٹیوں کے ہمراہ ٹوئٹر پر تصاویربھی شیئر کیں۔ اس سے قبل حبا چوہدری نے گلہ کیا تھا کہ انہیں 7 روز تک فواد چوہدری سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ عدالت نے فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی پولیس کی استدعا مسترد کرکے انہیں جوڈیشل ریمانڈپر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا جب کہ پی ٹی آئی رہنما کی درخواست ضمانت پر کل سماعت ہوگی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی 3 روز کے لئے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے فوادچوہدری کی درخوست ضمانت پر سماعت کی۔
فواد چوہدری کے وکلاء بابراعوان، علی بخاری اورفیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا۔
تاہم لیکشن کمیشن کے وکلاء نے درخواست ضمانت کی کاپی کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالت سے پرسوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
جج کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایاکہ جسمانی ریمانڈ پر دلائل دیے ہیں، ضمانت پر دلائل نہیں دیے ۔
بابراعوان نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی بات کرے، پراسیکیوشن کی طرف سے بات نہ کریں۔
بابراعوان نے استدعا کی کہ درخواست پر آج پراسیکیوشن اور کل الیکشن کمیشن دلائل دے دے۔
عدالت نے وکیل بابراعوان کی آج پراسیکیوشن اور کل الیکشن کمیشن کے دلائل کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔
جج فیضان حیدرگیلانی نے ریمارکس دیے کہ فواد چوہدری کی درخواست ضمانت پر دلائل سب کے ایک ساتھ سنیں گے۔
بابراعوان نے کہا کہ پراسیکیوٹر سے پوچھ کیں، کہیں ان کے پلیٹ لیٹس کم نہ ہوگئے ہوں۔
بعدازاں عدالت نے درخواست پر سماعت ایک روز کے لئے ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی رہنما اسدعمرکا دعویٰ ہے کہ گرفتار رہنما فواد چوہدری کو آج رہا کردیا جائے گا۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اسد عمر نے لکھا، ’ آج انشاء اللّٰہ فواد چوہدری اپنی غیرقانونی حراست سےآزاد ہوگا’۔
ہیش ٹیگ فواد چوہدری کو رہا کرو، کے ساتھ یہ ٹویٹ کرنے والے اسد عمرکا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد قوم کی حقیقی آزادی کے لئے ایک بار پھر فواد چوہدری کی آواز پھرگونجے گی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں گرفتار فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ مکی استدعا مسترد کردی تھی۔
فواد چوہدری کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص راجا کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں جہاں عدالت نے پولیس کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی گرفتاری پرماڈل ایان علی نے اپنا ردعمل ذرا ’منفرد انداز‘ میں ظاہرکیا ہے۔
کرنسی اسمگلنگ کیس سے خبروں میں جگہ بنانے والی ایان نے فواد چوہدری اور ان کی اہلیہ حبہ فواد کی تصویرشیئرکرتے ہوئے حبہ کو بالی ووڈ کیریکٹرسے تشبیہہ دے ڈالی۔
ایان نے حبہ فواد کو اپنی بہن قراردیتے ہوئے لکھا، ’احترام کے ساتھ ہماری بہن مسز فواد چوہدری مجھے بالی ووڈ فلم ’دسوی‘ کے کرداربمو چوہدری عرف بملا دیوی کی یاد دلاتی ہیں‘۔
ایان نے نہ صرف حبہ بلکہ فواد چوہدری کو بھی نشانے پررکھتے ہوئے ان کی گرفتاری کی تشریح انگریزی کی ایک کہاوت سے کی جس کے مفہوم کے مطابق ، ’وہ اپنے جرائم میں متاثرین کا کردارادا کرتے ہیں‘۔
ایان علی نے جس فلم کا تذکرہ کیا وہ سال 2022 میں ریلیزکی گئی تھی، سوشل کامیڈی فلم کی ہدایتکاری تشار جلوٹا نے کی اور اس کے مرکزی کرداروں میں ابھیشیک بچن، یامی گوتم اور نمرت کورشامل ہیں۔
فلم میں ابھیشک بچن ایک ان پڑھ سیاست دان کا کردارجن کی کرسی بملا دیوی (نمرت کور) چھین لیتی ہیں جبکہ یامی گوتم آئی پی ایس افسرکے کردار میں دکھائی دیتی ہیں۔
فلم کو اس کی کہانی، مزاح، اداکاری اور سماجی پیغام کیلئے تعریف کے ساتھ ملا جلا ردعمل رہالیکن اسکرین پلے میں عدم مطابقت کی وجہ سے تنقید بھی کی گئی۔
ایان علی کی طرح کئی سوشل میڈیا صارفین بھی حبہ کی عدالت میں خاوند کے ساتھ کھنچوائی گئی تصاویرپران کے خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے اسی قسم کے تبصرے کرتے نظرآئے۔
واضح رہے کہ ایان علی کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آبادکے بینظیرانٹنرنیشنل ائرپورٹ سے دبئی جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، ایآن سے 5 لاکھ امریکی ڈالرز برآمد کیےگئے تھے۔
اس کیس نے کئی ماہ تک میڈیا پربھرپور توجہ سمیٹی، ایان علی کو کم از کم 4 ماہ تک جیل میں رہنا پڑا، فرد جرم عائد کرنے کے بعد ایان علی پرفردجرم عائد کی گئی اور ماڈل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا۔
فروری 2017 تک عدالتوں کا سامنا کرنے والی ایان علی سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد ضمانت پر17 فروری 2017 کو دبئی چلی گئی تھیں۔تاہم مارچ 2019 میں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظرمیں ملزمہ کرنسی اسمگلنگ میں ملوث پائی گئیں۔
اس دوران ایان سوشل میڈیا پربہت زیادہ متحرک نہیں رہیں تاہم 2021 کے اوائل سے وہ اکثروبیشتر سوشل میڈیا پوسٹس کے باعث خبروں کی زینت بنی رہتی ہیں۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد حسین چوہدری کو مزید جسمانی ریمانڈ میں دئے جانے کی استدعا مسترد کردی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں فواد چوہدری کو ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کیا تھا۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چوہدری اور فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری عدالت پہنچے، اس کے علاوہ پی ٹی آئی رہنما خرم نواز اور سینیٹر شہزاد وسیم بھی عدالت میں نظر آئے۔
سماعت شروع ہونے پر بابر اعوان نے جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی سماعت اگر تھوڑی جلدی کر دیں، جس پر جج نے کہا کہ فواد چوہدری کیس کے لئے ساڑھے 11 بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کو ساڑھے 11 بجے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ فواد چوہدری کا میڈیکل کروا کر رپورٹ پیش کریں۔
فواد چوہدری کو جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص راجا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں عدالت نے پولیس کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے فواد چوہدری کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری کا کہنا ہے کہ عدالتی ہدایات کے باوجود شوہر سے ملنے نہیں دیا گیا۔
فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور بچوں کو فواد سے ملنے نہیں دیا جارہا، سیشن کورٹ نے ملاقات کی اجازت دی تھی، چیف جسٹس اور وزیراعظم نوٹس لیں، ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں کہ ازخود نوٹس لیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ فواد کو کہاں رکھا گیا، آپ اس طرح مجھے توڑ نہیں سکتے، دہشت گردوں کی طرح کپڑا ڈال کر لے جایا جاتا ہے، آج فواد چوہدری پر کپڑا نہیں ڈالنے دینا۔
حبا فواد نے مزید کہا کہ مریم نواز کس حیثیت سے پروٹوکول لے رہی ہیں، پتہ چلا کہ بنی گالہ کی بھی سیکیورٹی اٹھالی، حکومت کے کسی فرد نے ہم سے اب تک رابطہ نہیں کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان کا کہنا ہے کہ حکیموں نے جڑی بوٹیوں سے 13 جماعتوں کا متنجن بنایا، عمران خان 33 نشستوں پر اکیلے 13جماعتوں کا مقابلہ کریں گے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ فوادچوہدری کو پہلے لاہور سے اغواء کیا گیا تھا، جلدی میں انصاف کیا جائے تو انصاف کچلا جاتا ہے، بغیر نوٹس کے فواد چوہدری کے خلاف پٹیشن حیران کن ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ اس وقت افسوسناک سے زیادہ تشویشناک صورتحال ہے، فواد چوہدری کو تیسری بار اغواء کیا گیا ، عدالت اور وکیل کو پتہ ہی نہیں کہ فواد چوہدری کہاں ہے، جس کے لئےعام تعطیل دی گئی وہ بھی نہیں پہنچ سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فواد چوہدری اپنے بیان کو تسلیم کرتے ہیں، فواد چوہدری کا حوصلہ نہیں ٹوٹے گا، فواد چوہدری کیس میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 13جماعتوں کو چیلنج کیا ہے، حکیموں نے جڑی بوٹیوں سے تیرہ جماعتوں کا متنجن بنایا، عمران خان 33 نشستوں پر اکیلے 13جماعتوں کا مقابلہ کریں گے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء فواد چوبدری کے خلاف درج تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے نبیل شہزاد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت پنجاب، محکمہ داخلہ وفاق و پنجاب،آئی جی اسلام آباد، پنجاب،ڈائیریکٹر جنرل ایف آئی اے،ڈائیریکٹر سائیبر کرائم اورچیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل احمد پنسوٹا نے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فواد چوہدری کے خلاف بغاوت کا جھوٹا مقدمہ درج کروایا گیا،اس طرح کے متعدد مقدمات درج کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ،نگراں حکومت کا کسی سیاسی شخصیت کے خلاف مقدمات درج کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ تمام اداروں کو مقدمات کی معلومات کے لئے خط لکھا گیا،کسی ادارے نے معلومات مہیا نہیں کیں،خدشہ ہے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا،عدالت تمام اداروں کو مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے،عدالت فواد چوہدری کو دیگر قائم مقدمات میں پیش ہونے تک ضمانت بھی منظور کرئے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد مقدمات کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت کل 31 جنوری تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کو ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان، فیصل چوہدری اور فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری عدالت پہنچ گئے ،اس کے علاوہ پی ٹی آئی رہنما خرم نواز اور سینیٹر شہزاد وسیم بھی عدالت پہنچ گئے۔
سماعت شروع ہونے پر بابر اعوان نے جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی سماعت اگر تھوڑی جلدی کر دیں، جس پر جج نے کہا کہ فواد چوہدری کیس کے لئے ساڑھے 11 بجے کا وقت رکھ لیتے ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کو ساڑھے 11 بجے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے تفتیشی افسر کو حکم دیا کہ فواد چوہدری کا میڈیکل کروا کر رپورٹ پیش کریں۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں بدھ 25 جنوری کو علی الصبح لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں، پولیس انہیں ماتحت عدالت سے راہداری ریمانڈ لے کر اسلام آباد لے آئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کی ہدایت کی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔
پی ٹی آئی رہنما کے خلاف تھانہ کہسار اسلام آباد میں الیکشن کمیشن حکام کو دھمکانے کا مقدمہ درج ہے۔
لاہور: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کو کو خط لکھ دیا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں سینیٹر اعظم سواتی اور ڈاکٹر شہباز گل سے دوران حراست پیش آنے والے غیرانسانی سلوک کا حوالہ بھی دیا۔
عمران خان نے خط میں چیف جسٹس آف پاکستان کو آئین کے کسٹوڈین کے طور پر زیر حراست افراد کے عزت اور وقار کے تحفظ کی اپیل کی۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے خط میں لکھا کہ زیر حراست افراد پر تشدد یا بے توقیری آئین کے آرٹیکل 9، 10 اے اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری کو ہتھکڑیاں لگا کر، سر اور چہرے کو دہشت گرد کی طرح ڈھانپ کر عدالت میں لے جانا ظاہر کرتا ہے کہ امپورٹڈ حکومت اور ریاست کس نچلی اور انتقامی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
توئٹر پر جاری اپنے پیغام میں عمرانا خان نے کہا کہ فواد چوہدری، اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں کوئی شک نہیں چھوڑا کہ اب ہم بنانا ری پبلک میں ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ملک میں اب جنگل کا قانون رائج ہے، جہاں طاقت ور صحیح ہے، ملک کا آئین و قانون آج کے فرعونوں نے پوری طرح محکوم کر دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے میرا حق نہیں، اس کا مطلب ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔
فواد چوہدری کا عدالت کے روبرو کہنا تھا کہ طاقتور لوگ سمجھتے ہیں ان پر تنقید کرنا ریاست سے غداری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو میں نے کہا ہے میں اس پر قائم ہوں، جو باتیں کیں ان کو مانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ میرا حق ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ طاقت ور لوگ سمجھتے ہیں ان پر تنقید درحقیقت غداری ہے، تاریخ اس بات کا تعین کرے گی کہ کون درست تھا اور کون غلط۔
انہوں نے کہا کہ میں منہ پر اچھا اچھا کہوں اور باہر جا کر گالیاں دوں یہ کونسی عزت ہے، اگر چیف الیکشن کمشنر تنقید نہیں لے سکتے تو آپ اس طرح کے عہدے نہ لیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار رہنما فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری کا کہنا ہے کہ جج صاحب کے حکم کے باوجود فیملی کو نہیں ملنے دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں حبا چوہدری نے کہا کہ بچیاں 5 دن سے باپ کا انتظار کررہی ہیں، بچیوں کو نہ اڈیالہ اور نہ کہیں اور ملنے دیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محسن نقوی میرے بچوں کو والد سے ملنے دیں، میرے بچے اپنے والد سے ملنے کیلئے رو رہے ہیں۔
اہلیہ نے بتایا کہ فواد اپنی بچیوں کا پوچھ کر کمرہ عدالت میں رو پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری دونوں بیٹیوں کو والد سے ملنے کی اجازت دی جائے، ہائیکورٹ میری اپیل سنے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد چوہدری کی اہلیہ حبا چوہدری نے پی ٹی آئی کارکنان سے ایف 8 کچہری پہنچنے کی اپیل کی ہے۔
اسلام آباد میں فواد چوہدری کی درخواست ضمانت پر سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا سے گفتگو میں حبا چوہدری نے کہا کہ فواد چوہدری ساڑھے بارہ بجے ایف 8 کچہری میں ہیش کئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں فیملی کے تمام لوگ موجود ہیں، کارکنان بھی ایف 8 کچہری پہنچے۔
عدالتی حکم کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد چوہدری کوعدالت پیش نہ کرنے پرلاہورہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی ہے۔
درخواست لاہور اور اسلام آباد کے 16 پولیس افسروں کیخلاف دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس افسروں نے عدالتی نظام کا مذاق اڑایا ساتھ ہی استدعا کی کہ عدالت ذمہ دار افسروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں پولیس کی جانب سے درخواست پر فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
جوڈیشل میجسٹریٹ وقاص راجا نے فوادچوہدری کے خلاف مقدمہ خارج کرنےکی درخواست مسترد کرتے ہوئے پولیس کی استدعا پر پی ٹی آئی گرفتار رہنما کا جسمانی ریمانڈ سے متعلق محفوظ فیصلہ سنایا اور انہیں پیر کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد حسین چوہدری کو عدالتی حکم پر سوا گنٹے کی تاخیر کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد چہرے پر کپڑا ڈال کر پہنچایا گیا۔
فیصل چوہدری نے عدالت سے فواد چوہدری کی ہتھکڑی کھولنے کی استدعا کی، جس پر فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے سوال کیا چابی ادھر ہی ہے یا مانگ کر لائیں گے؟ جس پر عدالت نے فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کاحکم دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے میرا حق نہیں، اس کا مطلب ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔
فواد چوہدری کا عدالت کے روبرو کہنا تھا کہ طاقتور لوگ سمجھتے ہیں ان پر تنقید کرنا ریاست سے غداری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو میں نے کہا ہے میں اس پر قائم ہوں، جو باتیں کیں ان کو مانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ میرا حق ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ طاقت ور لوگ سمجھتے ہیں ان پر تنقید درحقیقت غداری ہے، تاریخ اس بات کا تعین کرے گی کہ کون درست تھا اور کون غلط۔
انہوں نے کہا کہ میں منہ پر اچھا اچھا کہوں اور باہر جا کر گالیاں دوں یہ کونسی عزت ہے، اگر چیف الیکشن کمشنر تنقید نہیں لے سکتے تو آپ اس طرح کے عہدے نہ لیں۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نے پولیس کی اپیل پر فواد چوہدری کو طلب کرتے ہوئے ساڑھے 12 بجے تک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں فواد چوہدری کیس پر سماعت جاری ہے، جسٹس طاہر محمود خان پولیس کی ریمانڈ مسترد کرنے کی نظرثانی درخواست پر سماعت کر رہے ہیں۔
دورانِ سماعت فواد چوہدری کے وکلاء نے مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی درخواست دائر کردی، عدالت نے فواد چوہدری کی ڈسچارج کی درخواست پر سرکاری وکیل سے دلائل طلب کرلئے۔
سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈسچارج کی درخواست تب آسکتی ہے جب ریکارڈ پر شواہد موجود نہ ہوں، فواد چوہدری کے خلاف کافی مواد ریکارڈ پر موجود ہے، اس لئے ڈسچارج کی درخواست مسترد کی جائے۔
جسٹس طاہر محمود نے فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان کو کہا کہ آپ اپنے دلائل کا آغاز کریں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سرکاری وکیل نے کچھ دلائل دیے، جواب الجواب میں کچھ دلائل میں دوں گا۔
فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے کہا کہ آج کل تو یہ سرزمین بے آئین بنا دی گئی ہے، قانون میں ملزم سزا ہوجانے تک معصوم سمجھا جاتا ہے، پراسیکیوٹر نے کہا فواد کی فوٹو کی تصدیق کروانے کیلئے لاہور لے کر جانا ہے، فواد چوہدری کی کوئی وڈیو لیک تو نہیں جس میں معلوم کروانا ہو کہ ٹانگ مرد کی ہے یا عورت کی۔
وکیل بابراعوان کی جانب سے بیان سے متعلقہ یوایس بی بھی عدالت کو فراہم کی گئی۔
دورانِ سماعت بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کو نہیں بتانا چاہتا لوگوں کو یہاں سے کہاں لے جایا جاتا ہے، نہیں بتا سکتا کہ کہاں لے جا کر لوگوں کو ننگا کیا جاتا ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ فواد چوہدری کو ساڑھے 12 بجے طلب کیا گیا، ایک بج گیا ہے ابھی تک فواد چوہدری کو پیش نہیں کیا جا سکا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس عدالت سے بڑی مینجمنٹ موجود ہے، آپ توصرف اس کمرے کوریگولیٹ کرتے ہیں۔
جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کو لایا جا رہا ہے وہ راستے میں ہیں۔
جس پر بابر اعوان نے کہا کہ ایک بار اور میرے دلائل میں خلل ڈالا گیا تو میں بیٹھ جاؤں گا، اپنے گھوڑوں کولگام دیں، آپ کی حاضری لگ گئی ہے، آپ کو بڑا افسر بنا دیا جائے گا جیسا آپ کا ایس ایچ او ہے۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش نہیں کیا گیا، ایک وزیر نے کہا فواد کو 6 بجےایک جج کے پاس پیش کریں گے، میں اسے انصاف کہوں یا مینجمنٹ کہوں، یہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر دہشتگردی کی دفعہ لگاتے تو میں ایس ایچ او کو ہتھکڑی لگانے کی استدعا کرتا، پولیس نے ایف آئی آر میں 7 پولیس رولز کی خلاف ورزی کی ہے، آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ کو مقدمہ کی کاپی بھیجی ہے، ایف آئی آر سیکرٹری داخلہ سے آئی، فواد کو اٹھا لیا اب اس کو ریکورکرو۔
دوسری جانب پولیس نے بھی فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ سیشن کورٹ میں چیلنج کردیا۔
دورانِ سماعت فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو بات کرنے سے روک دیا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل اور بابر اعوان میں تلخ کلامی ہوگئی۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے لڑائی کرنی ہے تو باہر کریں۔
جس پر جسٹس طاہر محمود خان نے کہا کہ اعتراض تب کریں جب میں الیکشن کمیشن کے وکیل کو اجازت دوں۔
پراسیکیوٹر نے عدالت میں الیکشن کمیشن کے مقدمے کا متن پڑھا، عدالت نے سرکاری وکیل کو اپیل سے متعلقہ حصہ پڑھنے کی ہدایت کی۔
دورانِ سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ وائس میچ کرنے کیلئے فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ کرانا ہے، اس کے بیان کے پیچھے کون ہے یہ دیکھنا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری پارٹی کے کس بندے سے رابطے میں تھے یہ دیکھنا ہے۔
دو روزہ ریمانڈ کے حوالے سے سرکاری وکیل نے کہا کہ عملی طور پر فواد چوہدری ایک دن ہمارے پاس رہے ہیں۔
پولیس کی جانب سے دائراپیل میں استدعا کی گئی کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا جائے اور فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
سیشن جج طاہر محمود خان نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دو دن کے جسمانی ریمانڈ میں کیا تفتیش کی؟
جس کے جواب میں اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کروانا ہے، عملی طورپر ہمیں ریمانڈ کا ایک دن ملا، فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ پنجاب فرانزک لیب میں ہونا ہے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملزم کے وکلاء کونوٹس کی تعمیل ہوجائے پھردلائل دیں، جس کے بعد سیشن جج طاہر محمود خان نے سماعت میں وقفہ کیا۔
اس سے قبل اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار رہنما فواد حسین چوہدری کی ضمانت درخواست پر سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر نے درخواستِ ضمانت پر سماعت شروع کی تو فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم دلائل دینے کیلئے تیار ہیں۔
جس پر ایڈیشنل جج فیضان حید نے کہا کہ میرے سامنے ریکارڈ ہی نہیں توسماعت کیا کروں؟
عدالت نے سماعت 10 بجے تک ملتوی کردی۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں بدھ 25 جنوری کو علی الصبح لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
بعدازاں، پولیس انہیں ماتحت عدالت سے راہداری ریمانڈ لے کر اسلام آباد لے آئی۔
لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کی ہدایت کی لیکن اس پر عمل نہ ہوا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔
پی ٹی آئی رہنما کے خلاف تھانہ کہسار اسلام آباد میں الیکشن کمیشن حکام کو دھمکانے کا مقدمہ درج ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کا کہنا ہے کہ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان کو خطرہ کہاں سے ہے، کچھ ہوا تو ذمہ داری راناثناء پر ہوگی۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے شبلی فراز نے کہا کہ تمام سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، عمران خان پر کچھ عرصہ قبل قاتلانہ حملہ ہواتھا، عمران خان کی جان کو اب بھی خطرات ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہماری سیاست قانون اور آئین کے دائرے میں ہے، عمران خان نے کبھی عوام کو نہیں اکسایا، عمران خان قانون سے باہر کسی کام پر یقین نہیں رکھتے، ان کی سیکیورٹی کو واپس لے لیا گیا ہے، ہم نے عدالتوں میں 2 درخواستیں دائر کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ عمران خان کو خطرہ کہاں سے ہے، کچھ ہوا تو ذمہ داری راناثناء پر ہوگی، یہ غیر منتخب لوگ خاص ایجنڈے پر آئے ہیں، یہ لوگ وقت پر الیکشن نہیں چاہتے، یہ لوگ اپنے اقتدار کو طوالت دینا چاہتے ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت میں سیاسی لوگوں کو لگایا گیا ہے، عملی طور پر قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے، آئین پرعملدراری ریاست کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران آئین شکنی کررہے ہیں، آئین شکنی پر آرٹیکل 6 لگتا ہے، یہ لوگ ملک کو بنانا ری پبلک بنارہے ہیں، ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے، ملکی سالمیت خطرے میں ہے۔
سابق وفاقی وزیراطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ حکمران ٹولے نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے، قانون حکمران ٹولے کے گھر کی لونڈی بن گیا ہے، پنجاب میں الیکشن کمیشن نے متنازع شخص کو نگراں لگایا۔
شبلی فراز نے کہا کہ ہم سب کی نظریں عدالتوں پر لگی ہوئی ہیں، عدالتیں ان اقدامات کو کالعدم قراد دیں جو آئین سے متصادم ہیں۔، ہم نےنگراں وزیراعلیٰ کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے، فرخ حبیب قانون کی عمل داری کے لئے احتجاج کررہے تھے، فواد چوہدری کو بھونڈے انداز میں گرفتار کیا گیا۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ نے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے بھائی فیصل فرید ایڈوکیٹ کو ٹیلیفون کرکے فواد چوہدری کی گرفتاری سے متعلق کہی جانے والی باتوں پر معذرت کرلی۔
گرفتاری کے حوالے سے بیان پر فواد چوہدری کے اہلِ خانہ سے معذرت کرتے ہوئے پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری اور ان کے خاندان سے نہایت احترام و عقیدت کا رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نادانستہ بیان سے فواد چودھری اوراہلخانہ کے جذبات مجروح ہوئے، جس پرافسوس ہے۔
سابق وزیراعلٰی پنجاب نے مزید کہا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری اور جھوٹے پرچے کا اندراج قابلِ مذمت ہے۔
واضح رہے کہ پرویز الٰہی نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی والوں کو بہت سمجھایا کہ ابھی کام کرنے دو اسمبلی مت توڑو مگر میری ایک نہیں مانی گئی، ہم ایک سال اور کام کرتے تو یہاں ن لیگ کے کپڑے تک نہ ملتے۔
پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ خان صاحب کے قریب موجود لوگوں نے ہی پارٹی کی جڑ کاٹی، چار پانچ قریبی لوگوں میں سے ایک پکڑا گیا ہے، پہلے پکڑا جاتا تو کام ٹھیک رہتا۔
دوسری جانب فواد چوہدری کی گرفتاری کے معاملے پر پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو بھی سوشل میڈیا پرگردش ہے جس میں انہیں کہتے سنا جاسکتا ہے کہ آڈیو فواد چوہدری کو دیرسے گرفتارکیا گیا اگرایک ماہ پہلے ایسا کرلیتے تواسمبلیاں نہ ٹوٹتیں۔
آڈیو میں پی ٹی آئی رہنما کے لئے نامناسب زبان کا استعمال بھی سُنا جاسکتا ہے تاہم تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ یہ آڈیو پرویزالٰہی کی ہی ہےیا نہیں۔
فواد چوہدری کی گرفتاری کے خلاف آواز اٹھانے والی ان کی اہلیہ حبا فواد پیشی کے موقع پرعدالت پہنچیں تو مخالفین کو چیلنج بھی کردیا۔
فواد چوہدری کے بھائی ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کے ہمراہ عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرنے والی حبا فواد نے ایک سوال کے جواب میں پنجابی میں برجستہ کہا کہ ان کے لیے میں اکیلی ہی کافی ہوں۔
حبا فواد نے حمایت کرنےپر میڈیاکا شکریہ بھی ادا کیا۔
الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں 2 روز قبل لاہورسے گرفتارکیے جانے والے فواد چوہدری کو آج اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فوادچوہدری کو 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پراڈیالہ جیل بھیجنےکاحکم دیا،
پی ٹی آئی رہنما کے خلاف سیکرٹری الیکشن کمیشن کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی پیشی کے موقع پراسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے باہر بڑی تعداد میں پارٹی کارکن اور رہنما بھی پہنچے۔
فواد چوہدری کو الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں 2 روز قبل لاہورسے گرفتار کیا گیا تھا، ان کے خلاف سیکرٹری الیکشن کمیشن کی مدعیت میں مقدمہ درج ہے۔
پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر موجود کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے اندر جانے سے روکے جانے پر شدید نعرے بازی کی گئی۔
پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما شیریں مزاری بھی اندر جانے کے لیے کارکنوں کے ہجوم میں پھنسی نظرآئیں۔
پی ٹی آئی حامیوں نے عدالت کے باہر شدید نعرہ باری کرتے ہوئے اپنے تحفظات کااظہار کیا۔
فواد چوہدری کوعدالت میں پیش کیے جانے کے موقع پر اسلام آباد کچہری میں پولیس کی سخت سیکیورٹی تعینات کی گئی۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، پی ٹی آئی رہنما کو عدالتی اوقات شروع ہونے سے قبل عدالت پہنچایا گیا۔
فواد چوہدری کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی۔
پراسیکیوٹر نے عدالت سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی وائس میچنگ ہوگئی ہے، فوٹو گرامیڑک ٹیسٹ لاہور سے کروانا ہے، فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ درکارہے۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ فواد چوہدری سے ابھی ریکوریز بھی کرنی ہے، فواد چوہدری کیس کی مزید تفتیش کے لئے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے۔
پراسیکیوشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گِل کیس کا حوالہ دیا گیا۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ رات 12 بجے 2 روز کا ریمانڈ ملا تب تک ایک دن ختم ہوگیا تھا، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا ہے اب مزید ریمانڈ دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کا بیان ریکارڈ پرموجود ہے، انہوں نے اپنی تقریر کا اقرار بھی کیا ہے، تقریر پر تو کوئی اعتراض اٹھا نہیں سکتا، ملزم نے بیان مانا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ فواد چوہدری سینیر سیاستدان ہیں لیکن قانون سے بڑھ کر نہیں، ان کے گھر کی تلاشی لینا ضروری ہے، فواد چوہدری کے گھر سے لیپ ٹاپ اور موبائل برآمد کرنے ہیں، پی ٹی آئی رہنما کے بیان میں دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
بابر اعوان کے وکیل نے کہا کہ میں بھی فواد چوہدری کے بیان میں شامل ہوں۔
دوران سماعت فواد چوہدری کے وکیل بابراعوان اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ ایٹمی ریاست کو موم کی گڑیا بنا دیا گیا ہے، ججوں کے گھروں تک جانے کا بیان دیا گیا، ہم نے پرچہ نہیں کروایا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ فواد چوہدری کا بیان کسی ایک بندے کا بیان نہیں، ایک گروپ کا بیان ہے، الیکشن کمیشن نہیں بلکہ اعلیٰ عہدیداران کے خلاف مہم چل رہی ہے، ڈسچارج کی استدعا گزشتہ پیشی پر ڈیوٹی میجسٹریٹ نے مسترد کردی تھی، عدالت کے سامنے تمام شہری برابر ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کیس کا مدعی ایک سرکاری ملازم ہے، ٹیکس عوام دیتی ہے، موج سرکاری افسران لگاتے ہیں، پبلک سروینٹ کا مطلب عوام کا نوکر ہے، فواد چوہدری کوئی کلبھوشن یادہشت گرد نہیں ہے، کلبھوشن کے چہرے پر فواد چوہدری کی طرح چادر نہیں ڈالی گئی۔
وکیل بابراعوان نے مزید کہا کہ سیکٹری الیکشن کمیشن سرکار کے نوکروں کا بھی نوکرہے، مجھے اپنے منشی پر فخر ہے، میرے منشی کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت ہے، معلوم نہیں منشی سے پراسیکیوشن کو اتنی چِڑ کیوں ہے، الیکشن کمیشن کوئی وفاقی حکومت نہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی ہے۔
بابر اعوان نے فواد چوہدری کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سمیت حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے نہیں لاہور پولیس نے گرفتارکیا، جو بیان دیا وہ جماعت کا مؤقف ہے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محٖفوظ کیا جو کچھ دیر بعد سنادیا گیا۔
عدالت نے پولیس کی 7روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے فواد چوہدری کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پراڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف جہاں بھی مقدمہ درج ہوگا دفاع کریں گے، ملک میں آئینی احکامات کو بھی نہیں مانا جارہا، ضمنی انتخابات 90 دن کے اندر ہونا چاہئیں۔
فواد چوہدری کی اہلیہ ہبہ چوہدری کا کہنا ہے کہ سپورٹ کرنے پر میڈیا کی بہت مشکور ہوں، فواد چوہدری کی ضمانت کے لئے درخواست دیں گے۔
آج فواد چوہدری کو پیش کرنے کے موقع پر اسلام آباد کچہری میں پولیس کی سخت سیکیورٹی تعینات کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ فواد چودری کو 25 جنوری کو لاہور سے حراست میں لیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
عدالت نے فواد چوہدری کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمیشن کے ممبران کو دھمکانے پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، ان پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
وفاقی پولیس کی مدعیت میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق ایم این اے فرخ حبیب کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
مقدمہ تھانہ فیروز والا شیخو پورہ میں درج کیا گیا ہے، وفاقی پولیس کے افسر عدیل شوکت کی مدعیت میں ڈکیتی اور ملزم کو چھڑانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔
ایف آئی ار کے متن میں لکھا گیا کہ کالا شاہ کاکو کے قریب کچھ لوگوں نے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی جبکہ ملزمان نے فواد چوہدری کو بھی چھڑانے کی کوشش کی، ملزمان نے کانسٹیبل عدنان کا وائرلیس سیٹ بھی چھین لیا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد فرخ حبیب کا بھی ردعمل سامنے آگیا، انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ درجنوں بندوقوں والے تربیت یافتہ پولیس والوں سے نہتے فرخ حبیب نے ڈکیتی کرلی اور ان کی وردیاں بھی پھاڑ دی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ایف آئی آر کے متن میں ویسے بہت ہی ماٹھی کہانی بنائی گئی ہے، میں نے تو بغیر نمبر پلیٹ گاڑی کو روکا تھا، عدالتی احکامات بتانے کے لئے یہ پولیس کے ساتھ ڈکیتی کہا سے آگئی۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد ملک میں گیس، بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہوگی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے پوئے حماد اظہر نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ردعمل میں کہا کہ جب ہم نے حکومت چھوڑی تو ڈالر 182روپے پر تھا، ہماری حکومت ہوتی تو ڈالر 200 روپے سے اوپر نہ جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالر آج 25 روپے مہنگا ہوا، اوپن مارکیٹ کا ریٹ ابھی سامنے نہیں آیا، ڈالر کی قیمت میں اضافے کے اثرات سامنے آئیں گے، ملک میں گیس، بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہو جائے گی، البتہ اگر ہم اسٹیٹ بینک کو آزاد رکھتے تو ڈالر 200 بھی کراس نہ کرتا۔
حماد اظہر نے کہا کہ گزشتہ 9 ماہ میں تین اشاریہ چار فیصد ماہانہ ڈالر کی قدر میں اضافہ رہا، اسٹیٹ بینک اب خام مال کی ایل سی نہیں کھول رہا، ہر انڈسٹری کی سپلائی چین بھی متاثر ہو رہی ہے، ڈالر کی قدر میں اضافے کے اثرات تین ماہ بعد سامنے آئیں گے۔
فواد چوہدری کی گرفتاری پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ فواد کو عدالت ایسے لایا گیا جیسے کسی دہشت گرد کو لایا جاتا ہے، انسانی حقوق کی سب سے توانا آواز اور ساری عمر صحافتی آزادی کی بات کرنے والے کو گرفتار کیا گیا، کل فواد چوہدری قوم کا ہیرو بن گیا ہے۔