ملکی خزانے پر بوجھ، سری لنکا نے اپنی فوج آدھی کرنے کا اعلان کردیا
معاشی بدحالی کے شکار سری لنکا نے اپنی فوج میں انتہائی حد تک کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سری لنکن وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ملک بدترین معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دیوالیہ ہونے والی سری لنکن قوم اگلے سال تک فوجی اہلکاروں کی تعداد میں ایک تہائی کمی کر کے ایک لاکھ 35 ہزار اور 2030 تک صرف ایک لاکھ کر دے گی۔
وزیر مملکت برائے دفاع پریمیتھا بندارا تھینکون نے جمعہ کے روز کہا کہ حکومت اپنے مالی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
پریمیتھا نے ایک بیان میں کہا کہ، ”فوجی اخراجات بنیادی طور پر ریاستی اخراجات ہیں جو بالواسطہ طور پر قومی اور انسانی سلامتی کو یقینی بنا کر اقتصادی ترقی کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔“
پریمیتھا نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد 2030 تک ایک ”تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے صحیح اور متوازن“ دفاعی قوت بنانا ہے۔
بائیس ملین افراد پر مشتمل سری لنکا کئی مہینوں کی خوراک اور ایندھن کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے دوچار ہے۔
سری لنکا کے زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہو چکے ہیں۔
صدر رانیل وکرما سنگھے نے ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے اور اخراجات میں سخت کٹوتیاں عائد کر دی ہیں، تاکہ حکومتی قرضوں کے نادہندہ ہونے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے متوقع بیل آؤٹ کی منظوری کو ہموار کیا جا سکے۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، سری لنکا کی مسلح افواج کا حجم 2017 اور 2019 کے درمیان 317,000 اہلکاروں پر مشتمل تھا۔
کولمبو میں قائم تھنک ٹینک ویریٹ ریسرچ کے مطابق، سری لنکا کے کل اخراجات میں دفاعی شعبے کا حصہ 2021 میں اس کی مجموعی گھریلو پیداوار کے 2.3 فیصد تک پہنچ گیا تھا لیکن گزشتہ سال یہ 2 فیصد تک گرا۔
گزشتہ سال عوامی اخراجات میں دفاع کا حصہ تقریباً 10 فیصد تھا، اور تجزیہ کاروں کے مطابق، سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کی تنخواہ حکومت کے تنخواہ کے بل کا نصف بنتی ہے۔
سری لنکا نے رواں ہفتے خبردار کیا تھا کہ اس کے پاس سرکاری ملازمین اور پنشن کی ادائیگی کے لیے بمشکل اتنی آمدنی ہے۔
Comments are closed on this story.