لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک دن اور دے دیا
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس 24 گھنٹے ہیں، ان کے پاس 186 ارکان کی سپورٹ ہونی چاہیئے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر، اٹارنی جنرل منصور اعوان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ معاملات حل نہیں ہوئے، ہم تو چاہتے ہیں کہ معاملہ حل ہو، جس پر مسلم لیگ (ن)کے وکیل نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لیں گے توہی معاملہ حل ہوگا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گورنر کے وکیل کوئی پیشکش کر رہے ہیں؟ جس پر گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ اس روز آفر کی تھی کہ دوچار روز میں اعتماد کا ووٹ لے لیں تو حکم واپس لے لیتے ہیں،اب انہیں مناسب وقت مل چکا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ممبران نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں وزیر اعلیٰ پر اعتماد ہے یا نہیں، منظور وٹو کیس میں 2 روز کا وقت دیا گیا تھا، آپ ہمیں مناسب وقت بتا دیں ہم اعتماد کے ووٹ کے لئے تاریخ رکھ دیتے ہیں،ہم آپ کا معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں، بہر حال فیصلہ اسمبلی ممبران نے ہی کرنا ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینا چاہیئے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ وزیراعلیٰ کو اعتماد حاصل ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانونی طریقہ کار مکمل ہونا ضروری ہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اسمبلی کو خود ہی طے کرنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد حاصل ہے یا نہیں، یہ معاملہ عدالت نے نہیں آپ نے مل کر طے کرنا ہے، عدالت معاملات طے کرنے کے لئے آپ کو قابل قبول وقت دے گی۔
عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ صوبے میں حالات خراب ہونے پر گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم جاری کرسکتے ہیں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اپوزیشن نے گیند آپ کی کورٹ میں ڈال دی ہے کہ کب آپ اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں، کیا ایسے حالات نہیں ہیں کہ اعتماد کا ووٹ لیا جائے، آپ گورنر کی جانب سے آفر کو قبول نہیں کر رہے،جس پر علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی ہم یہ آفر قبول نہیں کر رہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ پھر ہم اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کر دیتے ہیں۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں گورنر کی آفر پر اپنے دلائل دینا چاہتا ہوں، گورنر نے اعتماد کے لئے جو وجوہات لکھیں وہ قانون کے مطابق نہیں، پہلے وجوہات کو دیکھنا ہوگا اس کے بعد ہی اعتماد کا ووٹ لیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ گورنر کی جانب سے آپ کو آفر کروائی گئی ہے کہ آپ بتائیں کتنا وقت چاہیئے،اب تک جو حالات پیش آئے ہیں ان کی روشنی میں کیا اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں،گورنر دوبارہ نوٹس جاری کریں اور کہیں کہ اتنے دن میں اعتماد کا ووٹ کیوں نہیں لیا تو پھر کیا ہوگا،آپ چاہتے ہیں کہ ہم میرٹ پر کیس کا فیصلہ کردیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ آپ کے پاس 12 سے 13 دن کا وقت تھا لیکن آپ نے اعتماد کا ووٹ ہی نہیں لیا،ہم سمجھتے تھے کہ آپکے پاس اچھا خاصہ وقت تھا۔
وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ ہم اس پر کل تفصلی جواب جمع کرا دیں گے ، جس پر عدالت نے کہا کہ نہیں ہم اس پر آج ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، یہ معاملہ اب مزید آگے نہیں جانا چاہیئے،آپ کو کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیئے۔
اٹارنی جنرل منصور علی اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صابر شاکر کیس میں کہا تھا کہ عدم اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ تمام فریقین چاہتے ہیں دوسرا پہل کرے، جو پہل کرے وہ پھنس جائے، ہم چاہتے تھے آپ مل کر اعتماد کا ووٹ لینے کا معاملہ حل کرلیں۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر آپ دونوں میں افہام و تفہیم نہیں تو پھر ہم قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، ہم اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 371 ہے، 176 پی ٹی آئی کے ممبر ہیں جبکہ 10 (ق) لیگ کے ہیں، وزیر اعلیٰ کو کل 186 ارکان نے ووٹ دے کر منتخب کیا، تحریک عدم اعتماد کے لئے 20 فیصد ممبران نے ریزولوشن دائر کرنا ہوتی ہے، گورنر تعینات کیے جاتے ہیں، منتخب ہوکر نہیں آتے، گورنر کے اختیارات محدود ہیں، گورنر پنجاب سیاسی ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ یہاں پر برطانیہ کا قانون نہیں ہے، قانون میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے اختیارات کو متوازی رکھا ہے، وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑنے اور گورنر ممبران کی ریزولوشن پر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب کے نوٹیفکیشن کی معطلی میں کل تک توسیع کردی۔
عدالت نے وزیراعلی کی جانب سے اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی پر کل تک عملدرآمد کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر گورنر پنجاب کا وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا آرڈر معطل کر دیا تھا۔
عدالت نے گزشتہ سماعت پر چوہدری پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر بحال کرنے کا حکم دے دیا تھا جبکہ عدالت نے چیف سیکرٹری کا کابینہ کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن بھی معطل کر دیا تھا ۔
Comments are closed on this story.