کبریٰ خان کی درخواست پر27 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کیخلاف کارروائی کا آغاز
ایف آئی اے نے اداکارہ کبریٰ خان سمیت 4 اداکاراؤں پر پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسرمیجرعادل راجہ کی جانب سے وی لاگ میں سنگین الزامات عائد کیے جانے کے بعد سوشل میڈیا پرجاری مہم میں ملوث اکاؤنٹس سے متعلق رپورٹ پیش کردی۔
برطانیہ میں مقیم پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر عادل راجہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں جو اس سے قبل سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کے خلاف انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرچکے ہیں ۔ عادل راجہ نےحال ہی میں یوٹیوب پر آئی ایس آئی کے کئی حاضر سروس افسران سمیت 4 پاکستانی اداکاراؤں کے نام نہ لیتے ہوئے ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بتاتے ہوئے سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔
گو عادل راجہ نے واضح نام نہیں لیے تھے تاہم اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ماہرہ خان، کبری خان ، سجل علی اور مہوش حیات کے نام گردش کرنے لگے اور اداکاراؤں کے خلاف نفرت آمیز ٹویٹس دیکھنے میں آئیں۔
اداکارہ نے 5 جنوری کو سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ من گھڑت الزامات سے ان سمیت دیگر اداکاراؤں کا وقارمجروح کیا ہے۔ درخواست میں 14 ٹوئٹر اور 13 انسٹا گرام سمیت 27 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں بلاک کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکیے جانے کے بعد عدالت نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو9 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
آج ہونے والی سماعت کے دوران ایف آئی اے نے کبریٰ خان کے خلاف مہم چلانے والے سوشل میڈیا اکائونٹس سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اداکارہ کی درخواست پر کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ پی ٹی اے کو یوٹیوب ، ٹوئٹر ، انسٹا گرام سمیت دیگر اکاؤنٹس بلاک کرنے کیلئے کہہ دیا گیا ہے۔
کبریٰ خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ یو ٹیوبرسابق فوجی افسر نے میڈیا انڈسٹری کی 4 اداکاراؤں کے خلاف جھوٹے الزامات لگا کرتذلیل کی۔ جھوٹے اور من گھڑت الزامات سے میری اور دیگر اداکاراؤں کی عزت و وقار کو مجروح کیا گیا۔
درخواست کے متن کے مطابق یوٹیوبرعادل فاروق راجہ بعد میں ایک اوروضاحتی ویڈیومیں اپنے پہلے والے موقف سے مکرگئے ، اس دوران اداکارہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ، ہتک آمیز مواد کو ہٹانے کے لیے ایف آئی اے اور پی ٹی اے سے رابطہ کیا گیا ہے لیکن یوٹیوب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
Comments are closed on this story.