لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بینچ نے صحافی ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظاہرعلی اکبر ،جسٹس جمال خان مندوخیل اورجسٹس محمدعلی مظہر شامل ہیں۔
ارشدشریف قتل کی تحقیقات کرنے والی اسپیشل جےآئی ٹی کےممبران ،مرادسعید،سیکرٹری داخلہ ،آئی جی اسلام آباداورآئی بی کے حکام بھی عدالت میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کیا پروگریس ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی نے جواب دیا کہ پیشرفت رپورٹ جمع کروا دی ہے،اسپیشل جے آئی ٹی نے 41 لوگوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی نے کہا کہ جنرل تحقیقات کینیا، یو اے ای اور پاکستان سمیت تین حصوں پر مشتمل ہے، جنرل جے آئی ٹی نے اب انکوائری کے لئے کینیا جانا ہے، جنرل جے آئی ٹی پہلے یو اے ای اور وہاں سے کینیا تحقیقات کے لئے جائے گی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا کینین اتھارٹی متعلقہ لوگوں کو پیش کرنے کے لئے تیار ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے آئی ٹی کو وزارت خارجہ کی مکمل مدد حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے جن41 لوگوں سےانکوائری کی، کیاوہ پاکستان میں ہیں، کیاجے آئی ٹی نے کسی سے ویڈیولنک کےذریعے انکوائری کی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جولوگ باہر ہیں ان سے پہلے کینیا جاکر انکوائری ہوگی، کینیا میں ان لوگوں سے تحقیقات کے بعد انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحقیقات کے 3 فیز ہیں، ایک فیز پاکستان، دوسرا دبئی اورتیسرا کینیا ہے، کیا فیز ون کی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں،جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیزون کی تحقیقات تقریبا مکمل ہوچکی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا تحقیقات مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحقیقات مکمل ہونے کی ٹائم لائن نہیں دی جاسکتی، جے آئی ٹی پہلے دبئی اورپھرکینیا میں تحقیقات کرے گی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا جے آئی ٹی نے سب کے سیکشن 161 کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ تمام لوگوں کے بیانات سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے پھر کہا کہ اگر سیکشن 161 کے تحت بیان ریکارڈ نہیں ہوئے تو پھر اب تک کوئی کام نہیں ہوا، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 41 لوگوں کے بیان سیکشن 161 کے تحت ریکارڈ ہوئے ہیں۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا امکان ہے کہ تحقیقات میں اقوام متحدہ کو شامل کیا جائے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ضرورت پڑے گی تو یہ آپشن بھی موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ وزارت خارجہ کی طرف سے کینیا کی اتھارٹی کو خط گزشتہ روز کیوں لکھا گیا، وزارت خارجہ خط پہلے بھی لکھ سکتی تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تحقیقات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر رہے ہیں، عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لئے آزادی دے رہی ہے، معاملے کی صاف شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں، عدالت صاف شفاف تحقیقات کیلئے بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی، ارشد شریف کے کچھ ڈیجٹل آلات ہیں جو ابھی تک نہیں ملے، کیا جے آئی ٹی کو یہ پتہ چلا کہ وہ آلات کدھر ہیں، پتہ چلائیں وہ ڈیجٹل آلات کینین پولیس، انٹیلیجنس یا ان دو بھائیوں کے پاس ہیں، یہ جے آئی ٹی کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لئے وزارت خارجہ سے ڈسکس کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لئے فنڈز فراہم کیے ہیں، وفاقی حکومت نے 4 دسمبر کو میوچل لیگل اسسٹنس کے خطوط لکھے ہیں، وفاقی حکومت پرامید ہے کہ باہمی قانونی تعاون کے خطوط پر ممالک سے اچھا رسپانس آئے گا، جے آئی ٹی نے اب تک 41 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں، اصل ایشو ارشد شریف قتل کی تحقیقات کا تعلق غیر شواہد کا ہے، امید کرتے ہیں جے آئی ٹی معاملے پر اچھی طرح تیار ہو کر تحقیقات کے لئے بیرون ملک جائے گی۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.